New Age Islam
Thu Mar 27 2025, 09:37 AM

Urdu Section ( 19 March 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Arab-Israel Talks: Some other Reasons of Failure عرب اسرائیل مذاکرات- ناکامی کی کچھ دیگر وجوہات

  

باسل حجازی، نیو ایج اسلام

19 مارچ، 2014

1948 سے لے کر اب تک عرب اسرائیل مذاکرات تواتر سے ناکام ہوتے چلے آرہے ہیں، اس کی وجہ سیاسی موقف اور مفادات کا فرق ہی نہیں بلکہ زبان، ثقافت اور ذہنیت کا فرق بھی ہے۔

سب سے پہلے تو فطرتاً اور تاریخی طور پر عربی مذاکرات ایسے کرتا ہے جیسے مال خرید رہا ہو، مثال کے طور پر تاجر کہتا ہے کہ یہ قالین ہزار دینار کا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ نہیں میں صرف پانچ سو دوں گا، اس طرح سودا ہوجاتا ہے اور تاجر کے ساتھ آپ کے تعلقات بھی بن جاتے ہیں، اگر سودا نا بھی ہو تو فالتو وقت بڑی اچھی طرح سے کٹ جاتا ہے، بیشتر عربوں کے ہاں یہ وقت گزاری کا ایک اچھا مشغلہ ہے تاہم اسرائیلی کو ایسے طریقہ کار سے نفرت ہے اور وہ اس طرح کی سودے بازی کو عداوتی ماحول میں بقا کی جنگ سمجھتا ہے۔

دوم یہ کہ اسرائیلی "ان شاء اللہ" اور "مُش مشکلۃ" (یعنی کوئی مسئلہ نہیں) کی ذہنیت کو نہیں سمجھتا جو عربوں کی زبان پر ایسے سوار رہتی ہے جیسے کھانے میں نمک ضروری ہوتا ہے، یہ عرب کی مذاکراتی زبان کا ایک لازمی حصہ ہے، دونوں اطراف سے ایک دوسرے سے مختلف ثقافتی اور زبانی انداز کا استعمال مذاکرات کی ناکامی کی ایک اہم وجہ ہے۔

سوم یہ کہ عرب دنیا کو عربی زبان کی دور بین سے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ قرآن کی زبان ہے، چنانچہ سوچنے کا انداز اور قرآنی آیات سے استدلال اور گفتگو کے آغاز سے قبل بسم اللہ کا ورد اور دورانِ گفتگو "ان شاء اللہ" اور "ما شاء اللہ" کی گردان کرنا خاص کر جب کسی اجنبی سے مذاکراتی نشست چل رہی ہو بہت سارا وقت برباد کرتا ہے اور مترجم کو ترجمہ کی بھول بھلیوں میں الجھا دیتا ہے جس کے نتیجہ میں اصل موضوع پر توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، دوسرے لفظوں میں اسرائیلی کو ایسے ماحول میں مذاکرات کرنے میں مشکل پیش آتی ہے جس پر گفتگو کے آغاز سے لے کر اختتام تک اسلامی عقیدہ چھایا ہوا ہو اور ہر اگلا جملہ اسلامی عقیدے کا بے مثال پیکر ہو۔

چوتھا مسئلہ ایسی کسی حدِ فاصل کی عدم موجودگی ہے جو مذہب، کام، سیاست اور معاشرتی تعلقات کو الگ کر کے بغیر کسی گھماؤ پھراؤ کے براہ راست اصل موضوع پر آمدم کو ممکن بناتی ہو اور وقت کے زیاں کا سبب نہ بنتی ہو جس سے مذاکرات مشکل ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر کوئی سیاح جو کسی عرب سفارتخانے میں ویزے کے لیے آتا ہے اسے معاشرتی تعلقات کے جادو کا بخوبی پتہ چلے گا جب پانچ گھنٹے انتظار کے با وجود اسے اس بات کی ضمانت نہیں ہوگی کہ سفارتخانے کے بند ہونے سے پہلے اسے ویزا مل سکے گا یا نہیں تاہم اگر وہ ہوٹل کی انتظامیہ سے تعلقات استوار کر لے تو اسے پتہ چلے گا کہ ہوٹل کے مالک کے بیٹے کا ایک دوست سفارتخانے میں کام کرتا ہے تب محض ایک فون کال پر اس کا کام آدھے گھنٹے میں ہوجائے گا۔۔ تو معلوم ہوا کہ تکونی ترکیب کے جامد معاشروں میں معاشرتی تعلقات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں تاہم مغربی ثقافت اس سے بہت مختلف ہے۔

پنجم ادب اور اخلاق ہیں جو کہ یہ بھی بعض اوقات مسئلہ بن جاتے ہیں۔۔ جب بِل کلنٹن کی معیت میں یاسر عرفات بنیامین نتنیاہو سے امریکہ میں مذاکرات کر رہے تھے تو ایک مرتبہ وہ بضد ہوکر مُصر ہوئے کہ نتنیاہو ان سے پہلے دروازے سے اندر جائیں گے، مجھے یقین ہے کہ اس وقت نا تو کلنٹن اور نا ہی نتنیاہو کو یاسر عرفات کا مسئلہ سمجھ آیا ہوگا۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ جاپان میں ایسی کوئی پراڈکٹ فروخت نہیں کر سکتے جس پر چار کا ہندسہ لکھا ہو؟ کیونکہ جاپانی ثقافت میں چار کے عدد کا موت سے گہرا تعلق ہے۔۔!

آخری بات یہ کہ اسلام عمل کا مذہب ہے سوچ وبچار کا نہیں، یہ اتنا سادہ ہے کہ آپ محض دو جملے بول کر اس میں بڑے آرام سے پورے کے پورے داخل ہوسکتے ہیں اور محض ایک لفظ کو تین دفعہ زبان سے ادا کر کے طلاق بھی حاصل کر سکتے ہیں۔۔ کیا اتنی آسانی دنیا کے کسی اور مذہب میں آپ کو مل سکتی ہے؟ مگر خبردار جو آپ نے اسلام میں داخلے کے ایگریمنٹ کو کسی ایک لفظ سے بھی ختم کرنے کی کوشش کی تو، ورنہ آپ کی کھوپڑی داؤ پر لگ جائے گی۔۔ ایسی ذہنیت کو سیاسی مذاکرات میں لاگو نہیں کیا جاسکتا۔

نیو ایج اسلام کے کالم نگار  باسل حجازی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ فری لانسر صحافی ہیں، تقابل ادیان اور تاریخ ان کا خاص موضوع ہے، سعودی عرب میں اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کی، عرب سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، لبرل اور سیکولر اقدار کے زبردست حامی ہیں، اسلام میں جمود کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں لچک موجود ہے جو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جمود پرست علماء اسلام کے سخت موقف کے باعث دور حاضر میں اسلام ایک مذہب سے زہادہ عالمی تنازعہ بن کر رہ گیا ہے۔  وہ سمجھتے ہیں کہ جدید افکار کو اسلامی سانچے میں ڈھالے بغیر مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی ممکن نہیں۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/arab-israel-talks-some-other/d/56182

 

Loading..

Loading..