معصوم مراد آبادی
20فروری،2025
گذشتہ روز جب یوپی اسمبلی کا بجٹ اجلا س شروع ہوا تو اس میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان پہلی تکر اراردو اور انگریزی کے حوالے سے ہوئی۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو کانام سن کر جو کچھ کہا وہ دراصل ان کی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتاہے۔ جب اپوزیشن لیڈر ماتا پرشاد پانڈے نے مطالبہ کیا انگریزی کی بجائے اردو کو ایوان کی زبان بنایا جائے تو اس پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھڑک گئے اور انہوں نے تیو ر بدلتے ہوئے کہا کہ ’سماجوادی پارٹی کے لوگ اپنے بچوں کو انگریزی اسکول میں پڑھائیں گے او ر دوسروں سے کہیں گے کہ اپنے بچوں کواردو پڑھاؤ، یہ لوگ انہیں کٹھ ملا اورمولوی بنانا چاہتے ہیں، لیکن اب یہ نہیں چلے گا‘۔
ہمیں وزیراعلیٰ کے منہ سے ’کٹھ ملا‘ کا لفظ سن کر اردو کے شاعر اور ادیب جسٹس آنند نارائن ’ملا‘ بہت یاد آئے۔جنہوں نے ایک بار کہا تھاکہ ’اردو میری مادری زبان ہے، میں اپنا مذہب چھوڑ سکتاہوں مگر مادری زبان نہیں چھوڑ سکتا‘۔ آنند نارائن ملا اسی لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے جہاں اسمبلی میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ان کا نام بھی سنا ہے یا نہیں۔ اگر یوگی جی ان سے واقف ہوتے تو یقینا اردو سے متعلق اتنی شدت پسندی کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرتے، کیونکہ اردو کے شیدایوں میں میر انیس اور میر دبیر کے ساتھ پنڈت دیا شنکر نسیم اور برج نارائن چکبست بھی ہیں۔ علی سکندر جگر مرادآبادی کے ساتھ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری بھی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے، جس کے ساحل پر آج کل صدی کا سب سے بڑا کمبھ اشنان ہورہاہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم جسٹس آنند نارائن ملا کے بارے میں کچھ اور آپ کوبتانا چاہیں گے۔ ہم نے انہیں کئی بار یہاں دہلی میں دیکھا اور سنا ہے۔ وہ کشمیری الاصل تھے، لیکن ان کے اجداد لکھنؤ آکر بس گئے تھے او ریہیں پنڈت جگت نارائن ملا کے یہاں 24اکتوبر 1901ء کو آنند ملا کی پیدائش ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم فرنگی محل میں ہوئی جو ایک مدرسہ تھا۔ ان کے استاد برکت اللہ فرنگی محلی تھے۔ اس کے بعد انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1955 ء میں لکھنؤ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ بطور جج ان کا یہ تبصرہ بہت مشہور ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھاکہ ’پولیس جرائم پیشہ لوگوں کا سب سے منظم گروہ ہے‘۔ جسٹس آنند نارائن ملا نے سبکدوش کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور 1967 میں لکھنؤ سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے۔بعد ازاں 1972 ء میں راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوئے۔ وہ انجمن ترقی اردو کے صدر بھی رہے۔ ان کا انتقال 12جون 1997 کو دہلی میں ہوا۔
جسٹس آنند نارائن ملا کے تعارف میں یہ سطریں ہم نے اس لیے لکھی ہیں کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یہ جان سکیں کہ اس ملک میں اردو زبان اور تہذیب کی نمائندگی صرف’مسلمان‘ ہی نہیں کرتے بلکہ وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو اعلیٰ ذات کے ہندو تھے اور وہ اپنی مادری زبان اردو کی خاطراپنا مذہب چھوڑ نے تک کو تیار تھے۔ آنند نارائن ملا کی تعلیم بھی ایک مدرسے میں ہوئی تھی جو یوگی جی کی نگاہ میں شدت پسندی کی آماجگاہ ہے۔ اگر مدرسوں میں شدت پسندی کی تعلیم دی جاتی توو ہاں سے آنند نارائن ملاجیسا روشن خیال انسان پیدا نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے یوگی جی اپنی ریاست کی گنگا جمنی تہذیب اور تاریخ کا مطالعہ ضرور کریں۔ انہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لکھنؤ میں منشی نول کشور بھی ملیں گے،جنہوں نے اپنی تمام زندگی اردو اور فارسی زبان کو فروغ دینے میں گزار دی۔نول کشور نے اردو اخبار ہی شائع نہیں کیا بلکہ اردو اور فارسی کی سیکڑوں کتابیں اپنے مطبع سے شائع کیں۔جس وقت ان کے پریس میں قرآن پاک بھی شائع کیا۔ جس وقت ان کے پریس میں قرآن کی طباعت ہوتی تو اس کے تقدس کا اتنا خیال رکھا جاتا تھاکہ مشینوں سے گزرنے والا پانی نالی میں نہ جانے پائے بلکہ اسے دوسری دوسری جگہ پر محفوظ کیا جائے۔
ظاہر ہے یہ مذہبی ہم آہنگی او ر خیر سگالی اس دور کی بات ہے جب یہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا اور ذہنوں میں فرقہ واریت نے ڈیرے نہیں جمائے تھے۔ یوگی جی دراصل جس سیاسی نظریہ کے ترجمان ہیں، اس میں مذہبی منافرت بنیادی عنصر ہے۔اگرچہ وہ خود ایک مذہبی شخص ہیں اور زعفرانی لباس بھی زیب تن کرتے ہیں، لیکن جہاں کہیں مسلمانوں اور اردو زبان کا ذکر آتاہے، وہاں ان کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ جس وقت وہ اسمبلی کی کارروائی میں اردو کو شامل کرنے کی مخالفت کررہے تھے تو انہوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا تھا کہ ابھی پچھلے ہی ہفتہ ملک کی پارلیمنٹ میں خود اسپیکر اوم بڑلا نے یہ اعلان کیا ہے کہ پارلیمنٹکی کارروائی میں جن چھ زبانوں کو شامل کیا گیا ہے اس میں اردو بھی شامل ہے۔ اوم بڑلا نے کہا تھاکہ ’اب بوڈو، ڈوگری، میتھلی، منی پوری، سنسکرت اور ارد و زبان میں پارلیمنٹ کی کارروائی کا اردو ترجمہ ہوگا۔ حالانکہ پارلیمنٹ میں پہلے ہی سے اردو میں کام ہوتاہے اور وہاں باقاعدہ اس کا عملہ موجود ہے،لیکن اسپیکر نے یہاں اردو کا نام لینا ضرور ی سمجھا۔ جب کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ن ایوان کی کارروائی میں انگریزی کی جگہ اردو کو شامل کئے جانے کے مطالبہ پراتنا شدید رد عمل ظاہر کیا کہ اس سے اردو کے تئیں ان کی مخاصمت پوری طرح عیاں ہوگئی۔
دراصل یوپی اسمبلی میں اردو زبان کی مخاصمت کوئی نئی بات نہیں ہے۔کئی بار ایسا ہوا ہے کہ یہاں اردو میں حلف لینے کا مطالبہ کرنے والے ممبران اسمبلی کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ معاملہ عدالت تک پہنچا ہے۔ آپ کو یاد ہوگاکہ 90 ء کی دہائی میں جب آنجہانی وزیراعلیٰ نارائن دت تیواری نے ریاست میں اردو کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان بنانے کابل پیش کیا تھا اس کی کتنی شدید مخالف ہوئی تھی۔ خود ان کی کابینہ کے ایک وزیر واسود یو سنگھ نے اردو کے خلاف تقریر کی تھی۔ اس موقع پر بدایوں میں فساد بھی پھوٹ پڑا تھا او ردرجنوں بے گناہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس فساد کی وجہ دراصل زعفرانی عناصر کا اردو مخالف احتجاج تھاجس میں نعرہ لگایا گیا تھا کہ ’اردو تھوپی لڑکوں پر تو خون بہے گاسڑکوں پر‘۔میں نے اس فساد کی چشم دید رپورٹنگ کی تھی۔
بی جے پی کی اقتدار والی ریاستوں میں اس وقت اردو بستر مرگ پرہے۔ مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ موہن یادو نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایسے 56 گاؤں کے نام تبدیل کررہے ہیں، جو اردو میں ہیں۔ دوسری طرف راجستھان میں اردو اسکول بند کئے جارہے ہیں اور وہاں اردو کی جگہ سنسکرت ٹیچر بھرتی کئے جارہے ہیں۔ سہ لسانی فارمولے میں اردو کی جگہ سنسکرت کو شامل کرلیا گیا ہے۔ جب کہ 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں صرف 73 ہزار لوگ ہی سنسکرت بولتے ہیں، جب کہ اردو بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، لیکن اس کے باوجود اردو کا تہہ تیغ کیا جارہاہے۔ یہ دراصل خود ہماری بے حسی کا بھی نتیجہ ہے۔ اتر پردیش میں ملائم سنگھ کے دور میں جن اردو اساتذ ہ اور متزجمیں کی بھرتی ہوئی تھی، وہ دوسرے کام کررہے ہیں کیونکہ ہم اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولوں کی بجائے انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیج رہے ہیں۔ہماری اس بے حسی نے ہی اردو کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔
20فروری،2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/anand-narain-mulla-urdu-kathmulla/d/134686
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism