New Age Islam
Fri May 23 2025, 04:18 PM

Urdu Section ( 5 Oct 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Amjadi Bano Begum: A Revolutionary Voice for Women's Empowerment and India's Independence امجدی بانو بیگم: آزادئ ہند اور خواتین کی تعمیر و ترقی کے حق میں ایک انقلابی آواز

 ریحان احمد خان، نیو ایج اسلام

1 اکتوبر 2024

 امجدی بانو بیگم، آزادئ ہند کی تحریک میں ایک عظیم لیڈر تھیں، جنہوں نے مہاتما گاندھی کے ساتھ فنڈ اکٹھا کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے، خواتین کی تعلیم، سماجی اصلاحات، اور مسلم خواتین کے حقوق کی بالادستی کے لیے کام کیا۔

 اہم نکات

 1. خواتین کی تعلیم کی حامی: امجدی بانو بیگم نے علی گڑھ ویمنز کالج کی مشترکہ بنیاد رکھی، مسلم خواتین کے لیے تعلیم کو فروغ دینے، قدامت پسند اصولوں کو چیلنج کرنے، اور معاشرے اور قوم کی تعمیر میں، تعلیم یافتہ خواتین کے تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔

 2.  سماجی مصلح: انہوں نے مسلم پرسنل لا کے تحت مساوات پر زور دیتے ہوئے، قوم مسلم میں شادی، وراثت اور طلاق کے معاملات میں خواتین کے حقوق کی وکالت کی۔

 3.  تحریک آزادی میں کردار: امجدی بانو نے گاندھی اور محمد علی جوہر کے ساتھ مل کر، ہندوستان کی تحریک آزادی، اور خلافت تحریک کے لیے چندہ اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

 4.  جرات اور لیڈرشپ: اپنے شوہر کی گرفتاری کے بعد، امجدی بانو نے، بے خوف ہوکر تحریک خلافت کی قیادت کی، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ کی رہنمائی کی، اور کانگریس کے اجلاسوں میں اس مقصد کی نمائندگی کی۔

 5.    میراث: تعلیم، سماجی اصلاحات، اور خواتین کے حقوق میں ان کی خدمات کا ہندوستانی معاشرے پر دیرپا اثر ہوا، خاص طور پر ان اداروں کے ذریعے، جن کے قیام میں انہوں نے مدد کی، اور مسلم خواتین کو بااختیار بنایا۔

----

Amjadi Bano Begum

-----

 تعارف

 ہندوستانی تاریخ میں، خاص طور پر ہندوستان کی تحریک آزادی، اور خواتین کو بااختیار بنانے کی جنگ کے بیانیے میں، ایک نام اپنی لچک، قیادت اور دور رس اثرات کے لیے بے انتہا نمایاں ہے: امجدی بانو بیگم۔ زبردست اہمیت کی حامل شخصیت، امجدی بانو کی زندگی ان خواتین کی طاقت اور ذہانت کا ثبوت ہے، جنہوں نے نہ صرف حمایت کی، بلکہ فعال طور پر ہندوستان کے سماجی و سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار بھی ادا کیا۔ تعلیم نسواں کی وکالت، سماجی اصلاحات میں اپنی خدمات، اور ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں، اپنے کردار کے ذریعے، امجدی بانو ایک ایسے وقت میں، ایک مضبوط اور بااثر شخصیت بن کر ابھریں، جب خواتین کی آوازیں اکثر کہیں گم ہو کر رہ جاتی تھیں۔

 ابتدائی حالاتِ زندگی اور شیخ محمد عبداللہ سے شادی

 امجدی بانو بیگم، ہندوستان میں ثقافتی طور پر ایک امیر اور مستحکم خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ایک ایسے ماحول میں ان کی پرورش و پرداخت ہوئی، جہاں تعلیم اور سیاسی بحث کو اہمیت دی جاتی تھی، وہ ابتدائی عمر میں ہی ترقی پسند نظریات سے روشناس ہو چکی تھیں۔ اور اسی بنیاد نے، آگے چل کر مختلف سماجی چیلنجوں سے نمٹنے میں، ان کی رہنمائی کی۔

 مشہور ماہر تعلیم اور مصلح شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ ان کی شادی سے، ایک شاندار شراکت داری کا آغاز ہوا، جس کا ہندوستان میں خاص طور پر مسلم خواتین میں، تعلیم نسواں پر کافی گہرا اثر ہونے والا تھا۔ اس مضبوط جوڑے نے، اپنی زندگی تعلیم نسواں کے فروغ اور خواتین کو بااختیار بنانے میں وقف کر دیا، اور اس دور میں مسلم خواتین پر عائد سماجی اور مذہبی پابندیوں کو ہٹانے پر خصوصی توجہ دی۔

 تعلیم نسواں کا فروغ

 امجدی بانو کا سب سے بڑا کارنامہ تعلیم نسواں کے لیے، ان کی انتھک جدوجہد تھا۔ ایک ایسے وقت میں، کہ جب سماجی اور مذہبی مجبوریوں نے، اکثر مسلم خواتین کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے سے روکے رکھا تھا، امجدی بانو نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اس فضاء کو بدلنے کی کوششیں شروع کیں۔ انہوں نے مل کر علی گڑھ ویمنز کالج کی بنیاد رکھی، جو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایک توسیعی حصہ ہے، جس سے مسلم خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی ممکن ہوئی، جو کہ ان کی ترقی کی طرف ایک اہم قدم تھا۔

 امجدی بانو کا دائرہ کار اداروں کے قیام سے بھی وسیع تر ہوتا چلا گیا، اور انہوں نے قوم مسلم میں تعلیم کی اہمیت کے لیے زبرست مہم چلائی، انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ، تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف اپنے خاندانوں کو فائدہ پہنچائیں گی، بلکہ ان سے پوری قوم مسلم مستفید ہوگی۔ انہوں نے قدامت پسند ذہنیت کا سامنا کرتے ہوئے، یہ ظاہر کیا کہ تعلیم، روایت سے متصادم نہیں ہے، بلکہ ترقی اور جدیدیت کا ایک راستہ ہے۔

حقوق نسواں کے لیے سماجی اصلاحات کی قیادت

 ہندوستان کے سماجی ڈھانچے میں، امجدی بانو کی خدمات، صرف تعلیم تک ہی محدود نہیں تھیں۔ انہوں نے کھل کر، وسیع تر سماجی اصلاحات، اور خاص طور پر قوم مسلم میں حقوق نسواں اور ان کی حیثیت سے متعلق معاملات میں، آواز بلند کی۔ ان کا ماننا تھا کہ خواتین کو بااختیار بنانا، معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے، اور انہوں نے سخت پدرسرانہ اصولوں کو چیلنج کیا، جنہوں نے آزادئ نسواں کو شادی، وراثت اور طلاق جیسے معاملات تک ہی محدود کر رکھا تھا۔

 ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء سے متعلق مباحثوں کی تشکیل میں، ان کے کردار سے، اصلاحات کے لیے ان کے عزم و حوصلے کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی، کہ خواتین کو قانونی تحفظ حاصل ہو، اور ان کی ذاتی زندگیوں کو متاثر کرنے والے فیصلوں میں ان کی بات بھی رکھی جائے، اور اسلامی قانون کے دائرہ کار میں خواتین کے لیے مساوات اور وقار کے لیے کوشاں رہیں۔

 ہندوستان کی جنگ آزادی میں ان کا کارنامہ

 ہندوستان کی جنگ آزادی میں امجدی بانو کا کردار بھی اتنا ہی قابل ذکر ہے۔ اگرچہ وہ فرنٹ لائن سیاسی لیڈر نہیں تھیں، لیکن انہوں نے پردے کے پیچھے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا، خاص طور پر خواتین کو متحرک کرنے اور مسلم خواتین میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں، ان کا کام بے مثال ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس اور خلافت موومنٹ کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہمات میں، ان کی کارکردگی نمایاں تھی، اور انہوں نے ملک کے مفاد میں، مالی امداد اکٹھا کرنے کے لیے مہاتما گاندھی اور محمد علی جوہر جیسی اہم شخصیات کے ساتھ کام کیا۔

 تلک سوراج فنڈ اور خلافت فنڈ کے لیے، حمایت حاصل کرنے میں، انہوں نے غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ امجدی بانو کی شخصیت اتنی بااثر تھی، کہ انہیں ملک بھر میں فنڈ ریزنگ کی مہم کے لیے مدعو کیا گیا۔ ان کی کوششوں سے کروڑوں روپے اکٹھا ہوئے، جس سے تحریک آزادی کو پروان چڑاھنے میں مدد ملی۔

 خود گاندھی نے، امجدی بانو کو ایک "بہادر خاتون" قرار دیتے ہوئے، ان کی غیر معمولی خدمات کو تسلیم کیا، جنہوں نے فنڈ اکٹھا کرنے کی مہمات کی قیادت کی۔ گاندھی اکثر، عوام کے ساتھ جڑنے، اور انہیں متحرک کرنے کی، امجدی بانوں کی صلاحیت پر حیران وششدر رہ جاتے تھے۔ گاندھی نے کہا، کہ امجدی بانو کا عوامی خطاب اتنا اثر انگیز ہے، کہ اس سے میرے مشن اور میری تحریک کو خوب مقبولیت ملی، خاص طور پر خواتین میں، اور انہیں کی وجہ سے، ملک گیر پیمانے پر میری یہ شخصیت لوگوں میں قائم ہو سکی ہے۔ اپنے ایک مضمون میں، گاندھی نے مزاحیہ انداز میں یہاں تک کہا، کہ امجدی بانو اپنے شوہر کو عوامی تقریر کا فن سکھا سکتی تھیں، اپنے الفاظ سے سامعین کو متوجہ کرنے میں، کچھ ایسی تھی ان کی مہارت۔

 مصیبت کے وقت ہمت

 امجدی بانو کی ہمت اور ان کا عزم و حوصلہ، اور تحریک آزادی سے ان کی وابستگی، آزادی کے چند مشکل ترین لمحات میں نمایاں تھی۔ ایک خاص واقعہ ہوں ہے کہ، جب ان کے شوہر محمد علی کو 1921 میں گرفتار کیا گیا، تو امجدی بانو کی ثابت قدمی کھل کر سامنے آئی۔ جب محمد علی کو والٹیر سٹیشن پر حراست میں لیا گیا، تو امجدی بانو وہ واحد شخص تھیں، جنہیں ان سے ملنے کی اجازت تھی۔ مشکل ترین حالات میں بھی، ان کے پرسکون اور بے خوف رویے کی، گاندھی تعریف کیا کرتے تھے، اور بعد میں انہوں نے مشکل وقت میں، امجدی بانو کے عزم و حوصلے کے بارے میں بھی لکھا۔

 محمد علی سے ملاقات کے بعد، امجدی بانو نے حالات سے بے خوف ہوکر، گاندھی کے ساتھ اپنا سفر دوبارہ شروع کیا، اور کیرلا میں تحریک کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا جاری رکھا، جب کہ ان کے شوہر کو کراچی کی ایک جیل میں منتقل کردیا گیا تھا۔ محمد علی، جو اپنے بھائی شوکت کے ساتھ قید تھے، اپنی اہلیہ کی قیادت اور طاقت کی دل سے تعریف کرتے تھے۔ اپنی تحریروں میں، انہوں نے امجدی بانو پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے، انہیں نہ صرف اپنا جیون ساتھی، بلکہ ملک کی جنگ آزادی میں ایک دوست اور ساتھی بھی کہا ہے۔

محمد علی کی موت کے بعد بھی ان کی قیادت کا تسلسل

 1931 میں محمد علی کی موت کے بعد بھی، امجدی بانو تحریک آزادی کا مرکزی محور بنی رہیں۔ اپنے شوہر کی موت، ان کے لیے ایک زبردست دھچکا تھا، لیکن انہوں نے اپنے سیاسی سفر کو اسی عزم و حوصلے کے ساتھ جاری رکھا، اور اس مقصد کے لیے لڑتی رہیں، جس کے لیے انہوں نے مل کر جدوجہد کی تھی۔ تحریک خلافت میں ان کی قیادت، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں ان کا کردار، اور کانگریس کے اجلاسوں میں، متحدہ صوبوں کی نمائندگی کرنے میں ان کی کوششوں سے، ان کی سیاسی ذہانت اور مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے، ان کے غیر متزلزل عزم و حوصلے کا اظہار ہوتا ہے۔

 میراث اور اثر

 امجدی بانو بیگم کی میراث کافی مضبوط ہے۔ وہ ایک دور اندیش تھیں، جو معاشرے میں تبدیلی لانے، خاص طور پر خواتین کے حوالے سے، تعلیم اور اصلاحی اقدامات کی طاقت کو سمجھتی تھیں۔ علی گڑھ ویمنز کالج، تعلیم نسواں کے لیے ان کی لگن کا ثبوت ہے، اور سماجی اصلاحات کے لیے ان کی وکالت، ہندوستان میں خواتین کے حقوق کے لیے وقف تحریکوں کو حوصلہ دیتی ہے۔

 امجدی بانو کی حیات و خدمات اس بات کی عکاسی کرتی ہیں، کہ وہ اپنے شوہر کے سیاسی کیریئر میں، صرف ایک معاون ہی نہیں، بلکہ اپنے طور پر ایک لیڈر بھی تھیں۔ ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں، ان کی خدمات غیر معمولی تھیں، اور مسلم خواتین کی تعلیم اور حقوقِ نسواں پر ان کے اثرات تبدیلی آمیز تھے۔ خاندان اور برادری سے اپنی وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے، ایک معلم، مصلح اور سیاسی کارکن کے طور پر، اپنے عوامی کرداروں میں توازن پیدا کرنے کی، امجدی بانو کی قابلیت نے انہیں ہندوستان کی تاریخ میں، واقعی ایک غیر معمولی شخصیت کی حیثیت سے زندہ کر دیا ہے۔

 محمد علی کے الفاظ میں، وہ نہ صرف ان کی پیاری بیوی تھی، بلکہ ان کی ساتھی بھی تھیں، ان کے مشترکہ مشن میں برابر کی شریک بھی تھی۔ جیسے ہی ہندوستان 1947 میں آزادی کے قریب پہنچا، امجدی بانو اسی سال مارچ میں اپنی موت تک، ایک طاقتور اثر و رسوخ کے ساتھ زندہ رہیں، اور اپنے پیچھے ایک ایسا ورثہ چھوڑ گئیں، جو نسلوں کو متاثر کر رہا ہے۔

 نتیجہ

 امجدی بانو بیگم کی زندگی حوصلے، ذہانت اور ان مقاصد کے لیے بے لوث لگن کی کہانی ہے، جن پر وہ یقین رکھتی تھیں۔ تعلیم، سماجی اصلاحات اور سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے، جدید ہندوستان کی تشکیل میں، ان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ وہ تبدیلی کا ایک مینارہ نور بنی ہوئی ہیں، جو ایک ایسی لیڈر تھیں، جنہوں نے نہ صرف خواتین کے حقوق کی وکالت کی، بلکہ ان اصولوں پر تا حیات عمل بھی کیا، جن کی وہ تبلیغ کرتی رہیں۔ آج، ان کی خدمات کو، تحریک آزادی اور ہندوستان میں صنفی مساوات کے لیے جاری جدوجہد، دونوں کا جزو لازم سمجھا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 English Article: Amjadi Bano Begum: A Revolutionary Voice for Women's Empowerment and India's Independence

URL: https://newageislam.com/urdu-section/amjadi-begum-revolutionary-empowerment-independence/d/133365

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..