انصار عباسی
11 مارچ، 2013
اگر اسلام کو پڑھ نہیں سکتے، اُس پر عمل نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کی بدنامی کا باعث نہ بنیں۔ یہ کون سا اسلام سکھاتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم مبینہ طور پر گستاخی رسول کے جرم کا مرتکب ہو تو اس اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کی پوری بستی کو آگ لگا دی جائے، اُن کے گھروں کو جلا کر راکھ کر دیا جائے، اُن کا جینا حرام کر دیا جائے۔جرم ایک نے کیا سزا سب کو دینا کہاں کا اسلام ہے اور کہاں کا انصاف ہے۔ اسلام تو ہمیں انسانیت سکھاتا ہے مگر ہم اپنے آپ کو جانوروں سے بھی بدترثابت کر رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں کوئی ایسی مثال دکھا دیں جہاں یہ درس دیاگیا ہو کہ کسی ایک شخص کے جرم کی پاداش میں پورے محلے یا بستی کو تہس نہس کر دیا جائے۔لاہور کے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک سو سے زائد گھروں اور دکانوں کو خاکستر کرنے والے نجانے اپنا سینہ تان کر کیا سمجھ رہے ہوں گے کہ انہوں کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ وہ شاید اس بھول میں بھی ہوں کہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا حق ادا کر دیا، مگر کاش یہ جاہل جانتے کہ انہوں نے اپنی حرکت سے نہ صرف اللہ کو ناراض کیا بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی نافرمانی کی۔ایک حدیث کے مطابق ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تومسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے خبردار کر دیا کہ جو ذمیوں (اقلیتوں) کے ساتھ زیادتی کرے گا، ان سے کیے گئے عہد کی خلاف ورزی کرے گا، ان کی زمینوں پر قبضہ کرے گا، ان کی امارتوں کو چھینے گا، اُن کے گرجا گھروں کو نقصان پہنچائے گا، اُن کو عبادت سے روکے گا، اُن سے کوئی بھی ایسا فعل کرے گا جو ظلم اور زیادتی کے زمرے میں آتا ہو، اُن کی عزت و آبرو پر حملہ کرے گا،تو ایسے شخص کے خلاف اور متاثرہ ذمی کے حق میں قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود مقدمہ لڑیں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس مسلمان کے قتل کا حکم دیا اور فرمایا ‘‘اپنے ذمی (اقلیتی شہری) کو وفا کرنے کا سب سے زیادہ حق دار میں ہوں’’۔اسلامی تعلیمات کے مطابق ذمی کو زبان یا ہاتھ سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اُس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں یہ افعال ناجائز ہیں۔ایک اسلامی ریاست کے کسی اقلیتی شہری کو تو یہ حق حاصل ہے وہ اس ریاست سے اپنا عہد ختم کر کے کسی دوسری ریاست میں جا کر بس جائے مگرایک دفعہ اُس کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کے بعد اسلامی ریاست اور اس کے مسلمان شہری اپنی اس ذمہ داری سے دست بردار نہیں ہو سکتے کہ انہوں نے اُس ذمی کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہے۔ جوزف کالونی پر حملہ کرنے والوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے ایک ایک حرف کی نافرمانی کر کے اپنے لیے آخرت میں ایک سخت جواب دہی کا سامان پیدا کر لیا۔ جس شخص نے مبینہ گستاخی کی اُس کے خلاف ایک دن قبل مقدمہ درج ہو چکا تھاتو پھر اس کے باوجود وہ کون سے عناصر تھے جنہوں نے ایک شخص کے جرم کی سزا ایک پوری بستی کو دینے کی سازش کی۔ اس بلوے میں شامل ہونے والوں نے آخر کیوں نہ سوچا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
ایک طرف اگر یہ شہباز شریف حکومت کی مکمل ناکامی ہے کہ وہ جوزف کالونی کے مکینوں کو خطرے کے پیش نظر ایک رات قبل ہی علاقہ خالی کروانے کے باوجود اُن کے گھروں کی حفاظت نہ کر سکی تو دوسری طرف یہ بھی ریاست کی ناکامی ہے عوام سے کئے گئے اپنے آئینی عہد کے باوجود اُس نے اپنے شہریوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس ہی نہیں کروایا۔ آئین میں کیے گئے وعدے کے باوجود اگر پاکستان کے مسلمانوں کو اسلام نہیں پڑھایا جائے گا، انہیں قرآن کا فہم نہیں ہو گا اور جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بے خبر ہوں گے تو پھر بادامی باغ جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ جب ریاست اپنے شہریوں کو اسلام کی تعلیمات سے غافل رکھے گی اور اسلام کے نام کو صرف سیاست اور سیاسی نعروں کے لیے استعمال کیا جائے گا تو پھر جاہلیت کے ایسے واقعات کے نتیجے میں ایک دوسری قسم کے جاہل بھی قانون ناموس رسالت کو ہی ختم کرنے کی بات کریں گے۔ یہاں گا کر پاکستانی قوم کو چل پڑھاکے رستہ پر چلانے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اُن کی مہم میں اسلامی تعلیمات کا زور کیوں نہیں۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ قرآن کے فہم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو پڑھائے بغیر صرف دنیاوی تعلیم پر زور دے کر ہم اپنے بچوں کواُس حقیقی علم سے دور رکھ رہے ہیں جو ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے احترام کا سبق سکھاتا ہے، فرقہ واریت اور عصبیت پسندی سے روکتا ہے، ہمیں دنیا کے بارے میں جاننے کی ترغیب دیتا ہے، صرف اللہ اور اُس کے دین کی خاطر جہاد کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک روز تویہ بھی ٹی وی پر سنا کہ جب اسلامیات کا مضمون پڑھا دیا جاتاہے تو پھر دوسرے شعبوں میں اسلامی مضامین کو کیوں شامل کیا جاتا ہے۔اس جاہلیت کا اب کوئی کیا جواب دے۔ کیا اسلام کا سائنس سے تعلق نہیں، کیا تاریخ، معاشیات، دفاع، سیاسیات، معاشرتی علوم، طب، انسانی حقوق، قانون، عدالت، حکومت، حکمرانی اور دوسرے علوم اور شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں اسلام خاموش ہے؟ ہاں اگر کوئی اسلام اور اپنی مسلمانیت سے ہی شرمائے تو اُس کا کیا علاج۔
11 مارچ، 2013 بشکریہ :جنگ، کراچی
URL: