انور غازی
30 دسمبر، 2014
قارئین ! جب بھی ‘‘مدرسہ ریفارم’’ کی بات ہوتی ہے تو سب سے زیادہ زور دینی مدارس کے نصاب پر دیا جاتاہے ۔ آج کی تحریر میں مدارس کے نصاب کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جارہا ہے، جس سے مدارس پر انتہا پسندی اور تعصب کا درس دینے کے الزام کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ مدارس میں پڑھائے جانے والے مختلف علوم و فنون پر ایک نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوتاہے۔ قرآن مجید تمام اسلامی علوم کے لیے اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے قرآن کی تفسیر لکھنے اور بیان کرنے کا کام نہایت ہی حساس اور نازک سمجھا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے علماء نے عجمی لوگوں کے لیے قرآن کی تفسیر بیان کرنے او رلکھنے کےلئے 15 ایسے علوم و فنون کی تعلیم لازمی قرار دی ہے جن کے بغیر کوئی عجمی شخص قرآن کی صحیح تفسیر بیان نہیں کرسکتا ۔ مدارس میں قرآن کی تفسیر کے لئے سلف صالحین کی تفسیروں کے اتباع کو ضروری سمجھا جاتا ہے، اس کے باوجود دوسرے مکاتب فکر کے اکابر کی تفسیروں کوبھی قطعی نظر انداز نہیں کیا جاتا ۔اس کی واضح مثال یہ ہے تفسیر ‘‘ کشاف’’ جو کہ مشہور معتزلی مفسر علامہ زمخشری کی تفسیر ہے، اس سے نہ صرف تفسیر کے درس میں استفادہ کیا جاتاہے بلکہ قرآن کے اعجاز اور فصاحت و بلاغت کے بیان میں اس کی رائے کوبطور سند پیش کیا جاتاہے ۔ مزید برآں حنفی مسلک سے وابستہ مدارس کے نصاب میں شامل تفسیر کی سب سے اونچی کتاب جلا لین کے دونوں مؤلفین شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے ، لیکن ارباب مدارس نے محض اس اختلاف نظر کی بنیاد پر اس عظیم تفسیر کو اس کے جائز مقام سےمحروم نہیں کیا۔ علم حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اقوال، اعمال، اور تقریرات کے تذکروں پر مشتمل و سیع علم علمِ حدیث قیامت تک آنے والی امت کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ اس علم پر تمام اسلامی طبقات کے اکابر نے کام کیا ہے۔
اہل سنت کے چاروں فقہی مسالک کے ائمہ نے اس موضوع پر گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ مدارس میں جو کہ اکثر حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں بلاتفریق مسلک، احادیث کی تمام مشہور کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں سر فہرست بخاری شریف ہے۔ امام بخاری سے بعض مسائل میں اختلاف کے باوجود انہیں امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتاہے ، ان کی کتاب کو قرآن کے بعد سب سے عظیم اور مستند کتاب سمجھا جاتا ہے۔طحاوی شریف کے علاوہ نصاب میں شامل احادیث کی تمام کتابیں غیر حنفی ائمہ کی ہیں۔ ان کتابوں کو حنفی درس نظامی میں اتنی اہمیت حاصل ہے کہ ان کو پڑھےبغیر کسی طالب علم کو فراغت کی سند نہیں مل سکتی۔ اس سےبھی آگے بڑھ کر یہ کہ احادیث پڑھانے والے کئی اساتذہ اور طلبہ احادیث تلاش کرنے کےلئے عیسائی مستشرق ‘‘بروکلین’’ کی کتاب ‘‘المعجم المفہر س لالفاظ الحدیث’’ سے استفادہ کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے ۔ علاوہ ازیں اس زمانے میں بیروت سے شائع ہونے والی یہودی مستشرقین کی کئی کتابیں مدارس کی لائبریریوں میں تحقیق و استفادے کےلئے رکھی جاتی ہیں ۔علم فقہ میں ہر مسلک و مکتب فکر سے وابستہ ادارے میں وہی فقہی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جو اسی مسلک کے علماء نے لکھی ہوں ۔ مدارس میں علم فقہ کی سب سے اونچی کتاب ‘‘ ہدایہ ’’ ہے جس میں اختلافی مسائل میں ائمہ احناف کےنقطہ نظر کی ترجمانی کی گئی ہے، لیکن اسی ہدایہ کے حاشیہ پر مشہور شافعی محدث اور فقیہ علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ‘‘الدرای’’ بھی لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اصول فقہ میں علامہ تفتازانی کی ‘‘ التوضیح و التلویح ’’ بھی شامل نصاب ہے۔
اسلامی عقائد کی تعلیم اور عقائد میں اختلافی مسائل پر بحث و مباحثہ کے علم کو ‘‘ علم کلام’’ کہا جاتا ہے ۔ یہ علم درس نظامی کے مشکل ترین علوم میں سے ہے اور وفاق المدارس کےنصاب میں درجہ عالیہ، جو مساوی بی اے ہے، میں پڑھایا جاتا ہے۔ کلامی ابحاث کےحوالے سے علمائے اہل سنت کے دو مشہور مکاتب فکر ‘‘ ماتریدی ’’ اور ‘‘ اشعری’’ ہیں ۔ اکثر ائمہ احناف ماتریدی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ، لیکن یہ جان کر آپ کو تعجب ہوگا اس اہم اور حساس فن میں پڑھائی جانے والی واحد کتاب ‘‘ شرح عقائد’’ اشعری مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے محقق علاّمہ سعد الدین تفتازانی کی ہے۔ عقائد کے معاملے میں خصوصیت کے ساتھ اس قدر وسعت ظرفی کا مظاہرہ شاید ہی کسی مکتب فکر نےکیا ہو۔علم ِ لغت میں مدارس میں تاج العروس ، مصباح اللغات اور دیگر شاہکار کتابوں کے ہوتے ہوئے عیسائی مرتب لوئس معلوف کی شہرہ آفاق کتاب ‘‘ المنجد ’’ سےبھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ علم ادب میں اپنے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے ادیب و شاعر متنبی کی کتاب پڑھائی جاتی ہے جس کی دینی اور اخلاقی حالت تذکرہ نویسوں کے بقول نہایت ہی قابل رحم تھی، مگر چونکہ ان کی کتاب فن ادب کاشاہکار ہے، اس لئے علماء نے اس کےعقائد اور خیالات سے قطع نظر کر کےطلبہ کو ان کے ادب سےمستفید ہونے کاموقع دیا ہے۔ جاہلیت کے زمانے کی شاہکار عربی نظموں کا مجموعہ ‘‘ السبع المعلقات’’ بھی بہت سے مدارس میں داخل نصاب ہے جس کے مندرجات میں جاہلیت کے عقائد اور نظریات بھی شامل ہیں۔
علم عروض و قوافی وہ علم ہے جس کے ذریعے ہر زبان میں شعر و شاعری کے قواعد اور قوانین بیان کیے جاتے ہیں ۔اس فن میں عالم اسلام کے کئی ائمہ فن نے کئی چھوٹی بڑی کتابیں تصنیف کی ہیں مگر مدارس کی وسعت ظرفی کا اندازہ لگا لیجئے اس فن سے متعلق نصاب میں شامل واحد کتاب کسی عربی عالم یا اسلامی ادیب کی نہیں بلکہ امریکا کے شہر نیویارک سے تعلق رکھنے والے برطانوی نژاد عیسائی مصنف ‘‘ ڈاکٹر نیلسس فنڈیک’’ کی ہے جو ‘‘ محیط الدائرہ’’ کے نام سے وفاق المدارس کے نصابی نقشے میں موجود ہے اور اہتمام کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے ۔ کیا اس کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش موجود ہے مدارس میں انتہا پسندانہ رجحانات کا درس دیا جاتاہے؟ مدارس پر انتہا پسندی کے حوالے سے سب سے زیادہ الزامات فرقہ وارانہ اختلافات کے حوالے سے لگائے جاتےہیں ۔ یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ مدارس میں مخالف فرقے سے نفرت کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اس پروپیگنڈے کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے مدارس کے نصاب میں ابتدائی درجات کے طلبہ کے لئے علم منطق کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ‘‘ شرح تہذیب ’’ بھی ہے جو کسی سنی عالم کی نہیں بلکہ ایران سے تعلق رکھنے والے شیعہ مصنف علامہ عبداللہ بن الحسین اصفہانی کی ہے۔ آج تک اس کتاب کے شامل نصاب ہونے پر کسی مدرسے یا کسی عالم نے کوئی احتجاج نہیں کیا ہے بلکہ اس سے خوش دلی کے ساتھ استفادہ کیا جاتاہے ۔ یہ چند مثالیں پیش کی گئیں ہیں، ورنہ نصاب میں شامل تمام کتابوں اور ان کی شروعات و تعلیقات کو سامنے رکھ کر مدارس کے نصاب کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے مدارس نے اپنے طرز تعلیم میں کبھی فرقہ وارانہ سوچ نہیں اپنائی اور ان کا دامن ان تمام الزامات سے پاک ہے جو ان پر لگائے جاتےہیں ۔ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ آج کل اکثر حضرات کا دینی مدارس کے بارے میں وہی تصور ہے جو سالوں پرانابلکہ سالوں پرانے حقائق کے بھی خلاف ہے اور موجودہ زمینی حقائق تو اس کی نفی کرتے نظر آتے ہیں ۔ آج مدارس میں جدید ترین سہولتوں سے لے کر اعلیٰ ترین تعلیم کے ڈپارٹمنٹ موجود ہیں۔ آٹھ سالہ نصاب جو کہ عالم بنانے کے لئے ہے۔
اس میں میٹرک کے بعد تفسیر، اصول تفسیر، اُصول حدیث، فقہ، اُصول فقہ، علم کلام، منطق فلسفہ، عربی ادب و انشا، لغت ، صرف نحو بلاغت و بیان ، تاریخ سیرت اور فارسی زبان سمیت ایک درجن سے زائد علوم و فنون کی تقریباً پچاس قدیم و جدید کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ مجموعی طور پر 16 مختلف علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس نصاب میں کہیں بھی ایسا مواد نہیں ہے جس سے فرقہ واریت ، انتہاد پسندی، مخالف فرقوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہو بلکہ جوں جوں اس میں غور و فکر کے غوطے لگاتے جائینگے تو ں توں یہ بات مترشح ہوتی جائے گی کہ مدارس نصاب میں اپنائیت ، خدمت انسانی، اعلیٰ اخلاقی اقدار، آپس میں رحم دلی کاسلوک بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی روا داری کادرس دیا جاتا ہے۔
30 دسمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/madrasa-education-system-overview-!/d/100766