ڈاکٹر سید ظفر محمود
18 فروری، 2016
قارئین کو یاد ہوگا کہ 12 ستمبر 2006 کو جرمنی کی روزنبرگ یونیورسٹی میں لکچر کے دوران اس وقت کے پوپ بینڈ کٹ XVI نے صدیوں پرانے بازنطینی سلطنت کے زمانہ کے ایک غیر مستند مکالمہ کا حوالہ دے کر ذکر کیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں کچھ خاص نیا لے کر نہیں آئے ۔ دراصل چودھویں اور پندرہویں عیسوی میں سلطنت عثمانیہ عروج پر تھی اور اس نے بازنطینی سلطنت کو قابو میں کر کے اس کے بادشاہ مینویل II کو اپنی تابعداری میں صرف ایک جاگیردار کے مانند بنارکھا تھا۔ مینو یل خالی وقت میں عثمانی سلطان کے قاضی سے گپ شپ کیا کرتا تھا اور اسی مباحثہ کی بنیاد پر اس نے بعد میں ایک فارسی کے ساتھ 26 مکالمے کے عنوان سےکتابچہ لکھا تھا ، جس کا پوپ نےحوالہ دیا ۔ حالانکہ اسلام کو سمجھنے او رسمجھانے کےلئے پوپ کو قرآن و حدیث کے حوالے دینے چاہئیں تھے ۔ جرمنی میں ان کے بیان کے بعد دہلی کے انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں بین مذاہب ہم آہنگی کے تحت ایک پروگرام منعقد کیا تھا اور اس موضوع پر میرے مضامین میں شائع ہوئے ۔ اس کے فوراً بعد 13 اکتوبر 2006 کو دنیا کے 38 اسلامی اسکالرس نےاہل کتاب کے نام پر مشترک کھلا خط لکھ کر ان کی تقریر پر عالمانہ احتجاج کیا تھا ۔اگلے برس 138 اسکالرس نے عیسائیوں کے نام ایک تفصیلی خط لکھا، جس کے لیے انہو ں نے قرآن کریم کی سورۂ آل عمران کی آیت 64 سے ترغیب لیتے ہوئے ( یعنی اس اہل کتاب ایسے قول کی طرف آجاؤ جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے یعنی کہ وحدت الہٰی) خط کاعنوان ‘‘ہمارے او ر تمہارے درمیان قول مشترک’’ رکھا اور اس طرح اہل کتاب کو ڈائیلاگ کی دعوت دی۔ اس خط میں کہا گیا تھا کہ عیسائی اور مسلمان مل کر دنیا کی 55 فیصد آبادی بنا تے ہیں اور ان کے درمیان امن و عدل کے بغیر دنیا میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ دونوں کی مذہبی کتابوں میں اللہ سے اور پڑوسی سے محبت سکھائی گئی ہے ۔ اس بنیاد پر خط کے ذریعہ مسلمانوں نے عیسائیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت و احترام سے پیش آتے ہوئے ساتھ مل کر چلنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد 9 مئی 2009 کو اردن کی مسجد میں خطاب کرتے ہوئے پوپ XVIنے ‘قول مشترک’ تحریک کی تعریف کی اور کہا کہ اس کے ذریعہ عیسائیوں او رمسلمانوں کے ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد ملے گی۔
اس کےعلاوہ کینٹر بری کے آرک بشپ امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ڈونٹی اسکول’ کیمبرج انٹر فیتھ پروگرام او ربرطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے بھی اس خط کی پذیرائی کی۔ اس کے بعد سے دنیا کے مختلف علاقوں میں اس خط کے سلسلے میں کانفرنس ہوچکی ہیں۔
درایں اثنا دنیا میں تازہ ترین حالات کے مد نظر مشہور بین الاقوامی تنظیم ورلڈواچ لسٹ کی رپورٹ کے مطابق ملکوں کی حکومتیں اسلام کے نام میں انتہا پسندی سے خوفزدہ رہنے لگی ہیں اور رد عمل میں انہوں نے قومیت پرستی کو دوسری انتہا تک پہنچارکھا ہے ، ملکی قوانین و ضابطے سخت تر کردیے گئے ہیں اور مذہب کے ہر اظہار پر گہری نظر رکھی جارہی ہے۔ داعش ’بوکوحرام او رالشباب نے ملکی حکمرانی کے بندوبست کو ضرب پہنچا رکھی ہے۔
ادھر ‘ لفظ مشترک’( Common Word ) تحریک سےمنسلک خاص افراد میں شامل رہے ہیں ۔ اسلام کے مشہور اسکالر امریکہ حمزہ یوسف جنہوں نے متحدہ عرب امارات کےشیخ عبداللہ محفوظ ابن بیہ کے ہمراہ مراکش میں 25 سے 27 جنوری 2016 مسلم ممالک و سماجوں کے نمائندوں کا ایک بین الاقوامی اجلاس منعقد کیا۔ عبداللہ ابن بیہ ملک عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ کے سابق پروفیسر ہیں اور فی الوقت مسلم سماج میں فروغ امن فورم کے سربراہ ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت والے 120 ممالک و علاقوں کے 250 مفتی ’ شیوخ’ وزراء ’ مذہبی اسکالرس نے مراکش میں جمع ہوکر 750 الفاظ پر مشتمل مراکش اعلامیہ جاری کیا۔ اس کا مسودہ تیار کرتے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد نامہ مدینہ (The Madinah Charter) پر مخصوص توجہ دی گئی جو مذہبی تنوع کا عالمی شاہکار ہے۔ اس عہد نامہ کے مطابق کسی یہودی کے خلاف صرف اس بنا پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی کہ وہ یہودی ہے۔ کسی شخص کو اس لئے ملزم نہیں بنایا جائے گا کہ اس کے ساتھی نے کوئی قانون توڑا ہے۔ کسی شخص کے ساتھ اگر بیجا زیادتی ہوتی ہے تو اس کی مدد کی جائے گی، کسی خاتون کو پناہ اس کے خاندان کی اجازت سے ہی دی جائے گی ۔ یہ دستاویز ایسے شخص کو کوئی حفاظت نہیں دے گا جو قانون کے خلاف ورزی کرے۔
مراکش اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اپنا نقطہ نظرمنوانے کےلئے شدت پسندی اور دہشت گردی کے راستے اپنائے جانے کی وجہ سے عالم اسلام میں حالات خطرناک حد تک خراب ہوگئے ہیں، حکومتیں کمزور پڑنے لگی ہیں، مجرمانہ دہنیت والے افراد اسلام کے نام پر احکامات جاری کرنے لگے ہیں، اس کی وجہ سے اصل اسلام کو اور مسلم آبادیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سال عہد نامہ مدینہ کے 1400 برس پورے ہورہے ہیں ، جس کے ذریعہ پہلی اسلامی مملکت میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو ایمان کی دستوری آزادی دی گئی تھی ۔ مراکش میں کہا گیا کہ یہ کانفرنس عہد نامہ مدینہ میں اپنے مکمل اعتماد کی تجدید نو کرتی ہے۔ اس عہد نامہ کے ذریعہ نقل و حرکت کی آزادی جائداد کی ملکیت کی آزادی، آپسی سالمیت و تحفظ کی گارنٹی اور قانون کے سامنے عدل و مساوات کی گارنٹی دی گئی تھی ۔ یہ عہد نامہ مسلم ممالک میں دستور سازی کےلئے گائڈ لائنس مہیا کرتا ہے ۔ یہ عہد نامہ اقوام متحدہ کے چارٹر او راس کے تحت حقوق انسانی کے عالمی اعلامیہ سے مناسبت رکھتا ہے جس میں عمومی امن و امان کا قیام خصوصاً شامل ہے۔ انسانیت کو درپیش عالمی دقتوں پر غور کرنے سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مختلف مذہبی گروپوں کے مابین زیادہ باہمی تعاون ہونا چاہئے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے درمیان قول مشترک (Common word) کو اس طرح مضبوطی دی جائے کہ تعاون صرف رواداری اور احترام تک محدود نہ رہے بلکہ تمام ملکوں میں ہر مذہبی گروپ کے حقوق و آزادی کا تحفظ کیا جائے، جس میں تکبر تعصب یا زور زبردستی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
کانفرنس میں مسلم دانشوروں سے اپیل کی گئی کہ وہ مسلم ممالک میں دستور میں استعمال کےلئے ‘شہریت’کی ایسی تعریف اور قانونی اصول تجویز کریں جو اسلامی شریعت کے پابند ہوں، پھر بھی عالمی قوانین کی پاسداری رکھیں ۔ اسلامی اداروں او ران کے منتظمین سےاپیل کی گئی ہے کہ وہ تعلیمی نصاب پر نظر ثانی کریں کہ اس میں کہیں کسی طرح افراتفری ’ انتہا پسندی ’ دہشت گردی یا عالمی مشترکہ تہذہب کے تئیں تخریب کاری کی ترغیب تو نہیں ہوتی۔ سیاستدانوں او رحکمرانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ تمام ایسے اقدامات کریں، جن سے اندرون ملک شہریوں کے درمیان دستوری معاہداتی تعلق (Constitutional contractual relation) پید ا ہو جائے اور عالم اسلام کے اندر مختلف مذہبی گروپوں کے درمیان ایک دوسرے کے لئے دل میں جگہ پیدا ہوجائے اور بنی رہے۔ مسلم ممالک کے تعلیم یافتہ و فنکار طبقوں اور این جی اوز سےاپیل کی گئی ہے کہ وہ ایسی فضا پیدا کریں کہ مسلم ممالک میں رہائش پذیر اقلیتوں کےساتھ مساوات کا برتاؤ کیا جائے اور انہیں ان کےحقوق ملتے رہیں ۔ تمام مذاہب کے رہنماؤں ’ ہٹ دھرمی’ بدگوئی’ تذلیل و تضحیک کےخلاف مزاحمت و عذرداری کریں ۔ یہ بھی کہا گیا ہےکہ مسلمانوں کو تشدد کے خلاف آواز بھی اٹھانی چاہئے او رجہاں ممکن ہو ضروری کارروائی بھی کرنی چاہئے ۔ مختلف مذاہب کے لوگوں کو بھولنا نہیں چاہئے کہ صدیوں سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ چین سےرہتے آئے ہیں۔ ان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مل جل کر پیار محبت سےرہنے کی فطرت کو اجاگر کریں اور ماضی نوکریں اور اس طرح ہم اپنے درمیان اس باہمی اعتماد کی تجدید کریں جو انتہا پسندوں کی دہشت گردی کی وجہ سےپھیکا پڑا ہوا ہے۔
18 فروری، 2016 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/an-appeal-muslim-world-morocco/d/106380