عرب نیوز
12 اپریل 2013
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں، سورۃ جمعہ کے آخر میں ذریعہ معاش کے حصول کے بارے میں ایک آیت نازل کیا ہے جس کا ،طلب ہے، " جب تم نماز ختم کر لو تو جاؤ اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو تلاش کرو :یہاں اس کا مطلب کام: ایک ذریعہ معاش ہے ۔ جو کوئی ایک ذریعہ معاش حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
علماء کرام نے کہا کہ ذریعہ معاش کی تلاش کے بارے میں مندرجہ ذیل احکام ہو سکتے ہیں :
1۔ ذریعہ معاش کی تلاش زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے، کسی کے لئے واجب ہو سکتا ہے۔
2۔ ذریعہ معاش کی تلاش کسی ایسے شخص کے لئے مستحسن ہو سکتی ہے، جو اس کے ذریعہ معاش کے بارے میں یقینی نہیں ہو ، کہ کیا اس کے پاس ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے؟ تو اگلے کام کی تلاش اس کے لئے مستحسن ہے ۔
3۔ وہ اس صورت میں مکروہ (ناپسند) ہو سکتا ہے، جب اسے اس بات میں کوئی شک ہو کہ وہ جو کر رہا ہے حلال ہے یا حرام ہے ۔
4۔ اور ان چیزوں کے ذریعہ معاش کی تلاش حرام ہو سکتی ہے ، جسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ممنوع قرار دیا ہے ۔
لیکن ذریعہ معاش کے حصول کا عام حکم مباح یا واجب ہے ۔ جس کے لئے زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک ذریعہ معاش حاصل کرنا ضروری ہے، ایسے شخص پر ذریعہ معاش کی تلاش فرض ہے ۔
عمر (رضی اللہ عنہ) ایک دن مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں آئے اور دو نوجوان لوگوں کو پایا۔ انہوں نے ان سے پوچھا:
"آپ کیا کرتے ہیں؟" انہوں نے کہا کہ "ہم صرف اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں۔" عمر نے ان سے کہا، "نہیں، تم کہاں کام کرتے ہو؟" انہوں نے کہا کہ ہم کام نہیں کرتے " ۔ ہم نیک لوگ ہیں جو صرف اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ الحمد للہ ہم ان لوگوں میں سے ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے اپنا قرب عطا کرنے کے لئے منتخب کیا ہے ۔ "
پھر عمر نے ان سے کہا " ایک منٹ انتظار کرو" اور وہ ایک چھڑی لے کر واپس آئے اور انہیں مارنا شروع کر دیا، اور کہا کہ جاؤ اور نوکری تلاش کرو ۔
ایک صحیح حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حکیم ابن ھشام ابن خویلد سے کہا کہ، "حاکم، دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔"
سب سے بہترین مثال حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کی ہے۔ جب وہ خلیفہ بنے تو اگلے دن عمر نے ان کو کام پر جاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ: اے ابو بکر،"تم کہاں جا رہے ہو " انہوں نے کہا کہ "مجھے کام کرنا ہے" عمر نے کہا کہ آپ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں " ۔ آپ کام کرنے کے لئے کس طرح جا رہے ہیں؟ آپ مصروف ہونے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا "مجھے ایک ذریعہ معاش کی ضرورت ہے ۔
عشرہ مبشرہ میں سے ایک عبد الرحمن ابن عوف (رضی اللہ عنہ ) جیسا کہ امام بخاری نے اپنے مجموعہ میں روایت کی ، کہ جب انہوں نے مدینہ ہجرت کی تو وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے نبی (صلی علیہ وسلم ) کو ، ان کی آمد پر سلام کیا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: "آپ کہاں جا رہے ہیں؟" انہوں نے کہا "میں بازار جا رہا ہوں۔"
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا "کیوں؟" تو انہوں نے کہا کہ "اپنی گذر بسر کے قابل آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے میں ، مصروف ہونے کے لئے۔"
انہوں نے اس سے انہیں نہیں روکا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ یہ جانتے تھے کہ، وہ ایک انصاری عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے معاملات کو حل کرنے کے لئے ضرورت مند ہیں ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک بار یہ دعا کی "اے اللہ، مجھے غریبی میں جلا ۔" کبھی کبھی اس دعا کا حوالہ یہ کہتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ،ذریعہ معاش کی تلاش کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ لیکن علماء کرام نے یہاں یہ اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ، (مجھے مسکین جلا ) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ائے اللہ میرا بھروسہ صرف تو ہے ، یہاں لفظ مسکین کا مطلب صرف اللہ تعالی پر انحصار اور اس پر یقین کرنا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ "بہترین جائیداد نیک شخص کی ملکیت ہے۔" ایک اور مثال ابو طلحہ زید ابن سہل کی ہے، جب انہوں نے اللہ کی خاطر اپنا باغ دے دیا تو اللہ نے فرمایا ، "تمہیں نیکی اس وقت تک حاصل نہیں ہو گی جب تک تم وہ چیز نہیں دو گے جس سے تم محبت کرتےہو ، تو انہوں نے فرمایا کہ ‘‘ میں اس باغ سے محبت کرتا ہوں ’’اور اسی لئے انہوں نے اللہ کی خاطر اسے صدقہ کر دیا ۔
امام حنبل جن کی زبان انتہائی سخت اور تیز ہوا کرتی تھی ، نے فرمایا ۔‘‘وہ سخت لوگ، اگر اس بات کو جانتے کہ ، رسول اللہ یمنی کپڑے ( جو کہ ایک قسم کا بہت ہی آرام دہ کپڑا ہے)پہننا پسند کرتے تھے، اور اچھی خوشبو اور میٹھائی پسند کرتے تھے ، تو وہ مرتد ہو جاتے اور اسلام کو چھوڑ دیتے ’’۔ انہوں نے کہا، کیونکہ انہوں نے اسلام کو اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ وہ اس بات کا اندازہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح سادہ زندگی گزارتے تھے ۔ جیسا کہ امام ابن القیم نے زائد المعد میں ،جو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں چار جلدوں میں ایک شاہکارہے ، ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سادگی پسند تھے ۔ کسی نے اگر انہیں کچھ دیا تو وہ اسے اس وقت تک پہنتے جب تک وہ اللہ تعالی کے ذریعہ ممنوع نہ قرار دی گئی ہو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے عظیم طالب علموں میں سے کچھ حالات کی وجہ سے غریب تھے، اور ان میں سے کچھ امیر تھے۔ امام مالک کے دادا اور والد ایک اچھی مثال ہیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جو بہت مالدار تھے ۔ امام مالک جب حدیث بیان کرتے تو بادشاہ کے کپڑے زیب تن کرتے ۔ وہ اپنے نوکروں کو لوگوں کے پاس بھیجتے اور ان سے پوچھتے کہ کیا تم حدیث یا اسلامی قانون سیکھنا چاہتے ہو ؟ اور لوگ ان سے کہتے کہ "ہم اسلامی قانون سیکھنا چاہتے ہیں۔" پھر امام مالک فوری طور پر باہر آ تے ۔
لیکن اگر انہوں نےیہ کہا "ہم نبی کی حدیث سے سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں،" امام مالک غسل کرتے ، وضو بناتے ، جتنا بہترین لباس وہ پہن سکتے پہنتے ، اور آ کر حدیث سکھاتے ۔ در اصل لوگ انہیں تنبیہ کرتے ، بعض اہل علم نے ان سے یہ کہتے ہوئے خطوط لکھے "تم اس طرح کے کپڑے کیوں پہنتے ہو : ؟ تمہیں زیادہ متقی ہونا چاہئے ۔
اور ان کا جواب دلچسپ تھا۔ انہوں نے کہا کہ: " جو تم کر رہے ہو اچھا ہے، اور جو میں کر رہا ہوں اچھا ہے۔ تو مجھے اکیلے چھوڑ دو ۔ "
ہم میں سے بہت سے لوگ امام ابو حنیفہ کو ایک استاد اور ایک فقیہ کے طور پر جانتے ہیں، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے حدیث بیان کرتے تھے ۔ لیکن اگر آپ ابو حنیفہ کے شہر میں ریشم خریدنا چاہتے ہیں تو ریشم خریدنے کے لئے ، سب سے اچھی جگہ ان کی دکان تھی، جو وہ اپنے بھائی کے ساتھ چلاتے تھے ۔ وہ ایک امام تھے، اس کے باوجود ان کاروبار تھا، اور انہوں نے کافی رقم کمائے ۔
امام احمد بن حنبل سے ایک بار پوچھا گیا: "اگر کسی کے پاس 000، 100دینار ہے، تو کیا وہ زاہدوں میں سے ہو سکتا ہے ، کیا وہ ایک نیک انسان ہو سکتا ہے؟" امام احمد نے ، جو چاروں میں سب سے زیادہ سخت تھے، کہا: جہاں تک کسی شخص کے زاہدوں میں سے ہونے کا سوال ہے۔ "جی ہاں،( وہ زاہدوں میں سے ہے) جب تک کہ اس انسان کے دل میں پیسے کی محبت نہیں آتی ۔"
امام ابو حامد الغزالی، جن کی وفات ہجرت کے 505 سال بعد ہوئی ، کئی بار لوگوں نے انہیں عابدانہ شخصیت کے طور پر دیکھا ۔ لیکن ایک مرتبہ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا: " ائے میرے خدا، کچھ لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے لوگوں پر سب کچھ حرام اور مشکل بنا دیا ہے ،یہاں تک کہ تم صرف زمین پر گھاس کھانے کو حلال پا سکتے ہو ، اگر تم ان لوگوں کی رائے پر عمل کرتے ہو ! "
اور پھر انہوں نے لوگوں کو تنبیہ کی کہ : "ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوا نے مذہب کو ایسا کیوں بنا دیا ہے ؟ "
ماخذ:
http://www.arabnews.com/news/447865
URL for English article
https://newageislam.com/islam-spiritualism/how-strike-balance-between-work/d/11159
URL for this article
https://newageislam.com/urdu-section/how-strike-balance-between-work/d/11376