انم خان
23 جولائی، 2015
ماضی میں یہ کہا جاتا تھا کہ تعلیم دہشت گردی کو شکست دے سکتی ہے، اب ایسا معاملہ نہیں رہا۔
16 جولائی، 2015 پر، محمد یوسف عبد العزیز نے چٹانوگا، ٹینیسی میں دو فوجی تنصیبات پر حملہ کیا اور بحری فوج کے چار سپاہیوں کو قتل کر دیا۔ عبد العزیز نے یونیورسٹی آف ٹینیسی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک تعلیم یافتہ شخص تھا۔
اپریل 2015 کو سعد عزیز نے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن سبین محمود کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ان کی موت پاکستان کے لیے ایک المناک نقصان تھا اس لیے کہ پاکستان جیسے ایک ملک کی امیدیں محمود جیسے لوگوں سے وابستہ ہیں۔ سخت انتہا پسندانہ عقائد و نظریات کو چیلنج پیش کرنے کے لیے وہ نہ صرف یہ کہ کافی ترقی پسند، روشن خیال اور بہادر تھی ، بلکہ اس نے طاقتور اور باختیار لوگوں کی قیادت میں انتہائی متنازعہ فیہ پیش رفتوں کے بارے میں بحث و مباحثے کا بھی آغاز کیا تھا۔ سعد نے پولیس کو بتایا کہ اس نے محمود کو ویلنٹائن ڈے ریلی منعقد کرنے اور لال مسجد کے مولوی کے خلاف مہم چلانے کے لیے گولی ماری تھی۔ اس نے صفورا گوٹھ بس قتل عام میں اسماعیلی برادری کے کم از کم سات اراکین کو قتل کرنے کا بھی اعتراف کیا۔ سعد نے کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس سے قبل، اس نے بیکن ہاؤس اسکول سسٹم میں بھی تعلیم حاصل کی جو کہ لائسیم، کراچی کے اشرافیہ نجی اسکولوں میں سے ایک ہے، اور وہاں سے وہ اول درجے سے پاس ہوا۔ اس سے یہ پات سمجھ میں آتی ہے کہ پوری جوانی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی سعد کے اندر روحانی اور دہنی طور پر ایک کشمکش تھی۔
دہشت گردانہ تشدد کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ وہ کون سی وجوہات ہیں کہ جن کی بنیاد پر انسان کے اندر ان ظالمانہ اقدامات اٹھانے کا شوق پیدا ہوتا ہے؟ ظلمت کی اندھیری لہروں میں گم ہونے سے پہلے دونوں، عبد العزیز اور سعد کو ایک 'عام' بچہ مانا جاتا تھا۔
سعد نے صفورا گوٹھ میں جس طرح موت کا بازار گرم کیا تھا اسے اس کے لیے مبینہ طور پر ایک خصوصی تربیت دی گئی تھی۔ اس کے کیس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی انتہا پسند نظریہ نے اس کے ضمیر اور اس کے ذہن و فکر کو مغلوب کر لیا تھا۔ ایسے حالات میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کہ جب مولانا عبدالعزیز جیسے نفرت اگلنے والے لال مسجد کے مولوی کو ان کے نام سے جاری کیے گئے متعدد گرفتاری وارنٹ سے قطع نظر آزادانہ طور پر جہاں چاہیں آنے جانے آزادی حاصل ہو۔ عبدالعزیز مبینہ طور پر پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کا ایک زبر دست حامی ہے۔ یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ سعد کی بربادی کا ذمہ دار عبدالعزیز ہی تھا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انتہا پسند مذہبی خیالات و نظریات کو اسلام کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ ان نظریات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ وہ ملک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ سعد نے بھی ایک ایسے ماحول میں تربیت پائی تھی جہاں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں، دینی علماء، سیاست دانوں اور اقلیتی گروپوں پر حملے ایک دردناک معمول بن چکے ہیں، اس نے یہ گھناؤنہ جرم اسی یقین کی بنیاد پر انجام دیا تھا کہ وہ اس گھناؤنا جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد بھی بچ جائے گا۔
جہاں تک عبد العزیز کی بات ہے تو فوجی تنصیبات پر اس کے حملے کے محرکات کا اب تک کوئی پتہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ تفتیش کاروں نے حال ہی میں ایک ایسا جریدہ دریافت کیا ہے جس میں اس نے امریکہ مخالف جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اس میں اس نے خود کشی کر کے شہیدوں کی صف میں شامل ہونے کی اپنی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔ اس کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ کچھ دنوں سے ڈپریشن کا شکار تھا اور منشیات کا استعمال کر رہا تھا۔ میرا اس بارے میں کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگی کہ کیوں اس نے فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔ تاہم،اس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس نے تشدد کا رخ کر کے اپنے درد کے اظہار کا راستہ تلاس کیا تھا۔ عبدالعزیز کے طرز عمل کی وضاحت کرنے کے لیے ان کا ڈپریشن کا سہارا لینے کی کوشش کرنا اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ کار ہو سکتا ہے، جو کہ ان کے صدمے کی حالت کے پیش نظر ایک فطری اور قابل فہم حالت ہے۔ مخلوط معلومات کے علاوہ، یہ واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تعلیم کی کمی دہشت گردی کے فروغ کی وجہ ہو۔
دہشت گردی کا محرک حقیقی تعلیم کا فقدان نہیں ہے، بلکہ یہ کوئی اسی شئے ہے جو اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے، اور اسکی نشاندہی کی تو بات الگ ہے اسے روکنا بھی بہت مشکل ہے۔
انم خان فی الحال کولمبیا یونیورسٹی میں کمیونیکیشن پریکٹس میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کر رہی ہیں۔
ماخذ:
http://tribune.com.pk/story/924592/can-education-defeat-terrorism/
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-driving-force-behind-terrorism/d/103999
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-driving-force-behind-terrorism/d/104020