انور علی ایڈووکیٹ
1 جولائی، 2013
آج کل مسلم اوقاف کے موضوع پر اردو پر یس (مسلم پریس) میں سطحی اظہار خیال کیا جارہا ہے ۔ وقف ایکٹ 1995 اور ترمیمی وقف بل 53۔2010 ( جس کے متعلق وزیر با تدبیر شری رحمٰن خاں تعریفی خیالات کا اظہار کررہے ہیں) حقیقتاً ہندوستان میں اوقاف کے قتل کا پروانہ ہے۔ وقف ترمیمی بل 53۔2010 میں جوائنٹ پارلیا منٹری کمیٹی میں پبلک سماعت نہیں ہوئی۔ پبلک سےاشتہار عام جاری کر کے تجاوز طلب نہیں کی گئیں ۔ جوائنٹ پارلیا منٹری کمیٹی نے ملک کے مختلف حصوں میں ، خاص کر مسلم اکثر یتی اضلاع میں جاکر عوام کی رائے جاننے کاکام ہی نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کی انیکسی میں مخصوص مدعوئین ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ جمعیۃ علماء، جماعت اسلامی وغیرہ کے نمائندوں کو دعوت نامہ بھیج کر اور خصوصی داخلہ پاس جاری کر کے ، نشست و گفتند و برخاستند کے اصول پر عمل کیا۔ اور بس ! اور یہ بے چارے لچس لیشن سائنس اور انگریزی اصطلاحات کی باریکیوں سے نا بلد، سادگی سے یقین کر گئے جو کچھ ان سےکہا گیا۔
مسلم قانون کےایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں نے وقف ایکٹ 1995 اور وقف ترمیمی بل 2010 کا تجز یاتی جائزہ لیا ہے ۔ میں یہ تجزیہ انگریزی زبان میں اپنے محدود ذرائع سےشائع کررہا ہوں۔ اس تحریر کے ذریعہ مشتے از خر دارے چند پہلو ؤں پر روشنی ڈالی جائے گی۔
کارپوریٹ اور رئل اسٹیٹ سیکٹر:
کارپوریٹ اور رئل اسٹیٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچا نا وقف ترمیمی بل کا مرکزی مقصد ہے ۔ یہ سیکٹر پچھلے کئی سالوں سے اوقات کی جائیدادوں پر نظر رکھے ہوئےہے۔ ممبئی کے پرائم پوش علاقہ میں بوہرہ وقف جائیداد کو مہاراشٹر وقف بورڈ کے عہد داران سےمل کر ہندوستان کے سب سے بڑے کارپوریٹ گھرانے نے ریلائنس ہاؤس تعمیر کیا ہے۔ اس غیر قانونی کارروائی کے خلاف کسی بھی مسلم تنظیم مرکزی سرکار، ریاستی سرکار نے کارروائی نہیں کی۔ مسلمانوں کے بڑ بولے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذی علم وکیل ( جو مہاراشٹر کے ہیں) نےبھی کوئی قانونی کارروائی بو ہیرہ وقف جائیداد کو انبانی کے ناجائز قبضہ سے و اگزار کرانے کیلئے نہیں کی۔ ریلائنس ہاؤس آپ و تاب اور شان سے ملت اسلامیہ کے رہنماؤں کامنھ چڑھارہاہے!!
وقف علی الاولاد
یکم جنوری 1996 سےپہلے ( یکم جنوری 1996 کو وقف ایکٹ 1995 کانفاذ ہوا) وقف قوانین اور شرعی اصولوں کے تحت وقف علی الاولاد اور وقف علی الخیر ( پبلک وقف) میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ دونوں طرح کے اوقاف میں جائیداد کی ملکیت اللہ تعالیٰ میں ودیعت کرتی ہے۔ دان دونوں طرح کی اوقاف میں مقاصد وقف ، دینی ، مذہب اسلام کے رعایتی خیراتی فلاحی ہیں( یہاں کوئی مسلکی فرق بھی نہیں ہے۔ شیعہ مسلک وقف علی الاولاد عامل ہے، حالانکہ وقف علی الاولاد کی بنیاد دفقہ عمر رضی اللہ عنہ ہے) ۔ وقف علی الا ولاد میں مستفید ین واقف کی اولاد نسل در نسل ہوتی ہے ۔( سورہ بقر کی آیۃ کے مطابق وقف کے مستفید ین کا واقف کی نسل سے ہونا بھی خیراتی عمل ہے۔ ( دیکھیں اسالہ وقف علی الدولاد از مولانا شبلی نعمانی ) وقف علی الاولاد کے متعلق عدالتی سطح پر اس اصول پہ مصدورہ ہیں۔ وقف ویلی ڈیٹنگ ایکٹ 1913 میں شرع الاسلام کے اس اصول کو ضابطہ بند کیا گیا ہے۔ وقف علی الاولاد کی خصوصیت یہ ہے کہ واقف کی نسل کے خاتمہ پر جائیداد کے کل منافع وقف نامہ کے مطابق عوامی خیراتی ہوجاتے ہیں۔ پڑھنے والوں کی معلومات کیلئے یہ لکھنا مناسب ہوگا کہ پریوی کونسل نظر ابو الفتح کیس ( 15 دسمبر 1894) سے وقف علی الاولاد کی قانونی جوازیت کو ردّ کردیا گیا تھا۔ سترہ سال کی قانونی جد وجہد ، ( جس کے رہنما مولانا شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ ۔ اور ان کے مدد گار مشہور قانون داں محمد علی جناح اور بیرسٹر صداقت حسین ( پٹنہ تھے ) کے بعد مرکزی کونسل سے وقف ویلی ڈیٹنگ ایکٹ 1913 پاس کر ا دیا گیا ۔ وقف علی الاولاد کی شرعی حیثیت کو قانون سے تسلیم کرادیا گیا ۔لیکن وقف علی الاولاد کے شرعی اور قانونی انسٹی ٹیوشن کو وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ (iii) 3 سے REPEAL IMPLIEDLY۔ کردیا گیا ہے۔
دفعہ اس طرح ہے وقف کے معنی ہیں جائیداد مستقل دوامی طور پر مقاصد وقف کیلئے نذر کرنا۔(iii) ‘‘ وقف علی الاولاد ’’ میں جائیداد کو نذر کرنا’’ اس حد تک جس حد تک امور خیر ، مذہبی امور، پاک مقاصد کیلئے نذر جائے ۔ راس وقف علی الاولاد کی تعریفی اصطلاح میں الفاظ ’ ‘‘ اس حد تک،جس حد تک جائیداد مقاصد خیر کیلئے نذر کی گئی ہو’’۔
“To The Extent-To Wheh The Property Dedicate (15سے وقف ویلی ڈیٹنگ ایکٹ کی) دفعہ 3 IMPLIED LIEDLY REPEAL ہوگئی ہے ۔ 1995 کے ایکٹ میں وقف علی الاولاد میں وقف وہ حصہ ( اس حد تک) وقف اصطلاح کے دائرے میں رہ گیا ہے جس تک میں وقف وہ حصہ( اس حد تک) وقف اصطلاح کے دائرے میں رہ لیا ہے جس تک جائیداد ۔ مقاصد وقف کیلئے نذر دوامی طور پر کئی گئی ہو پر وقف علی الاولاد کی وقف دستاویز ات میں جائیداد کے منافع نسل در نسل اولاد واقف کیلئے ہوتے ہیں اور کچھ رقم امور خیر ۔ مسجد ، مدرسہ ، غربا کی امداد کے لئے مختص ہوتی ہے ظاہر ہے ‘‘ TO THE EXTNT ’’ میں وہ رقم ہی آئے گی، جو مسجد مدرسہ ؟ کیلئے مخصوص کی گئی ہو ۔ جائیداد وقف کی اصطلاح کے دائرے سے نکل گئی ہے۔ اب وقف علی الاولاد سے غیر منقولہ جائیداد کی وقف حیثیت مشکوک اور عدلیاتی ترجیحات کی منتظر ہے۔ وقف نامہ میں جو رقم امر خیر مسجد مدرسہ کیلئے رکھی گئی ہے اس کی حیثیت جائیداد پر ایک قانونی بوجھ کی رہ جاتی ہے۔
وقف علی الاولاد کی اس اصطلاح کافائدہ ریئل اسٹیٹ مافیا اٹھانے کی طرف چل پڑا ہے کہ وقف علی الاولاد کی جائیداد کےایک مختصر حصہ کو الگ کردیا جائے اور اس کو وقف مطلق علی الغیر قدار دے کر باقی جائیداد کو سیکولر جائیداد قرار دے کر تصرف میں لے آیا جائے ۔ انیسہ بیگم بنام وقف بورڈ مغربی بنگال میں ( سپریم کورٹ 2011 ) کلکتہ کی ایک بڑی جائیداد کو اسی طرح عدالتی کارروائی سے تقسیم کرلیا گیا۔ یہ معاملہ آنر بل جسٹس مارکنڈے کا ٹجو او رمسٹر جسٹس گیا سدھانے وقف ٹریبونل کوریمانڈ کیا۔ میرٹ پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا۔ لیکن یہ ایک مضبوط اشارہ اس جہت کی طرف ہے کہ لینڈ مافیا وقف علی الاولاد کا تیاپانچہ کس طرح کرنے کی تیاری میں ہیں !!
وقف بورڈ کے کارنامے:
صحیح بات یہ ہے کہ اب مساجد، امام باڑے ،عاشورہ خانے اور کر بلاؤں سے تعلق اور اراضیات کم رہ گئی ہیں۔ اور جو ہیں کان سے مسلمانوں کے عبادت گاہی جذبات کالگاؤ ہے۔ رئل اسٹیٹ مافیا ان مچھروں کے چھتوں ’’ میں ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرسکتا ۔ وقف علی الاولاد کی وسیع جائیدادیں ، جدّی رؤسا کی حویلیات ، کوٹھیاں اب آبادی کے شدید اضافہ کے ساتھ پرائم لوکیشن پر آگئی ہیں۔ اور وہ ہی لینڈ مافیا، ریئل اسٹیٹ اور کا رپوریٹ سیکٹر کے نشانے پر ہیں ۔ وہ رؤسا اور تعلقہ دار زمیندار ، جنہوں نے وسیع و عریض جائیداد یں وقف علی الاولاد کی تھیں ۔ جنت نشین ہیں۔ان کی اولادیں کالی طور پر کمر مور ہیں۔ بعض تو مفلوک الحال ہیں، جائیداد وں کی مرمت کرانے سےبھی قاصر ہیں( خالی نے انہیں کا مرثیہ لکھا ہے) ان سارہ نوح متولیان وقف علی الاولاد کو آسانی سے شکار کیا جاسکتا ہے۔
مثال:۔ لکھنؤ سیریز نگین ہوٹل کے سامنے مین روڈ پر وقف علی الاولاد کی جائیداد تھی۔ وہاں اب عالی شان فائیو اسٹار ہوٹل ہے۔ پل بیگم میرٹھ میں چوراہے ‘‘ پر منصبیہ’’ وقف کا حال سب کو معلوم ہے ۔ اب ترمیمی بل 2010 دیر وقف علی الاولاد یشوپر ترمیم سے دفعہ (iii) 3 سر بڑھا نا ہے۔
ترجمہ:۔ شرط یہ ہے کہ جب واقف کی نسل ختم ہوجائے تو وقف کی آمدنی کمیونٹی کی تعلیم ، ترقی اور فلاح پر خرچ کی جائے گی’’۔ راس ترمیم کو دفعہ iii (r) 3 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو دور رس مقصد صاف نظر آتا ہے ۔ وقف نامہ میں واقف کی منشا و ضاحت سے تحریر ہوتی ہے کہ جب نسل میں کوئی نہ رہے تب کل جائیداد علی الخیر ۔ فلاں۔ مقصد میں مثلاً مدرسہ مسجد درگاہ کی منشا کو کیسے ناکام کیا جاسکتا ہے ؟ کس شرعی اصول کے تحت؟ سیکولر ٹرسٹ میں بھی یہ نہیں ہوسکتا ۔ واقف کی منشا تو مدرسہ‘ مسجد’ درگاہ میں خرچ کرنے کی تھی حصول ثواب آخرت کیلئے ۔ قانون سے اسکو ختم کیا جارہا ہے۔
دوسرا پہلو:
اب دوسرا پہلو یہ ہے کہ ترمیم میں دو الفاظ اہم ہیں ‘‘ انکم آف دی وقف’’ ۔ اور ‘‘کمیونٹی ’’ یہ دونوں خطرناک حد تک مبہم ہیں ۔ ان کی شرعی او رعملی جامہ پہنچایا جانا۔ اسٹیٹ ایڈ منسٹریشن ( اور وقف بورڈ ، جو اسٹیٹ کی ہی ایک بازو ہے) کی صوابد یدہ پر ہوگی۔
‘‘ انکم آف دی وقف ’’ وہ ہے جو بنیادی تعریف وقف علی الاولاد میں iii (r) 5.3 میں ہے۔ ‘‘ اس حد تک ، جس حد تک جائیداد امور خیر کے لیے وقف ہو’’ ۔ اسکو مجوزہ ترمیم محولہ بالا کے ساتھ پڑھنے سے ، ‘‘ انکم آف دی’’ کی شرع دہی آتی ہے جس حد تک ( مثلہ ‘‘پچاس روپیہ سالانہ جامع مسجد کے لیے ) وقف کی آمدنی ہو۔ اور ‘‘ کمیونٹی’’ لفظ کی تشریح ‘‘ مسلم کمیونٹی ’’ بھی ہوسکتی ہے۔اور وسیع تر معنی میں ہندوستانی کمیونٹی ’’ بھی مجوزہ ترمیم ہیں کمیونٹی ، لفظ کے ساتھ اہم صفت ‘‘ مسلم کمیونٹی’’ نہیں ہے۔ ‘‘ انکم آف دی وقف’’ کے دوسرے مری میں وہ انکم بھی ہوسکتی ہے۔ جو ڈیو لپمنٹ کے بعد آمدنی ہو۔ بہر حال اس کی صوابدیدہ وقف بورڈ یا ریاستی سرکار پر رہے گی جو بذات خود ملی مفاد میں نہیں ہے۔
اس کےعلاوہ مجوزہ ترمیم ہیں ‘‘ کمیونٹی کی تعلیم ’’ ترقی اور فلاح کے الفاظ مبہم ہیں ۔ ان کی مختلف تشریحات ، اولا ریاستی سرکار، اور اس کا تشکیل دیا وقف بورڈ کرنے کی مجاز ہوگئی اور بالآ خر عدلیہ کی تشریح ہوگی اور اس طرح ایک طویل تنازع بپا ہوگا۔
پرائم لوکیشن کی جائیداد یں ۔ مسلم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو بہ آسانی دی جاسکیں گی۔ یہ مسلم اقلیتی تعلیمی بادارے حقیقت میں جدید علم کی تجارت کے شوروم اور مال ( Malls) ہیں۔ ملی شناخت اور اقلیتی تعلیم کے پر لاکھوں روپے فیس کے طور پر لیتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں عام مسلم کے بچے تعلیم نہیں پاتے۔ عام مسلمان ایک بچے کیلئے پچاس لاکھ روپے کہاں سے فیس دے گا۔ ملّت کے نام سے نجی اقلیتی تعلیمی ادارے وقف جائیداد ڈیولپمنٹ کے پردے میں جس بلڈر کو دی جائے گی وہ اس پر جو رقم لگائے گا اسے ‘‘سود ’’ کے ساتھ وصول کرے گا یہ صریحاًحرام ہے۔
وقف جائیداد کے فروخت اور لیز:
وقف جائیداد وں کی خرید و فروخت کے لیے بھی راہ نکال دی ہے مجوزہ ترمیم پرمسلم پرسنل بورڈ نے بھی اس پر رضا مندی دی ہے کہ وہ وقف جائیداد ( چاہے وہ مسجد ہی ہو) اگر ایسے علاقے میں ہے جہاں مسلمان آبادی نہیں ہے ، تو اسکو فروخت کر کے اصولا جنس قریب کے تحت فروخت کرکے اس کی قیمت سے دوسری وقف جائیداد خرید لی جائے ۔ کیا یہ بابری مسجد کی اراضی کو فروخت کر نے کا دیباچہ ہے؟ یہ اصول جنس قریب کیے تلبیس ہے اور وقف جائیداد وں کی تباہی کی راہ!!! ترمیمی بل میں وقف جائیدادوں کو لیز پر دینے کی مدتگ جو 30 سال اور اس سے زیادہ کردی گئی ہے ۔ سبھی مسلکوں کے فقہ میں قاضی (عدالت) کی اجارات سے وقف جائیداد متولی ایک سال کیلئے اور تیار سے زیادہ تین سال کیلئے دے سکتا ہے۔ برٹش دور حکومت میں اس اصول کو تسلیم کیا گیا۔ ضلع جج کو بھی ( دفعہ 92 ضابطہ دیوانی کے تحت) طویل مدت پر لیز کا اختیار نہیں تھا۔ مختلف وقف ایکٹوں میں یہی صورت بر قرار رکھی ساری لیکن ترمیم ملیں اس طویل عرصہ کی قانونی روایت کو بدل دیا گیا ہے ۔ ترمیمی بل میں وقف جائیداد وں کو لمبے عرصہ کی لیز پر دینے کے لیے ڈولپمنٹ ‘‘کمیو نٹی مفاد’’ کے خوب صورت الفاظ میں زہر’’ لپیٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ بے عرصہ کی لیز حقیقت میں مکمل انتقال جائیداد ہی ہے۔ لیز دینے والا محض نام کا مالک رہ جاتا ہے ۔ لیز لینے والے کومکمل تصرفات استعمال انتقالات کے حقوق حاصل ہوجاتے ہیں ۔ مثال ۔1857 کے نتیجہ میں بہت سے خاندان نیست و نابود او رلاپتہ ہوگئے ۔ ان کی وسیع جائیدادیں سرکار انگریزی نے ‘‘نزول’’ کا قانون کی بتا کر اپنی تحویل میں لے لیں۔ یہ جائیداد یں 30 سال 60 سال ،100 سال کی قابل تجدید لیز کے ذریعہ گورنر نے لوگوں کو گرانٹ کیں ۔ بیسویں صدی کے آخر میں سرکار ان کو واپس نہیں لے سکی ۔ اور فری ہولڈ قوانین کے ذریعہ ایسی لیز وں کے مکمل اختیارات لیز ہولڈروں کو دینے پڑے۔ یہی حشر تر میمی بل کے تحت قانون بن جانے پر وقف جائیداد وں کی لیزوں کاہوگا، یہ تو نوشتہ دیوار ہے ! یقیناً لمبے عرصہ کی وقف جائیداد وں کی لیڈس کا رپوریٹ ہاؤسنر، اور ریئل اسٹیٹ ڈیلرز لے کر ‘‘ملّی مفاد’’ کے نام پر ڈولپمنٹ کریں گے اور زر کثیر کمائیں گے۔ نیز اپنے لگائے ہوئے سر مائے پر سود بھی وصول کریں گے ۔ یوپی اے سرکار اول اور دوم کی معاشی پالیسیاں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ صرف کارپوریٹ سیکٹر کو فائدہ ہی پہچانے کی سرکار ہے۔ یہی پالیسی وفف ترمیمی بل کے پیچھے کار فرما ہے۔
حقیقی مثالیں :
درگاہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اجمیر کی دو وقف ارا ضیات کا رقبہ علی الترتیب 37000 مربع میٹر اور 43000 مربعہ میٹر، ایک اراضی چرچ کے پاس اور دوسری اراضی اسٹیٹ بنک آف انڈیا کے پاس لیز پر سو سال سے زائد سے ہے ۔ 1988 سرناظم درگاہ جناب ایم اے استاد آئی ایس نے ان کو خالی کرانے کی کوشش کی۔ درگاہ کے صدر شری طارق انور ایم پی نے اس وقت کے وزیر خزانہ شری منموہن سنگھ سے درخواست کی کہ اسٹیٹ بینک سے اراضی خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اجمیری انسٹی ٹیوٹ آف سائنسیز اینڈ ٹیکنالوجی بنانے کے لیے واپس دلائی جائے ۔ وزیر خزانہ بردار منموہن سنگھ صاحب نے صاف جواب دے دیا۔ ‘‘ یہ ممکن نہیں’’ اس کے گواہ جناب پروفیسر اختر الواسع صاحب ہیں۔
سہارنپور میں مدرسہ تجوید القرآن کی وقف اراضی واقع انبالہ روڈ تقریباً 1935 میں میونسپل بورڈ کو لیز پر ‘‘ چھوت کی بیماریوں کا اسپتال ’’ بنانے کیلئے دی گئی ۔ 1959 میں یہ ہسپتال ضلع ہسپتال میں چلا گیا۔ اس پر نگر پالیکا نے بالمیکی صفائپی کرمچاریوں کو آباد کردیا۔ جناب قاضی سلطان اختر صاحب قاضی شہر کی ان تھک کوششوں کے باوجود یہ وقف اراضی خالی نہیں ہوسکی۔
(1)وقف عید گاہ قدیم وقف 2/341 سہارنپور ۔ رقبہ 38000 مربعہ میٹر سہارنپور شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے ۔ عید گاہ جدید نماز عیدین میں نمازیوں کی کثیر تعداد کیلئے چھوٹی پڑ گئی ہے۔ نمازیوں کا جم غفیرانبالہ روڈ اسلامیہ کالج روڈ پر آجاتا ہے ۔ لیکن وقف بورڈ لکھنؤ نے عید گاہ قدیم میں دوبارہ نماز عیدین شروع کرانے کے بجائے ، اس کی کل آراضی کو کمرشیل استعمال میں متولی کے ذریعہ دے دیا۔ لیٹر پیڈ صرف دو سال مدت کے لئے غیر رجسٹری شدہ لکھے گئے ۔ لیکن لیز ہولڈروں نے پختہ کار خانے ، گودام اور آرہ مشین لگائی ہوئی ہے۔ اس میں شہر کالینڈ مافیا ملوث ہے۔ اس کی عبادت گاہی نیچر کو برقرار رکھنے کے لئے کئی بار دعوے دائر کئے گئے ۔ لیکن مدعیان کو نتائج کی دھمکی دیکر خاموش کردیا گیا۔ اس کی آرا ضی سے حاصل کروڑوں روپیہ لینڈ مافیا کی پرائیویٹ جیبوں میں لگا ۔ اس کے متعلق مسلم پرنسل لاء بورڈ اور جمعۃ العلما ء کو لکھا گیا لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ اسی طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں اوقاف کی زمینوں پر ناجائز قبضے بر قرار ہیں اور ان پر آباد یا لیز ہولڈ ر لوگ چھو ڑ ہی نہیں رہے ہیں ۔ یہ ہے ہندوستان میں اوقاف کا حال! جو بذات خود ایک افسوس ناک بات ہے۔
1 جولائی ، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-issue-wakf-india-/d/12755