New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 09:17 AM

Urdu Section ( 16 Jun 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Are Muslim Girls Lesser Beings in the Eyes of the God? کیا مسلم لڑکیاں خدا کی نظر میں کم تر ہیں؟

گمنام

23 جون،  2012

(انگریزی سے ترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو  ایج اسلام)

پسماندگی کے طوق سے آزاد کرانے کے لئے، مسلم طبقے کے  رہنماؤں کو ہائی کورٹ کے فیصلے پر سوال کرنا چاہیئے جو  15 سالہ لڑکی کی شادی کو جائز ٹھہراتا ہے۔

9 مئی کو جب دہلی ہائی کورٹ نے عجیب و غریب اور رجعت پسندانہ فیصلے دیا تھا جس میں کہا تھا کہ 15 سالہ مسلم لڑکی کی شادی قانونی تھی، اس وقت  آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (AIMPLB) اس فیصلے  کے استقبال کرنے والوں میں پہلا تھا۔  اگر ایک لڑکی جسے اسکول جانا چاہیئے اور زندگی کے لئے ضروری ہنر مندی سیکھنا چاہیئے، اس کے بجائے  اگر اسے  پہلے ہی حیض کے وقت  شادی کے بندھن میں باندھ دیا جائے تاکہ وہ  بچہ پیدا کرنے کی اپنی صلاحیت کے لئے اس کا استعمال کر سکے اور یہ  AIMPLB میں جوش پیدا کرتا ہے، تو کیا انہیں مسلمانوں کی پسماندگی کی شکایت کرنے کا حق ہے؟

یہ قابل بحث ہے  کہ 5 سال اور 10 ماہ کی عمر بہت کم نہیں ہوتی ہے، اسے مد نظر رکھتے ہوئے کہ کئی لڑکیاں اس عمر تک پہنچتے ہی جنسی طور پر   فعال ہو جاتی ہیں۔  لیکن فیصلے کا بغور مطالعہ کرنے پر  پتہ چلتا ہے کہ، ایک مسلمان لڑکی کب قانونی طور پر شادی کر سکتی ہے، عدالت نے عمر کو بنچ مارک نہیں بنایا،  بلکہ  جب کسی لڑکی کو حیض کے ایّام شروع ہوتے ہیں اور دیگر جسمانی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں،  انہیں  شادی کی عمر کا تعین کرنے کا عنصر مانا ہے۔ جیسے ایک پالتو جانور جسے ہم با خوشی اجماع کے لئے اس کی ضرورت کے موقع پر بھیجتے ہیں۔ یہ برا لگتا ہے؟ اور یہ ہے۔

یہ بالکل ویسا ہی   ہے  جس طرف ہائی کورٹ کا فیصلہ لے جا سکتا ہے، جو  تہذیبی نسبتیت کے نام پر  تجویز کرتا ہے کہ ' محمڈن لاء کے مطابق، اگر ایک لڑکی سن بلوغت کو پہنچ چکی ہے تو  وہ اپنے والدین کی مرضی کے  بغیر شادی کر سکتی ہے اور  یہاں تک کہ اگر اس کی عمر 18 سال سے کم ہے تو بھی  اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کا حق ہے۔ '

اب اس کے مضمرات  پر غور کریں۔ یہ امکان ہے کہ، ایک اور عدالت مستقبل میں اس طرح ایک مسلمان عورت کو بدکاری کے لئے  رجم یا چوری کے الزام میں ایک مسلمان کے  ہاتھ کاٹنے کی غیر انسانی سزا دینے کے لئے محمڈن لاء کا استعمال کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔

سن بلوغت کی عمر مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، اس طرح  یہ  فیصلہ بہت جلد  نو سال کی عمر  میں نوجوان لڑکیوں کی شادی  کے لئے راہ ہموار کر سکتا ہے۔  اگر مذہبی حساسیت کو ایک طرف رکھ دیا جائے، تو  سن بلوغت کو پہنچے والی لڑکیوں کی شادی کو قانونی کہنا عصمت دری کو جائز کہنے کے  برابر  ہے۔

یہ فیصلہ دو بنیادی سوالات پیدا کرتا ہے اور جسے پوچھا جانا چاہیئے کہ اگر  ہندوستان  اپنے تمام شہریوں کو مساوات اور ان کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کے حق کو یقینی بنانا چاہتا ہے تو ، کیا مسلمان لڑکیاں انسان نہیں ہیں؟ یا ہندوستان میں مسلمان ہندوستانی نہیں ہیں؟ یہ المیہ ہے  جس وقت  ہندوستان  بچوں کے جنسی استحصال کو ختم کرنے اور  جنسی تعلقات کے لئے رضامندی کی عمر  16 سے 18 سال بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے  اس وقت  ہائی کورٹ کے فیصلے نے یہ طے کیا ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو ایسے کسی بھی قانونی تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ اس طرح کی نوجوان لڑکیوں کی حالت زار تھی کہ  چائلڈ میریج رسٹرینٹ ایکٹ، 1929، کو لاگو کیا گیا  جو لڑکیوں اور لڑکوں کی شادی کی کم سے کم عمر مقرر کرتا تھا،  لیکن خاص طور پر  اس کی قانونی شقوں  سے متاثر  شادی کی قانونی حیثیت پر اثر ڈالے  بغیر یہ صرف جرمانہ ہی عائد کرتا تھا۔  یہ وہی بچنے کا راستہ ہے جس کا فائدہ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے نے اٹھایا ہے اور جو  نوجوان لڑکیوں کو جنسی استحصال کے خطرے میں ڈالتا ہے۔ جسے بھی نو عمر لوگوں کی جنسی صحت کے بارے میں معقول تفہیم ہوگی، وہ جانتے ہیں کہ بہت کم عمر میں جس لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کے حمل روکنے والی دوائیوں کے استعمال کے امکان بہت کم ہوتے  ہیں اور اس کے حاملہ ہونے کے امکان زیادہ ہوتے  ہیں اور  ایسے میں بچے کو جنم دینے کے لئے نہ تو اس کا جسم اور نہ ہی ذہن تیار ہوتا ہے۔  اس کے علاوہ،  یہ اس کی تعلیم، صحت، اور بہبود کے  حق سے بھی اسے  محروم کرتا ہے۔

ہائی کورٹ کا رجعت پسندانہ فیصلہ  نوجوان مسلم لڑکیوں کو  جنسی استحصال کے خطرے میں ڈالتا ہے۔

 جائزوں سے سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں مسلمان طالب علموں کی شراکت کی سطح جتنی ہونی چاہیئے اس کی ایک چوتھائی ہے۔ سچر کمیٹی رپورٹ بھی مسلمانوں کی شدید پسماندگی پر روشنی ڈالتی ہے۔  رزرویشن سمیت  یہ حکومتوں کو  پورا کرنے کے لئے کئی سفارشیں کرتی ہے، لیکن یہ خود مسلمان طبقے اور خودساختہ اس کے ترجمانوں کے لئے کوئی سفارش کیوں نہیں  کرتی ہے؟ مسلم طبقے میں  رائج سماجی و ثقافتی  رسم و رواج  جو  ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، کیا ان میں باہر سے تبدیلی کا جا سکتی ہے جب تک کہ طبقے میں ہی خود اس کے لئے خواہش اور سمجھ نہ ہو؟  جب ثقافتی تحفظ کے نام پر ایک نوجوان لڑکی کو شادی  کی اجازت دے دی جاتی  ہے  اور جب اسے خود اسکول میں ہونا چاہیئے تب وہ  بچے  پیدا کرنا شروع کر دیتی ہے، تو وہ خود کس طرح کی تعلیم  اپنے بچوں کو دے سکتی ہے؟ جب اس کے اپنے جسم میں  تبدیلی ہو رہی ہو  اور اسے غذا کی ضرورت ہو تو ان بچوں کی صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جنہیں وہ جنم دے گی؟  کم سن لڑکیوں کی شادی کو جائز  ٹھہرا کر  ایسا لگتا ہے کہ ہائی کورٹ نے خفیہ طور پر اعلان کیا ہے کہ مسلم لڑکیاں  کم تر مخلوق ہیں، جن کے حقوق سے ان کے  مذہبی تشخص کے نام پر  سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔

کیوں میں اپنا نام ظاہر کرنے سے ڈر رہا ہوں، اب اس کے بارے میں ایک مختصر وضاحت پیش ہے۔ ہندوستان میں یا تو آپ سیکولر ہیں  (پڑھیں: ہندوئوں کو برا بھلا کہنے والا) یا ایک  آر ایس ایس کے کارکن (پڑھیں: مسلمانوں کے خون کا پیاسا) ۔ مسلم یا دوسری اقلیتوں  کی بات ہی مت کیجیئے،  یہاں سوچ بچار کرنے والے ہندو  کے لئے  بھی کوئی جگہ نہیں ہے جو مثال کے طور پر نوجوان مسلمان لڑکیوں پر لاگو دوہرے معیار کی وجہ جاننا چاہتا ہو جبکہ  ان لڑکیوں کی جسمانی ساخت دیگر ہندوستانی لڑکیوں اور عورتوں کے جیسی ہی ہے؟ مسلمانوں کو گجرات کے فسادات سے باہر بکلنے کے  لئے کہنے والی  آخری ایسی آواز کی حالت زار  کو لوگ  اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ میرے خیالات کا تعین، میں کون ہوں، سے کیا جائے گا۔ اگر میں ایک ہندو ہوں، تو مسلمانوں سے نفرت کرنے  والے کے طور  پر  میرے خیالات کو  فوری طور پر مسترد کر دیا جائے گا۔ اگر میں ایک مسلمان ہوں، اور اگر  میرے خیالات میں مزید قانونی جواز بھی ہوں  تب بھی اس کی تضحیک ممکن ہو سکتی  ہے۔  میرے لئے یہ اہم ہے کہ میری شناخت کا سایہ، میرے خیالات کی درستگی کو تباہ نہیں کرتا ہے۔ لہذا میں نے گمنام رہنے کا فیصلہ کیا۔

اس کالم میں ظاہر کئے گئے خیالات مصنف کے اپنے ہیں۔

گمنام مصنف بچے کے حقوق کے علمبردار ہیں۔

ماخز :  tehelka.com/story_main53.asp?filename=Op230612proscons.asp.

URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/anonymous/are-young-muslim-girls-children-of-a-lesser-god?/d/7630

URL: https://newageislam.com/urdu-section/are-muslim-girls-lesser-beings/d/7649

Loading..

Loading..