نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
7 جنوری 2023
ان دنوں حیدرآباد کے ایک مسلم
پولیس انسپکٹر نے مسلم علاقے میں ایک اصلاحی مہم چلا رکھی ہے۔ اس انسپکٹر کا نام ہے
سید عبدالقادر جیلانی وہ رات کے وقت مسلم محلوں میں نکلتے ہیں اور آوارہ گردی کرنے
والے اور دیر رات تک اڈہ بازی کرنے والے نوجوانوں کو پکڑ کر انہیں سرزنش کرتے ہیں۔
انہیں ڈنڈے لئے لوگوں کو رگیدتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ علاقے میں انہیں دیکھتے
ہی نوجوان اور بزرگ افراد فرار ہو جاتے ہیں۔ وہ بزرگ افراد کو ادب سے سمجھاتے ہیں کہ
جب خود وہ دیر رات کو گھر سے باہر فالتو باتوں میں وقت ضائع کریں گے تو پھر نوجوانوں
کے سامنے وہ کون سی مثال پیش کریں گے۔
برصغیر کے مسلم محلوں میں
دیررات تک بچوں نوجوانوں اور بزرگوں کا دکانوں اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر گپ شپ کرنا
اور لایعنی باتوں میں وقت گزارنا عام بات ہے۔ اور یہ طرزعمل اتنا عام ہوگیا ہے کہ لوگ
اس طرف سوچتے بھی نہیں۔ حیدرآباد کے مسلم علاقوں میں بھی یہی غیر اسلامی طرز عمل عام
ہے۔ بچے اور جوان دیر رات تک گھر سے باہر گھومتے یا اڈہ بازی کرتے ہیں اور اس آوارہ
گردی کی وجہ سے رفتہ رفتہ برے کاموں میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں ۔
گنجان مسلم علاقوں میں لوگ
تنگ مکانوں اور کھولیوں میں رہتے ہیں اس لئے کچھ لوگوں کے لئے گھر میں زیادہ وقت گزارنا
مشکل ہوتا ہے۔ ایسے لوگ مجبورا ً گھر سے باہر رہتے ہیں ۔ لیکن دیر رات تک جاگنا اور
دن کو دیر سے اٹھنا اس مسئلے سے الگ ہے۔ اس کا آبادی کے گنجان ہونے اور گھروں کے چھوٹے
ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ در اصل غلط شہری طرز زندگی کی وجہ سے ہے۔ وہ لوگ بھی
دیر رات تک گھر سے باہر اڈہ بازی کرتے ہیں جو کشادہ کالونیوں اور کشادہ مکانوں میں
رہتے ہیں۔ غیر مسلموں کی کالونیوں میں دیررات اڈہ بازی یا آوارہ گردی کا چلن نہیں کے
برابر تو نہیں بہت کم ضرور ہے۔ لہذا، گنجان آبادی کو اس سماجی مسئلے کا سبب نہیں سمجھا
جا سکتا ہے۔ مسلمانوں میں اس اخلاقی خرابی کا سبب فیملی میں اخلاقی اقدار اور تعلیمات
کا فقدان ہے۔ نوجوان اور بچے اکثر کسی کے گھر کے دروازے پر ہی بیٹھ کر شور شرابہ اور
گالی گلوچ کرتے ہیں اور صاحب مکان کے اعتراض کرنے پر بگڑ جاتے ہیں۔
کچھ علاقوں میں تو بچے بھی
دیر رات تک گھر سے باہر کھیلتے رہتے ہیں۔یہ خرابی غیر مسلموں میں نہیں ہے جبکہ مسلموں
میں بچوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت کا باقاعدہ اسلامی نظام موجود ہے۔ شریعت میں بچوں
کی تربیت کی تلقین کی گئی ہے۔ اور انہیں اچھی تعلیم دینے کی نصیحت کی گئی ہے۔ لیکن
والدین بچوں کو تعلیم وتربیت نہیں دیتے کیونکہ وہ خود بھی بے راہ روی اور بے ضابطگی
کے شکار ہیں۔ ملی قیادت کو صرف جذباتی نعروں اور مسلکی مسائل میں دلچسپی ہے۔ اصلاح
معاشرہ کی مہم میں بہت کم لوگوں کی دلچسپی ہے۔ ایسے میں سید عبدالقادر جیلانی جیسے
پولیس انسپکٹر ہی اپنے ضمیر کی آواز پر اصلاح معاشرہ کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ کام
مستقل اور منظم مہم اور تحریک کا تقاضا کرتا ہے۔ سماج کا ہر فرد اصلاح معاشرہ کے لئے
اپنا فرض ادا کرے۔ والدین اپنا فرض ادا کریں اور بچوں کو دیر رات یا دن کو آوارہ گردی
سے روکیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود کو نظم و ضبط کا پابند بنائیں۔ درسوں
اور اسکولوں کے اساتذہ بھی نصاب کی تعلیم کے علاوہ اس مسئلے پر بھی توجہ دیں اور بچوں
کو آوارہ گردی سے پرہیز کرنے کی تلقین کریں۔ امام و خطیب حضرات جمعہ کے خطبے میں مسلکی
مسائل پر گفتگو کرنے کے بجائے آوارہ گردی کے نقصانات پر قرآن وحدیث کی روشنی میں گفتگو
کریں۔ مسلم محلوں میں جو کمیٹیاں اور ادارے ہوتے ہیں ان کے اراکین بھی اس طرز عمل کے
خلاف مہم چلائیں ۔ تب ہی کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ انسپکٹر سید عبدالقادر
جیلانی کا جذبہ قابل ستائش ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے ساتھ اپنے بھائیوں
کی اصلاح کے لئے بھی فکر مند رہتے ہیں۔ اور ان کی بد نصیبی ہے کہ نوجوانوں کی اصلاح
کی ذمہ داری جن کے کاندھوں پر ہے وہ تو اپنی نماز پڑھ کر چین سےسو جاتے ییں اور انسپکٹر
سید عبدالقادر جیلانی رات کو ڈنڈا لیکر اپنی ہی قوم کے نوجوانوں کے پیچھے بھاگتے رہتے
ہیں۔۔
-----------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism