انیکا چوہان
19 نومبر، 2011
( انگریزی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام)
جب بھی میں لفظ 'طوائف' سنتی ہوں تو ذہن میں سب پہلی تصویر نامناسب لباس میں ملبوس ان عورتوں کی آتی ہے جو گندی گلیوں میں کھڑی کسی کلائنٹ کاانتظار کر رہی ہیں۔ اس معاملے پر بحث خواتین کے لئے یہ پیشہ کس طرح جفا جو ہے ان کے خالی، بھوکے پیٹ انہیں ان کے خاندان کے لئے روٹی خریدنے کے لئے ان کے جسم کو بیچنے پر مجبور کر رہے ہیں ۔ لیکن ایک لمحے کے لئے سوچیں؛ ان تمام مردوں، بچوں اور نوعمر افراد کا کیا جو اس طرح کے کام میں ملوث ہیں؟
پاکستان میں جسم فروشی کا موضوع ممنوع ہے - شاید ہی کسی نے کبھی اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا ہو۔ اس بدعنوان پیشے کے پیمانے کی وضاحت کرنا یا سمجھنا مشکل ہے۔
سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (SPARC) نے کہا ہے کہ بمشکل ہی کبھی کسی نے قحبہ گری کے مسئلے کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے ‘‘سخت سماجی ممانعت ’’ کا شکریہ، یہ اس کے ساتھ چلتی ہے ۔ اس سے منطقی طور پر اس حقیقت کی ترجمانی ہوتی ہے کہ محکمہ صحت کے پاس مرد قحبہ گری سے متعلق کوئی بھی اعداد و شمار یا ریکارڈ نہیں ہے، لہٰذا وہ ہمیں عین مطابق اعداد و شمار نہیں بتا سکتے۔
تاہم، نیشنل کمیشن فار چائلڈ ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق ایساسمجھا جاتا ہےکہ 2001 میں تقریبا 15000 سے 20000 بچے تجارتی جنسی استحصال کے ذریعہ متاثر ہوئے تھے ۔ ‘آزاد رو ’ قحبہ گری 'چھانٹیں اور انتخاب کریں سکیم ' کے مشابہ ہے اور کئی بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے جہاں مخنثوں سمیت نا بالغ بچوں کو شاہراہ سے اٹھایا جا سکتا ہے ۔
14 سال کی ایک بچی عصمت فروش کو آسانی سے تین سے پانچ ہزار روپے کی معمولی رقم میں خریدا جا سکتا ہے۔ 15 سے لے کر 25 سال تک کے مذکر بچے طوائف کو خواتین طوائفوں سے بھی سستا سمجھا جاتا ہے۔ عورتوں کے برعکس، مرد طوائف سماجی ممانعت کی وجہ سے ان کے کام کے بارے میں مخصوص معاملات اور تفصیلات ظاہر کرنے سے گریزاں ہیں۔
سروے سے یہ ظاہر ہے کہ بچے آٹھ سال کی عمر سے ہی مرد طوائفوں کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان کے پاس خود کو سہارا دینے کے لئے تکیہ کرنے کی محدود مہارت ہے، ان کے لئے قحبہ گری روزگار کا سب سے زیادہ عملی اور منافع بخش فارم بن جاتی ہے۔ ایک جمع اعداد و شمار کے مطابق، بچوں کا کہنا ہے کہ پولیس اور فوجی سپاہی 'ان کے گاہکوں کا ایک بڑا حصہ ہیں' ۔
افسوس کی بات ہے کہ، اگرچہ وہ جب چاہیں اس پیشہ کوچھوڑنے کے لئے آزاد ہیں لیکن مالی مشکلات اور اختیارات کی کمی کی وجہ وہ اسے جاری رکھنے پر مجبور ہیں ۔ اس طرح وہ خود کو دلال بنا لیتے ہیں ۔ یہ مانا جاتا ہے کہ ایک بچے طوائف کو فی ماہ 12000 روپے تک حاصل ہوتے ہیں جو کہ ملازمتوں میں بچوں کو دی جانے والی رقم کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے ۔
قحبہ گری کی طرح ایک رواج ‘ بچہ بازی ’ بھی ہے جو اکثر پاکستان میں خیبر پختونخواہ کے علاقے میں پایا جا تا ہے ۔اس کا مطلب بڑی عمر کے مردوں کا نوجوان لڑکوں کو جنسی ساتھیوں کے طور پر رکھنا ہے ، جس میں سابق الذکر مؤخر الذکر کی تعلیم، لباس اور عام دیکھ بھال کے لئے ذمہ دار بنتا ہے اور بدلے میں مؤخر الذکر 'جنسی طور پر ساتھ دینے ' کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔
ایک مطالعہ کے ذریعے، نیشنل کوئلیشن آف چائلڈ رائٹس اور یونائٹیڈ نیشنز انٹرنیشنل چلڈرنز ایمرجنسی فنڈ (یونیسیف) نے یہ دریافت کیا کہ خیبر پختونخواہ میں رہنے والے مردوں کی ایک تہائی کو جنسی طور پر بچوں کی طرف مرغوب ( پیڈوفائل ) ہونے پر فخر ہے ۔ دوسرے 11 فیصد لوگوں کو لگتا ہے کہ اس عمل میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نیشنل کمیشن فار چائلڈ ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ (NCCWD) نے ملک کے چاروں صوبوں میں 233 بچوں کا انٹرویو لیا اور پتہ چلا کہ، ایک چونکانے والی تعداد 159 بچوں نے انکشاف کیا کہ وہ جسم فروشی میں مصروف ہیں ۔ 159 میں سے 98 لڑکے تھے جنہیں ہوٹل، ریستوران، ویڈیو کی دکانوں، سنیما ہال اور پارکوں جیسے عوامی مقامات پر ان کا کام ملا ۔
سروے کے مطابق، 95 فی صد نوعمر طوائفوں کے ساتھ اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں جسم فروشی کے کاروبار میں داخل ہونے سے پہلے ان کے قریبی رشتہ داروں، دوستوں اور اساتذہ کے ذریعہ جنسی طور پر زیادتی کی گئی تھی۔ طوائف کے متعلق عام رائے یعنی ان کے عام طور پر ناخواندہ اور غریب ہونے کے برعکس، تحقیق میں ان میں سے 74 فیصد کو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل پایا گیا ۔
اگرچہ لوگ قحبہ گری کو صرف عورتوں کو سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ، مرد ،نوجوان اور بچے برابر ا س کا شکار ہیں جو کہ جنسی زیادتی کی ظالمانہ ناانصافی چھل رہے ہیں ۔ نوجوان بچوں کو صرف اس لئے اس پیشے میں ڈال دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس اتنی رقم یا مہارت نہیں ہوتی ہے جو ایک اچھی تعلیم سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ، سادہ لوح نوجوان ستم گر اور بے رحم دلالوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ انہیں پیسے کے وعدوں کے ساتھ پھنسا دیتے ہیں انہیں بالکل ایسا ہی شیطان بنا دیتے ہیں جیسا کہ وہ خود ہیں ۔
قحبہ گری مختلف ممالک میں خواہ وہ قانونی ہو یا نہیں، انسانیت کے خلاف امتیازی سلوک کی ایک شکل ہے۔ یہ رسوا کن ہے، یہ بیماریاں پھیلاتی ہے، اور سست مزدوری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔ ہمیں اس کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔
مصنف اور قارئین کے تبصرے کے ذریعہ پیش کردہ نظریات ضروری طور پر ایکسپریس ٹربیون کے نظریات اور پالیسیوں کی عکاسی نہیں کرتے۔
ماخذ: The Express Tribune, Lahore
URL for English article
https://newageislam.com/islamic-society/prostitution-land-pure/d/5952
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/prostitution-land-pure-/d/13133