اسد مفتی ( ہا لینڈ)
25 اکتوبر، 2014
یہ بات تو یقیناً آپ جانتے ہونگے کہ امریکہ دنیا میں ترقی پذیر ممالک کو اسلحہ کی فروخت میں سب سے آگے ہے ، شاید یہ بات آپ کے علم میں نہ ہو کہ امریکہ بہادر کے دنیا میں بھر 737 فوجی اڈے ہیں جن کی قیمت لگ بھگ 137 ارب ڈالر ہے ( قیمت سے مراد ہے کہ اگر ان فوجی اڈوں کی دوبارہ تعمیر کی جائے تو لاگت کم از کم 137 ارب ڈالر آئے گی) جو کہ بہت سے ملکوں کے جی ڈی پی ( گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ) سے بھی زیادہ ہے۔ 2005 میں امریکی فوجیوں کی تعداد جو بیرون ملک میں تعینات تھی 2 لاکھ 975 تھی جو اب تین کے قریب پہنچ چکی ہے ان کی دیکھ بھال او رمدد کیلئے 81 ہزار 425 مزید امریکی شہری بیرون ملک مقیم ہیں ۔ پنٹاگن کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجی اڈوں میں 32 ہزار 723 بیر کس ، ہنگرز، اسپتال اور دوسری عمارتیں شامل ہیں، علاوہ ازیں امریکی افواج نے ان ممالک میں مزید 16 ہزار 527 عمارتیں لیز پر لے رکھی ہیں ۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فوجی اڈوں کی مندرجہ بالا تعداد کلی طور پر درست نہیں اور وہ یوں کہ پنٹاگن نے اس تعداد میں سربیا ، کوسووہ، عراق، افغانستان ، اسرائیل ، قرغستان ، قطر ، ازبکستان اور ہمارے ‘‘پیارے ملک’’ پاکستان کے فوجی اڈوں کو شامل نہیں کیا گیا اس طرح صدر اوباما ناجائز دباؤ ڈال کر جنگ کے نام پر اب تک ایک کھرب 83 ارب ڈالر کی خطیر رقم کا نگریس سے منظور کرواچکے ہیں ۔ یہ رقم چین، روس، برطانیہ اور بھارت کے مجموعی فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ بش انتظامیہ نے ‘‘ ہوم لینڈ سیکورٹی ’’ کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا ہے جو سالانہ 40 ارب ڈالر خرچ کرر ہا ہے جب کہ دہشت گردی کے حملوں کو ناکام بنانے کے لئے امریکہ میں داخلے کےتمام راستوں پر چیکنگ کی مد میں 15 ارب ڈالر سالانہ خرچ کررہاہے جس میں بتدریج ہر سال اضافہ ہورہا ہے 2010 ستمبر میں اوباما حکومت نے عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں کے لئے 190 ارب ڈالر کا مطالبہ کیا تھا جو منظور کرلیا گیا امریکی صدر اوباما نے آغاز حکومت سے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے لئے درکار رقم میں 43 ارب ڈالر کا اضافہ کیا تھا ان کاکہنا تھاکہ اضافی رقم میں سے 6 ارب ڈالر افغانستان میں اضافی امریکی فوج کے لئے خرچ ہونگے جب کہ 11 ارب ڈالر سے امریکی افواج کے لئے بارودی سرنگوں سے محفوظ سات ہزار بکتر بند گاڑیاں خریدی جائیں گی۔
وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے سینیٹ کو بتایا کہ امریکی فوجیوں کا جانی نقصان کم سے کم ہوسکے اس لئے ہم نے رقم کا کچھ حصہ دشمن کے حملوں سے بچنے اور فوج کے لئے ‘‘ لڑاکا گاڑیوں ’’ کی خریداری پر خرچ کیا ہے ۔ 9 ارب ڈالر مستقبل کی فوجی کارروائیو ں کےلئے درکار ٹیکنا لوجی اور آلات کی خریداری ، چھ ارب ڈالر امریکی افواج کی فوری تعیناتی کے لیےتیاری، ایک ارب ڈالر امریکی سہولتوں اور اڈوں کیلئے، جب کہ ایک ارب ڈالر افغان سیکورٹی عملہ کی تربیت اور انہیں اسلحے کی فراہمی کے لئے خرچ کئےجائیں گے ۔ ان فضول خرچیوں کے لیے اتنے ڈھیر سارےڈالر کہاں سے آئے تھے ؟ جواب ہے تیسری دنیا کے ممالک سے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ سال 2009 میں امریکہ نے تیسری دنیا کے ممالک کو دوسرے ممالک سے زیادہ ہتھیار فروخت کئے ہیں ۔ سال گزشتہ تیسری دنیا جسے تھرڈ ورلڈ بھی کہتےہیں کہ ممالک نے امریکہ سے ہی سب سے زیادہ ہتھیار خریدے ، ان ممالک نے 43 فیصد ہتھیاروں کی خریداری امریکہ سے جن کی مالیت 15.2 بلین ڈالر ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 12۔2011 میں پاکستان ، بھارت اور سعودی عرب نے سب سے زیادہ ہتھیار حربی سازو سامان امریکہ سےخریدا ، خود ساختہ خطرات میں گھرے ہوئے پاکستان نے صرف 2010 میں 1.7 بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدے۔ دکاندار ( امریکہ) نےاپنے مال کی فروخت کا جواز مہیا کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ہتھیار وں کی فروخت کی مدافعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیو کلئیر بموں سے لیس پاکستان مخالف دہشت گردی جنگ میں اہم حلیف ہے۔ اسامہ بن لادن کے نام پر اسلحے کی فروخت امریکہ کے لئے نہایت منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر گیا تھا یہی وجہ ہے کہ اسلامی مماملک اسامہ کو جینے نہیں دیتے تھے اور امریکہ مرنے نہیں دیتا تھا ۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ القاعدہ کے حوالے سےایک رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ اسامہ مرحوم اور القاعدہ کی حمایت میں زبردست کمی ہوئی ہے جب کہ امریکہ کے اسلحہ کی فروخت بڑھ گئی ہے۔ امریکہ کی اسلحے کی فروخت سے ہونے والی آمدنی 3.4 ارب ڈالر زیادہ ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے اگر آمدنی میں اضافہ نہ ہوتا تو امریکہ دنیا میں اپنے فوجی اڈوں کے تحفظ اور عراق و افغانستان جنگ پر 600 بلین ڈالر کیسے صرف کرتا؟
کانگریس ریسرچ سروس ( سی آر ایس ) کی ایک رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اوباما انتظامیہ عراق اور افغانستان جنگ پر ہر ماہ 13 بلین ڈالر خرچ کرتی تھی ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف افغانستان پر ماہانہ اخراجات 10 بلین ڈالر آتے تھے، جب کہ تین بلین ڈالر افغان سیکورٹی کے حصے میں آتے تھے رپورٹ کے مطابق دیگر چھوٹے موٹے اخراجات اس میں شامل نہیں ۔ سی آر ایس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اوبامامہ انتظامیہ نے مالی سال 2015 کے لئے مزید فنڈز کی درخواست کی ہے جس سے 56 بلین ڈالر صرف مڈل ایسٹ پر خرچ ہونگے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2017 تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ 1.4 کھرب ڈالر خرچ کرسکتا ہے ۔
یہاں ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے گزشتہ ساٹھ برسوں میں امریکہ نے 40 غیر ملکی اور 23 قوم پرست حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جس میں کامیابی کاتناسب زیادہ ہے یہ حکومتیں اپنے عوام کے بے حد مقبول تھیں لیکن وہاں امریکہ کے مفادات محفوظ نہیں تھے ۔
جس کو چاہیں تباہ کر ڈالیں
آج کل آپ کازمانہ ہے
25 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/america-destroy-any-nation-wishes/d/99733