سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
29دسمبر،2023
اردو کی پیدائش ہندوستان
میں ہوئی اور دسویں صدی میں شمال مغربی علاقوں میں اردو کی شکل واضح ہونے لگی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمدورفت ماقبل اسلام دور سے ہی تھی۔ عرب تاجروں کے ساتھ
ہندوستان کے لوگوں کے تجارتی تعلقات تھے۔ اس لئے ہندوستان کے مغربی ساحل کے لوگ عربی
زبان سے کلی طور پر ناواقف نہیں تھے۔ وہ عربی کے الفاظ مقامی بولی میں استعمال بھی
کرتے تھے۔ محمد بن قاسم کے ذریعہ سندھ کی فتح کے بعداس خطے میں عربوں کا عمل دخل
بڑھ گیا اور عربی زبان بھی یہاں کی زبانوں اور بولیوں پر اثرانداز ہونے لگی۔یہی
وجہ ہے کہ اردو زبان پر عربی زبان کا اثر بہت گہرا ہے۔ بعد کے ادوار میں ایرانی
اور افغان حکمرانوں کے تسلط کے دوران فارسی نے بھی اردو پر اثر ڈالا اور عربی کے
ساتھ فارسی کے الفاظ اور تراکیب بھی اردو میں کثیر تعداد میں داخل ہوگئیں۔ اس طرح
فارسی اور عربی کے الفاظ کی مقامی اپ بھرنش میں آمیزش سے اردو کی ترقی یافتہ شکل
ابھری۔
اس کے علاوہ اردو میں بہت
سے ایسے الفاظ ہیں جو ہندی سے مستعار ہیں۔ اردو کے زیادہ تر افعال ہندی اور سنسکرت
سے مستعار ہیں ۔سنسکرت میں لفظ "کر " کا معنی ہاتھ ہے جس سے ہندی اور
اردو میں فعل" کرنا " بنا ۔ اس لئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اردو کے
افعال ۔۔۔۔جانا ، آنا ، سونا، جاگنا ، اترنا ، بکھرنا ۔۔۔وغیرہ ہندی کے نظام فعل
کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام فعل
ہندی سے نہیں آئے ہیں بلکہ کچھ افعال عربی سے بنے ہیں اگرچہ بادی النظر میں وہ
ہندی کے معلوم پڑتے ہیں۔ ان میں ایک فعل ہے " بنانا " ۔ یہ لفظ عربی لفظ
کی ہندی شکل ہے۔ عربی میں ایک لفظ ہے بنیان (عمارت ). ایک اور لفظ ہے بناّ (بنانے
والا) (سورہ ص:37) ۔ اس کا فعل ماضی ہے بنواء (بنایا)(سورہ التوبہ110)
یعنی ہندی فعل بنانا کا
اصل ہے ب اورن۔ جو عربی سے مستعار ہے۔ اس لئے یہ خالص ہندی لفظ نہیں ہے۔
اردو میں بہت سارے الفاظ
عربی سے ماخوذ ہیں یا پھر عربی الفاظ کے بدلی ہوئی شکل میں مستعمل ہیں۔ لیکن یہاں
عربی کے ان الفاظ کا ذکر مقصود ہے جو اردو اور ہندی میں مستعمل ہیں اور عام طور پر
انہیں ہندی کا لفظ سمجھا جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک لفظ ہے قلم
جو نہ صرف ہندی اور اردو میں بلکہ بنگلہ اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی مستعمل
ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اور قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے۔ قرآن میں اس کی جمع
اقلام ہے۔
ایک عام لفظ اوقات ہے جو
اردو اور ہندی میں محاورے کے طور پر بولا جاتا ہے۔ جیسے تمہاری اوقات کیا ہے؟
دراصل یہ وقت کی جمع نہیں ہے۔ اگر یہ وقت کی جمع ہوتا تو اسے محاورے میں مؤنث نہ
بولا جاتا کیونکہ وقت مذکر ہے۔ دراصل عربی میں اصل لفظ اقوات ہے جو قوت کی جمع
ہے۔قرآن کی سورہ حم السجدہ آیت 10 میں زمین کے اندر پائی جانے والی معدنیات کو اس
کی اقوات کہا گیا ہے۔ لہذا، جب ہم محاورے میں کسی سے کہتے ہیں کہ تمہاری اوقات کیا
ہے تو دراصل ہم عربی لفظ اقوات کی بگڑی ہوئی شکل بول رہے ہوتے ہیں۔ یعنی تمہاری
سماجی حیثیت کیا ہے۔
اردو میں "وہ"
اور "یہ" بھی ہندی کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ عربی کے "ھو" اور
"ھی" کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔
اردو اور ہندی میں ایک
لفظ " فتور " استعمال ہوتا ہے جو بگاڑ یا خرابی کے مفہوم میں لیا جاتا
ہے۔اصل عربی لفظ فطور (سورہ الملک : 3) ہے۔
کبھی کھبی ہندوستان میں
کسی بات پر تہلکہ مچ جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ تہلکہ ہندی کا لفظ ہے جبکہ یہ
خالص عربی کا لفظ ہے۔ عربی میں یہ التھلکہ (البقرہ: 195) ہے جس کا معنی ہلاکت ہے۔
اسے ہندی میں محاورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔تہلکہ عربی لفظ ہے اور تہلکہ
مچانا ہندی اردو محاورہ ہے۔
کبھی کبھی تکلیف یا افسوس
کا اظہار کرنےکے لئے ہندی اور اردو دونوں زبانوں کے دکھی لوگ لفظ "اف "
زبان سے نکالتے ہیں۔ یہ بھی عربی کا لفظ ہے ۔ (الاحقاف:17)۔
ایک لفظ آسمان ہے جو ہندی
اور اردو دونوں زبانوں میں مستعمل ہے ۔دراصل یہ عربی کے لفظ "السّماء"
کی اردو شکل ہے۔السّماء کثرت استعمال سے آسماں بن گیا۔
اردو اور ہندی میں ایک
لفظ ہے "خرچ" یا " خرچہ"۔ دراصل یہ عربی کے لفظ
"خرج" کی ہندوستانی شکل ہے۔ جب ذوالقرنین دو پہاڑوں کے درمیان ایک بستی
میں پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ان سے
درخواست کی کہ یاجوج اور ماجوج کی لوٹ مار سے بچانے کے لئے وہ ان کے درمیان ایک
دیوار تعمیر کرادیں۔ جو خرج (خرچہ ) ہوگا وہ ہم دیں گے ۔(الکہف: 94)۔لہذا، خرج کی
اردو ہندی شکل خرچ ہے۔ اسی سے لفظ خراج نکلا ہے ۔
ہندوستان میں میلہ کا لفظ
عام ہے۔ مختلف شہروں میں میلے لگتے ہیں۔ اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ میلہ ہندی کا لفظ
ہے۔ جبکہ میلہ بھی عربی کا لفظ ہے۔ ماقبل اسلام عرب میں حکومت نام کی کوئی چیز
نہیں تھی۔ اس لئے مکہ کے قبائل کے نمائندوں کی ایک کمیٹی تھی جو ہر سال حج کے موقع
پر انتظامی امور دیکھتی تھی۔ اس کمیٹی کو میلہ کہا جاتا تھا۔ ہر سال حج سے قبل اس
کمیٹی کی میٹنگ مکے میں ہوتی تھی جہاں تمام قبائیل کو ذمہ داریاں تقسیم کی جاتی
تھیں۔ ظاہر ہے اس میٹنگ کے موقع پر تمام قبائل کے خیمے لگتے ہونگے۔ اشیائے ضروری
کی دکانیں بھی لگتی ہونگی اور مختلف شعبوں کے کاریگر اور فنکار بھی وہاں جمع ہوتے
ہوں گے۔ اور وہ پورا اجتماع ہی میلہ کہلانے لگا ہوگا۔لہذا، جب ہندوستان میں اسی
طرح کے اجتماعات تہواروں کے موقع پر لگنے لگے ہوں گے تو انہیں بھی میلہ کہا جانے
لگا ہوگا۔
موالی اور کرسی بھی ہندی
کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ خالص عربی کے الفاظ ہیں۔اردو اور ہندی میں یہ مختلف معنوں
میں استعمال ہوتے ہیں۔ عربی میں الموالی (سورہ مریم :5)عزیزوں و رشتہ داروں کے لئے
بولا جاتا ہے جبکہ اردو ہندی میں بالکل مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے۔ الکرسی
(سورہ البقرہ: ) کا معنی عرش ہے جبکہ اردو ہندی میں یہ بیٹھنے کی جگہ ہے۔
ایک اور لفظ ہے الکترا
جسے ہم ہندی کا لفظ سمجھتے ہیں۔دراصل یہ عربی کے لفظ قتر (سورہ یونس:26) بمعنی
سیاہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
اس طرح کے اور بھی الفاظ
پیش کئے جاسکتے ییں جو عربی سے نکلے ہیں لیکن ہندی کے سمجھے جاتے ییں۔ ان مثالوں
سے یہ بھی واضح ہوتا یے کہ عربی زبان کا اثر صرف اردو پر نہیں بلکہ ہندی پر بھی
ہے۔
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism