انیس امروہوی
حصہ اوّل
26 دسمبر،2021
ہندوستانی سنیما کے سو
سال کا جشن منائے ہوئے بھی اب ایک عشرہ مکمل ہونے جارہا ہے۔اس کے بعد ہی سے میڈیا
کے مختلف ذرائع سنیما کے ان سو برسوں کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں او را س
سہانے سفر کا تجزیہ کررہے ہیں۔ اخبارات ورسائل میں بھی مسلسل اس موضوع پر مضامین
شائع ہوتے رہے ہیں ۔ شاید اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ سنیما آج ہمارے سماج کی
اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں ، جہاں سیکڑوں
زبانیں بولی جاتی ہوں ، جہاں ہزاروں قسم کے رسم و رواج، رائج ہوں اور جہاں کی
آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم اور خاص طور پر جدید تعلیم سے محروم ہو، وہاں ایک عام
آدمی کی دلچسپی اور تفریح کا واحد ذریعہ سنیما ہی تو ہے۔اس میں ایک خاص بات یہ ہے
کہ ہندوستانی سنیما پر اردو ادب کے اثرات اوّل دن سے نمایاں رہے ہیں اور آج بھی
ہیں۔آج بھلے ہی اس کا اعتراف نہ کیا جائے لیکن جب بھی فلموں میں اردو کے مکالمے
دُہرائے جاتے ہیں یا فلمی نغموں میں اردو کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تو فلم
شائقین جھوم اُٹھتے ہیں۔
ہندوستان میں جدید سنیما
کا ارتقا لگ بھگ اسی دور میں تیزی سے ہورہا تھا جب اردو ادب میں ترقی پسند رحجانات
تیزی سے داخل ہورہے تھے او ریہی دور بھی تھا جب ہندوستانی سیاست میں تحریک آزادی
کی لہر شدّت اختیار کررہی تھی۔ 1931 ء میں ہندوستانی سنیما نے خاموشی کے دور سے
نکل کر آواز کی دنیا میں قدم رکھا تھا اور فلموں کے کرداروں نے سیدھے طور پر
مکالمہ شروع کردیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی 1936 ء سے اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا
باقاعدہ آغاز ہوگیا او ربڑی تعداد میں ادیب ، شاعر اور دانشور اس تحریک سے متاثر
ہوتے گئے۔
1942 ء سے گاندھی جی نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے لئے اپنی لڑائی
تیز کردی اور ’ انگریز و! بھارت چھوڑو‘ کا نعرہ بلند کیا ۔ اس کے ساتھ ہی اردو کے
اس نعرہ ’ انقلاب زندہ باد‘ سے پورے ملک کا ماحول گرم ہوچلا تھا ۔ یہ بڑا ہی پرُ
آشوب زمانہ تھا ، لہٰذا ہندوستانی سنیما تحریک آزادی اور ترقی پسند تحریک دونوں
سے ایک ہی وقت میں متاثر ہورہا تھا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ کہانی کار، نغمہ
نگار اور فلمساز وہدایت کار لگاتار فلم انڈسٹری سے جڑتے جارہے تھے۔ منشی پریم چند،
خواجہ احمد عباس، نجم نقوی، سعادت حسن منٹو، کمال امروہی ، کرشن چند، ساحر
لدھیانوی ، وشوامتر ا عادل، قمر جلال آبادی، بخشب جار چوی، راجہ مہدی علی خاں،
راجند سنگھ بیدی ، مجروح سلطانپوری، جاں نثار اختر، سردار جعفری، عصمت چغتائی ،
پرتھوری راج کپور، اختر الایمان ، راجندر کرشن ، صبا افغانی، کیفی اعظمی، حسرت جے
پوری، ساگر سرحدی ، ضیا سرحدی اور رامانند ساگر وغیرہ وغیرہ کتنے ہی اہم نام ہیں
جو یکے بعد دیگرے فلموں سے وابستہ ہوتے چلے گئے او ریہی وہ لوگ تھے جو اردو ادب
میں بھی ترقی پسند رجحانات کے ساتھ اپنی بہترین تخلیقات پیش کررہے تھے۔اس کانتیجہ
یہ ہوا کہ 1936 ء سے لے کر 1975 ء تک ہندوستانی سنیما نے اپنا ایک عہد زریں تاریخ
کے صفحات پر رقم کردیا ۔ اسی زمانے میں ایک سے ایک بہترین کہانی فلم انڈسٹری کو
ملی اور فلمی نغموں کا تو ایک ایسا ذخیرہ تیار ہوگیا جس میں ہر لحاظ سے اعلیٰ درجے
کے او رمقبول ترین نغمے تھے۔ یہ نغمے آج بھی دل کے تاروں کو جھنجھنا دیتے ہیں۔
یہی حال فلمی مکالموں کابھی تھا کہ اردو ادیبوں کے لکھے مکالمے نہ صرف بہت پرُ اثر
ہوتے تھے بلکہ تادیر یاد رہتے تھے او ربعض اوقات تو ضرب المثل بن جاتے تھے۔ جیسے
فلم ’ وقت‘ میں راج کمار کے ذریعہ اداکیا گیا مکالمہ ’’ جن کے گھر شیشوں کے ہوں،
وہ دوسروں پر پتھرنہیں پھینکا کرتے‘‘۔اسی طرح فلم’ مغل اعظم ‘ میں پرتھوی راج کپور
کا مکالمہ ’’ بہ خدا ہم محبت کے دُشمن نہیں ، اپنے اصولوں کے غلام ہیں‘‘۔ اسی طرح
فلم ’ میرے حضور‘ کا مکالمہ جو اداکار راج کمار نے ادا کیا تھا، آج بھی لوگوں کے
ذہن میں گونجتا ہے کہ ’’ لکھنؤ میں ایسی کون سی فردوس ہے، جسے ہم جانتے ۔‘‘ فلم ’
پاکیزہ ‘ میں راجکمار کااداکیا ہوا یہ مکالمہ کہ ’’ آپ کے پاؤں دیکھے ،بہت حسین
ہیں ۔ انہیں زمین پر مت اُتاریے گا ، میلے ہوجائیں گے ۔‘‘ یہ اور اس طرح کے بے
شمار اردو کے مکالمے آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں اور موقعوں کی مناسبت
سے اکثر و بیشتر یاد کئے جاتے ہیں۔
ہندوستانی سنیما میں اردو
ادب کے حوالے سے اگر ہم فلمی نغمہ نگاری کا تفصیلی جائزہ لیں تو اس کے لئے الگ سے
ایک کتاب کی ضرورت ہوگی۔ اردو ادب سے وابستہ کئی بڑے بڑے شاعر وں نے ہندوستانی
فلموں کو بے حد معیاری اور مقبول ترین نغمے دیئے ہیں۔ ساحر لدھیانوی ، کیفی اعظمی،
شکیل بدایونی، جاں نثار اختر ، راجندر کشن ، مجروح سلطانپوری، کیف بھوپالی ، اسد
بھوپالی ، ایس ایچ بہاری، حسرت جے پوری، راجہ مہدی علی خاں اور قمر جلال آبادی
جیسے چند نام یہاں درج کرناکافی ہوگا جنہوں نے فلمی نغمہ نگاری میں بھی اردو ادب
کا معیار برقرار دکھا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے تو اپنی تمام تر ادبی شاعری کو فلموں
میں استعمال کیا ہے اور ان کی نغمہ نگاری سے فلموں میں استعمال کیا ہے اور ان کی
نغمہ نگاری سے فلموں کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ انہوں نے
’گمراہ‘ یا ’’ پیاسا‘ جیسی چند فلموں کے لئے جب اپنی نظموں کا استعمال کیا تو حسب
ضرورت کہیں کہیں ایک دو الفاظ کو تبدیل بھی کیا۔
ہندوستانی سنیما سے اردو
کے تعلق کا جب بھی ذکر کیا جائے گا، نئے اردو افسانے کے باوا آدم منشی پریم چند
کا نام سب سے پہلے لیا جائے گا ۔ منشی پریم چند جون 1934 ء میں بنارس سے بمبئی
آگئے او ریہاں کسی فلم کمپنی سے 8 ہزار روپئے سالانہ کے معاہدے پر فلمی کہانیاں لکھنے
کا کام شروع کیا۔ اسی برس ان کے ناول ’ سیوا سدن‘ پر سب سے پہلے ’ بازارِ حسن‘ کے
نام سے فلم بنی۔ فلم ’ بازار حسن‘ میں اداکارہ زبیدہ ، جدن بائی اور فاطمہ بائی
اور اداکار ساہو مودک نے کردار اداکئے تھے ۔ اس کے بعد پریم چند کی تحریر کردہ
کہانی پر فلم ’ غریب مزدور‘ بنی جس میں خود منشی پریم چند نے بھی ایک کردار ادا
کیا تھا۔ اس کے بعد پریم چند بمبئی ٹاکیز سے وابستہ ہوگئے۔ 1941 ء میں منشی پریم
چند کی اردو کہانی ’ عورت کی فطرت‘ (تریا چرتر) پر فلم بنی اور فلم کا نام ’
سوامی‘ رکھا گیا۔ اس فلم کے ہدایتکار اے آر کار دار تھے او رستارہ دیوی اور جے
راج مرکزی کردار میں تھے۔ 1946 ممیں ان کے ناول ’ چوگان ہستی‘ پر ہدایتکار موہن
بھونانی نے ’ رنگ بھومی‘ کے نام سے فلم بنائی۔ یہ ادارکارہ نگار سلطانہ کی پہلی
فلم تھی۔ 1959 ء میں ان کی کہانی’ دو بیلوں کی کتھا‘ پرہدایتکار کرشن چوپڑہ نے فلم
بنائی تھی ، جس کا نام ’ ہیرا موتی‘ رکھا گیا تھا۔ ایک زمانے میں بمبئی ٹاکیز کی
روح رواں ادکارہ دیویکا رانی نے منشی پریم چند کے ناول ’ گئودان ’ پر فلم بنانے کا
ارادہ کیا تھا مگر ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ بعد میں ہدایتکار ترلوک
جیٹلی نے 1964 ء میں فلم ’ گئودان ‘ بنائی جس میں اداکار راج کمار او رکامنی کوشل
کے علاوہ ششی کلاء محمود اور شوبھا کھوٹے وغیرہ اہم کردار تھے۔
1966 ء میں منشی پریم چند کے مشہور زمانہ ناول ’ غبن‘ پر ہدایتکار
کرشن چوپڑہ نے کام شروع کیا مگر ان کے انتقال کی وجہ سے یہ کام رک گیا ۔ بعد میں
ایڈیٹر ،ڈائریکٹر رشی کیش مکرجی کے تعاون سے یہ فلم مکمل ہوئی۔ سنیل دت ، سادھنا،
کنہیا لال اور لیلا مشرا، انور حسین اور آغا وغیرہ نے اس فلم میں کردار ادا کئے
تھے۔ بدری پرساد او رپی کیلاش نے بھی اپنے کردار عمدگی سے ادا کئے تھے۔ اسی طرح
بچوں کے لئے چلڈرن فلم سوسائٹی نے پریم چند کی کہانی ’ عیدگاہ‘ پر ایک فلم ’ عید
مبارک‘ کے نام سے بنائی تھی۔ اس کے علاوہ ایک فلم ’ کتے کی کہانی‘ بھی اسی سوسائٹی
نے بنائی تھی۔ ایک اور فلم ’ سیلانی بندر‘ بھی پریم چند کی کہانی پر بنی تھی۔
منشی کی کہانی ’ شطرنج کے
کھلاڑی‘ پر مشہور فلمساز و ہدایتکار ستیہ جیت رے نے جو فلم بنائی ہے، منشی پریم
چند کی کئی کہانیوں پر بنی فلموں میں سب سے عمدہ اور مقبول ترین فلم ہے۔ اس میں
سنجیو کمار ، سعید جعفری ، شبانہ اعظمی اور فریدہ جلال مرکزی کردار میں ہیں۔
اس طر ح ہم دیکھتے ہیں کہ
اردو ادب کے حوالے سے منشی پریم چند کا نام فلموں سے وابستہ رہا ۔ یوں تو شروع ہی
سے اردو زبان و ادب کا گہرا تعلق ہندوستانی سنیما سے رہا ہے لیکن اس میںایک بڑا
نام امتیاز علی تاج کا بھی رہا ہے۔ ان کے مشہور زمانہ ڈرامے ’ انار کلی‘ پر اپنے
زمانے کی مشہور اور کامیاب فلم 1953ء میں بنی جس میں پردیپ کمار ، بینا رائے ، نور
جہاں اور سلوچنا وغیرہ نے مرکزی کردار ادا کئے۔ فلم کیلئے یہ موضوع اتنامناسب تھا
کہ 1951 میں کمال امروہی نے بھی مینا کماری کے ساتھ انار کلی بنانے کا خواب دیکھا
تھا جو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ بعد ازاں اسی موضوع کو بڑے بڑے پیمانے پر دھانسو
ہدایتکار کے آصف نے ’ مغل اعظم‘ کے نام سے 1960 ء میں پیش کیا تھا۔ یہ ایک زبردست
کامیاب اور بہترین فلم تھی جس کے اپنے زمانے میں کئی ریکارڈ قائم کئے۔ حالانکہ اس
فلم کو اردو کے بجائے ہندوستانی زبان کی فلم سنسر سرٹیفکیٹ دیا گیا۔(جاری)
26 دسمبر،2021 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism