ارشد عالم، نیو ایج اسلام
3 اگست 2022
ان کو خارج کرنے کے بجائے
ان پر کھل کر تنقید کرنا اور انہیں موضوع بحث بنانا وقت کا تقاضا ہے
اہم نکات:
1. اے ایم یو نے اپنے ایم
اے کورس سے مودودی اور سید قطب کی کتابیں ہٹا دیں ہیں
2. یہ اس وقت کیا گیا جب ماہرین تعلیم کی ایک
جماعت نے وزیر اعظم سے شکایت کی
3. ایسا لگتا ہے کہ دائیں
بازو کے لوگ بھی بائیں بازو کے ہاتھ کا کھلونا بنے ہوئے ہیں
4. نظریات کی جنگ سرزنش کرنے سے کبھی نہیں جیتی
جاتی۔ بلکہ یہ عقلی اور علمی مباحثوں کے ذریعے جیتی جاتی ہے۔
-----
ابوالاعلیٰ مودودی ایک
اسلامی عالم، اسلامی نظریی ساز، مسلمان فلسفی، فقیہ، مورخ، صحافی، کارکن اور
برطانوی ہندوستان میں سرگرم عالم دین تھے۔
----
ماہرین تعلیم کی ایک جماعت
نے حال ہی میں وزیر اعظم کو خط لکھا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک
اسٹڈیز میں ایم اے کے نصاب سے دو مفکرین ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب کی کتابوں
کو ہٹا دیا جائے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر نے مذکورہ خط کا کوئی
نوٹس لیا یا نہیں لیکن یونیورسٹی نے اب اس کی تعمیل کرتے ہوئے ان مصنفین کی لکھی
گئی کتابوں کو کورس کے مواد سے خارج کر دیا ہے۔ کوئی یقینی طور پر یہ کہہ سکتا ہے
کہ یہ سوچ و فکر کی نگرانی ہے، جو کہ یقیناً ہے۔ لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جب اس طرح کی چھنٹائی کی جا رہی ہو اور یہ یقینی طور پر
آخری بھی نہیں ہے۔ اہم بات نہ صرف اس حکومت سے، بلکہ ماضی کی حکومتوں سے بھی سوال
پوچھنا ہے جنہوں نے اس گروہ کو سنسر شپ تک پہنچایا۔ نہرو کے زمانے سے ہی اس ملک
میں کتابوں پر پابندی عائد کی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے اس کلچر نے جنم لیا کہ
حکومت کے لیے پہلے سے یہ فیصلہ کرنا درست ہے کہ ذہن سازی کیا ہے اور کس قسم کا
لٹریچر لوگوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صرف وقت کی بات تھی کہ
اس سینسر شپ کو یونیورسٹیوں تک پہنچا دیا گیا جو کہ تنقیدی سوچ اور آزادی اظہار کو
فروغ دینے کی جگہ ہے۔
بائیں بازو کی سیاسی جماعت
جس نے ان یونیورسٹیوں کو طویل عرصے تک کنٹرول کیا ہے، ان کے پاس ممنوع مصنفین کی
اپنی فہرست ہے جن کا مطالعہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں ساورکر اور گولوالکر جیسے
ہندو دائیں بازو کے مفکرین بھی شامل ہیں جنہیں نظریاتی اختلافات کے باعث نصاب سے
باہر رکھا گیا تھا۔ پھولے، امبیڈکر اور مسلم مفکرین کے دوسرے متبادل نقطہ نظر کے ساتھ
بھی یہی سلوک کیا گیا۔ اس کی وجہ بھی شاید یہی تھی: کہ یہ مفکرین نوجوان ذہنوں کو
خراب کر رہے ہیں یا کہ اگر نوجوان طالب علموں نے 'ان کے' نقطہ نظر کو قبول کر لیا
تو کیا ہوگا؟ یا اس کے پیچھے شاید یہ فکر تھی کہ ہندوستانی معاشرے کے ایک خاص
بیانیے کو بلند رکھا جائے۔ ایسی ہی ایک یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم ہونے کے
ناطے مجھے اب اس قسم کے فیصلے میں معیوب فکر کے سرایت کر جانے کا احساس ہوتا ہے۔
اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے مجھ جیسے بہت سے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ
ہم ملک کے سب سے اہم سیاسی دھڑے کو سمجھنے سے محروم ہو گئے۔ مزید برآں، اس میں
پالیسی کی ناکامی کا بھی ایک بڑا دخل ہے۔ یونیورسٹی سے نکالے جانے کے باوجود، وہ
سماجی اور قومی زندگی میں بے پناہ مقبولیت رکھتے ہیں۔ اور اب ان کا غلبہ
یونیورسٹیوں پر بھی ہو چکا رہا ہے۔
بھارت میں دائیں بازو کے
ہندو دانشور بھی یہی غلطی کر رہے ہیں، جنہیں گزشتہ دہائی میں عروج حاصل ہوا ہے۔
مودودی اور قطب کی کتابوں کو خارج کرنے کے ان کے مطالبات کو ایک تسلسل میں دیکھا
جانا چاہیے، جو وہ بعض اوقات مذہبی جذبات مجروح ہونے کے نام پر یا ملکی سالمیت کو
خطرات کا حوالہ دے کر کرتے رہے ہیں۔ چاہے شیواجی پر ایلن لین کی کتاب کو ہٹانے کا
معاملہ ہو یا رامانوجن کے رامائن مضمون کا معاملہ ہو جسے دہلی یونیورسٹی نے ہٹا
دیا تھا، سب کے بنیادی خدشات مشترک نظر آتے ہیں: یہ نوجوان ہندوستانیوں کے ذہنوں
پر منفی اثر ڈالے گا۔ آج، دایاں بازو مجموعی ہندوستانی فکری روایت کے اندر ایک
مضبوط دھڑا ہے۔ توقع تو یہ تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ، وہ کچھ مصنفین سے بوکھلاہٹ
کا شکار ہونے کے بجائے اپنے اپنے شعبے میں مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ لیکن ہو یہ رہا
ہے کہ دائیں بازو کا طبقہ بنیادی طور پر بائیں بازو کے تیار کردہ فارمولے کی پیروی
کر رہا ہے، جو کہ ہر اس چیز کو خارج کر دینا ہے جو ان کی پسند کے مطابق نہیں ہے۔
اگرچہ دائیں بازو کے لوگ اکثر بائیں بازو پر تنقید کرتے رہتے ہیں، لیکن اے ایم یو
کا واقعہ یہ بالکل واضح کر دیتا ہے کہ ان کے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی نئی چیز
نہیں بچی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ وہ اقتدار میں ہونے کے باوجود بھی بائیں بازو کے
ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے پاس
بائیں بازو کی لبرل ازم کی بالادستی کو چیلنج کرنے کا کوئی طویل مدتی نقطہ نظر ہے
یا وہ صرف اسلام پسند مفکرین کو نشانہ بنا کر سیاسی اشارے میں ہی دلچسپی رکھتے
ہیں۔
مودودی اور قطب اور ان
جیسے بہت سے دوسرے لوگوں کا اسلام پرستی پر بڑا گہرا اثر ہے۔ یہ ان کی خواہش ہے کہ
اسلامی حکومت کو ایک شرعی ریاست کے ذریعے نافذ کیا جائے جس نے آج مسلم دنیا کے
بیشتر حصوں میں تباہی مچا رکھی ہے۔ سیاسی اسلام کے سب سے بڑے علمبردار ہندوستانی
مودودی جو بالآخر پاکستان ہجرت کر گئے تھے، اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے
لحاظ سے انہیں بہت کم کامیابی حاصل ہوئی۔ احمدیہ فرقے کو اسلامی برادری خارج کرنے
کے علاوہ، قطب کا اثر و رسوخ اس سے زیادہ تھا اور اس کے نظریات اخوان المسلمین کی
شکل میں پروان چڑھے، جو آج بہت سے ممالک میں سیاسی تشدد کی جڑ ہے۔
میں دونوں مصنفین کو ان کے
نظریات کے لحاظ سے بہت کم اہمیت دیتا ہوں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا
کہ ان کی کتابیں آج کروڑوں مسلمان پڑھتے ہیں۔ بہت سے مسلمان ایسے مصنفین کے ذریعے
اپنی مسلمانیت کا تصور تشکیل دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے معاشرے میں نظریات کی جنگ جاری
ہے۔ اعتدال پسند انتہا پسندوں سے اسلامی بیانیہ پر تسلط کے لیے لڑ رہے ہیں، جن میں
سے اکثر مودودی اور قطب کے پیروکار ہیں۔ اس لیے یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ بعض
معتدل مسلمانوں نے ان مصنفین کی کتابوں کے اخراج کا خیر مقدم کیا ہے۔
لیکن کیا ان کی کتابوں کو
نصاب سے خارج کر دینا ایک موثر حل ہے؟ انٹرنیٹ کی آج کی دنیا میں، ایسا کرنا
صریحاً بے وقوفی ہے۔ ان کی کتابوں کو پڑھنے میں دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص
لائبریری جا سکتا ہے یا ڈیجیٹل لائبریری میں لاگ ان کر سکتا ہے۔ جس چیز کی ضرورت
ہے وہ بالکل واضح ہے۔ کہ ان اسلام پسندوں کے نظریات پر آزادانہ تنقید اور بحث ہونی
چاہیے۔ اور ایسا کرنے کے لیے یونیورسٹی سے بہتر اور کون سی جگہ ہے؟ اے ایم یو نے
جس طرح سے مطالبات کو تسلیم کیا ہے اس سے ہمیں اس فکری دلدل کا علم ہوتا ہے جس میں
یہ یونیورسٹیاں ڈوب چکی ہے۔ بالآخر اسلام پسندی کا مقابلہ مسلمانوں کے ذہنوں میں
ہے۔ اور ذہن پر حملہ آور شئی کو جاننے اور اس کی تنقید کرنے کی آزادی کے بغیر ایسا
کیسے کیا جا سکتا ہے؟
English
Article: AMU Removes Maududi and Qutb: Is This How the
Islamism is Supposed to be Defeated?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism