علامہ رحمت اللہ طارق
جہاد کے مفہوم و معنی کیا ہیں؟ جو احکام معروضی حالات سے مربوط ہیں ان پر عام حالات میں عمل کی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ او رکیا وجہ ہے کہ اسلام طاقتور اور توانا ہونے کے باوصف کشا کش او رجہاد کو صرف دفاعی حیثیت دیتا اور قتل عام کے عنوان سے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا؟ یہ اور اس طرح کے سوالات ذہن پر اس لئے ابھرتے ہیں کہ زمانہ ماضی میں جہاد کے لغوی معنی ترک کر کے ادب جاہلیت اور قرآن کے استعمالات سے اس کا رشتہ کاٹ کر صرف اورصرف جارحیت کے نئے مفہوم میں رہنے دیا گیا ہے۔ جب کہ ہمارے قائدین مذہب جانتے تھے کہ اس میں ہتھیار بھی استعمال ہوتے ہیں اور سروں کی فصل بھی کٹتی ہے۔ اس کا جواب سادہ سا ہے کہ قرآن پاک میں ’’ جھد‘‘ کے 15مشتقات استعمال ہوئے ہیں جن میں رائج یعنی موجودہ مفہوم کی واضح نشاندہی نہیں ہوتی۔ زندگی کی کشاکش سے پاک جد و جہد او رکاوش کا نام جہاد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک جہاد کی موجودہ نفسیات او رماہیم کے برعکس توجہ دلاتا ہے کہ جارحیت کسی خوبی کی عکاسی نہیں ہے فرمایا : وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ َ ۔وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ۔ (بقرہ :205)
لوگ ایسے بھی ہیں جو دشمنی میں یکتا ہیں وہ جب و ڈیر ے بن جاتے ہیں تو اپنی دون فطرتی کے مطابق شدید قسم کے فسادی بن جاتے ہیں جو کھیت کھلیانوں کو اجاڑ دیتے او رمال و مویشیوں کو تباہ و برباد کر ڈالتے اور انسانی سروں کی فصل کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔
اس آیت نے قتل و غارت یا دوسرے لفظوں میں مزاحمتی ہو یا جارحیت والا جہاد واضح کردیا کہ ان میں ہتھیار بھی اٹھیں گے کھیت کھلیان بھی تباہ ہوں گے ۔ نسل انسانی او رمال مویشی بھی کھپت ہوں گے او ریہ عمل کسی طرح بھی قرآن والا جہاد نہیں ہوسکتا ۔ خاص کر ’’جھد‘‘ کا لفظ 15مشتقات میں استعمال ہوا ہے جن سے رائج جہاد کا مفہوم بالکل مترشح نہیں ہوسکتا ۔ مثلاً
1۔ جاھد ۔ عنکبوت ۔5۔توبہ 19
2۔ جاھد اک ۔لقمان 16۔ عنکبوت 7
3۔ جاھدوا ۔بقرہ :217۔ انفال :76-75-73۔ توبہ :20-16۔ حجرات :15۔ عمران :141، نحل :11، عنکبوت :69
4۔ یجاھد : عنکبوت۔5
5۔ یجاھدون : مائدہ :59
6۔ یجاھدو ا: توبہ 44،82
7۔ تجاھدون ، صف 11
8۔ جہاد: فرقان :54، حج:77۔توبہ :24 ممتحنہ:1
9۔ جھد: مائدہ :58،انعام:109، نحل:40، نور:52،فاطر:40
10۔ جھد: توبہ 80
11۔ جاھد: توبہ :74، تحریم:9
12: جاھدھم : فرقان :54
13مجاھدون : نساء 97،محمد :23، حج :77
14۔ مجاھدون :نساء 97،
15۔ جاھدوا : مائدہ :39، توبہ :41،87
اجازت مگر: اللہ نے جنگ کے ہولناک نتائج سے پہلے آگاہ فرمادیا تھا کہ اس سے تباہی پھیلتی او ربربادی فروغ پاتی ہے لیکن کیا کیا جائے کہ دشمن اس وقت تک تمہاری تباہی کی سوچتا رہتا ہے جب تک تم سلامتی کے نظریئے پر قائم ہو فرمایا :
وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا۔( بقرہ ،217)
ان کی آویزش اس وقت تک تم سے جاری رہے گی جب تک تمہیں تمہارے پاکیزہ نظریہ ( دین) سے ہٹانے کی ان میں سکت ہے۔
اس آیت میں دین کا لفظ استعمال ہوا ہے إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ (عمران ۔19)کا استعارہ ہے یعنی دین سے مراد سلامتی ہے جس کے معنی حج، زکوٰۃ ، روزہ ، نماز او رجہاد نہیں یہ تو اللہ کے احکامات ہیں۔ اور سلامتی ہر انسان کی ضرورت ہے جو صرف قرآن کے ہاں دستیاب ہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ مخالفین کو سلامتی جیسی چیز بھی مسلمانوں کے توسط سے منظور نہیں ہے، لہٰذا وہ جب لڑتے ہیں تو سلامتی کو ملیا میٹ کرنے کے لئے لڑتے ہیں لیکن اس سے بالواسطہ چونکہ مسلمان ہی نشانہ بنتے ہیں اور اذیتیں جھیلتے ہیں لہٰدا فرمایا أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ( حج،39) مظلوموں کو اس وقت ہی جوابی قتال کی اجازت دی گئی جب ظلم کی انتہا ہوگئی ۔ یہاں بانھم میں بار سبیہ ہے یعنی مخالفین کے ظلم و زیادتی کے سبب ہی مسلمانوں کو دفاع کی اجازت دی گئی۔
اللہ اور رسول اللہ کا آور دہ دین بھی کتنا فطری او رسلامتی کا حامل ہے کہ جس میں دفاع کی اجازت بھی آخری مرحلے پر دی گئی جب محسوس ہوا کہ اب اللہ کا نام لینے والوں کا نام و نشان مٹا دینے کا ساماں ہورہا ہے۔
اس طرح ’’ جھد‘‘ کا لفظ نزول قرآن کے وقت کہیں بھی جارحیت کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوا۔ اس کے لئے حرب اور قتال کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جب کہ قتال بھی بسبب ( بانھم) ظلم و زیادتی کے جواب میں کیا گیا۔
ان وضاحتوں کے بعد آئیے رسول انسانیت کی بعض ’’ آویزشوں‘‘ کا جائزہ لیں جو سراسر دفاعی او رمزاحمتی تھیں مثلاً۔
جنگ بدر: دیگر جنگوں کی طرح جنگ بدر بھی دفاعی جنگ تھی مگر اہلحدیث اسے نہ صرف دفاعی نہیں مانتے بشدت کہتے ہیں کہ جارحانہ تھی وہ کہتے ہیں ابوا ایک گاؤں ہے ’’ جحفہ‘‘ سے مدینہ کی جانب 23میل ۔ ابوا ایک پہاڑ کا نام ہے ’’ ینبوع‘‘ کے قریب عشیرہ بھی ایک مقام ہے یا ایک قبیلہ ہے ان تینوں جہادوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جنگ سے پہلے تشریف لے گئے تھے اور ’’غرض‘‘ یہ تھی کہ قریش کا قافلہ لوٹیں مگر قافلہ نہ ملا۔ ( تیسیر القاری ترجمہ: اردو بخاری ازنواب و حید الزمان طبع احمدی ۔ لاہور 1323ھ ۔سولہواں پارہ، ص1۔ حاشیہ2)
غور فرمائیے رسول اللہ لیٹروں اور قزاقوں کے سردار بن کر بدر میں لوٹنے کے انتظار میں ہے جب کہ قرآن کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظلم کے ازالہ کے لئے ظلم کے سبب ہی میدان میں اترے ۔اس کے برعکس بابائے اردو عبدالحق مرحوم چراغ علی (1895م) مرحوم کی تحقیق الجہاد پر تبصرہ فرماتے ہیں کہ .......ابوالفتح بن ابوالحسن السامری الیہودی کی تاریخ ’’ آباء الیہود‘‘ بزبان عربی مطبوعہ گوتھ 1868،۔ص ۔180میں صاف صاف اعتراف کیا ہے کہ :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے مذہب کے متعلق کبھی کسی پر جبروا کراہ نہیں کیا اور نہ کبھی عہد شکنی کی ۔( تبصرہ ترجمہ: ، خواجہ غلام الحسنین ۔پانی پتی ۔ طبع 1912، ص 3، حاشیہ1)
دکھ تو یہ ہے کہ جہاں یہودی تو رسول انام کی صفائی بیان کرتاہے مگر ایک اہلحدیث بلکہ سید مودودی تک رسول اللہ کی شبخون مارنے کی کاروائی کی تصدیق فرما جاتے ہیں۔ بہر حال جنگ بدر دیگر جنگوں کی طرح سراپا دفاعی جنگ تھی مکہ والوں کا جم غفیر بدر کے مقام پر اس لئے جمع ہوا کہ شام سے واپس آنے والے قافلے یہیں آکر ان سے ملے تھے او رپھر مل کر مدینہ منورہ پر یلغار کرناتھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخبری ہوئی کہ مدینہ تاراج ہوا چاہتا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کر کے صورت احوال سے آگاہ کیا اور پھر عقیدے کے تحفظ کے لئے مدینہ کو لٹنے سے بچانے کیلئے او رمدینہ کی عصمت مآب بیبیوں کی عصمتوں کو محفوظ کر نے کے لئے بدر کی جانب چل پڑے کیونکہ اب اگر کسی طرح کی غفلت برتی جاتی تو کفار کا لشکر جرار سوئے مدینہ چل پڑتا کہ مسلمانوں نے بدر پہنچ کر کفار کے تیر اپنے سینوں پر برداشت کئے 313مسلمان شہیدہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسکری قیادت کے باعث فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی اور دفاع جارحیت پر غالب آگیا ۔
نئی جنگی پالیسی : مسلمان کا میاب ہوئے اور ان کی کامیابی غلاموں کے لئے نوید آزادی لے آئی اور دنیا ایک ایسی ہی جنگی پالیسی سے آشنا ہوئی جو پہلی بار قرآن اور صاحب قرآن کے حوالہ سے معلوم ہوئی۔ یعنی حکم ہوا ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (محمد۔4) کفار جتنے کچھ گرفتار ہوکر قابو میں آچکے ہیں اب نہ تو انہیں غلام بنایا جائے نہ ہی مخالف کی خواتین کو آغوش گرمانے کے لئے خاص کیا جائے اب یا تو انہیں منت اور احسان کر کے چھوڑ دیا جائے او ریہ دیکھا جائے کہ تمہارے 313چیدہ لوگ لقمہ شمشیر ہوچکے ہیں ۔ لہٰذا گرفتار شدگان کو پرانی رسم کے مطابق غلام بنا کر ہی تلافی ہوسکتی ہے۔ یا پھر اسیران جنگ کے تبادلے کے اصول پر عمل پیرا ہوجائے جو کچھ بھی ہو جنگی قیدیوں کی حیثیت عرفی پائمال نہ ہو فرمایا۔ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ۔( انفال 67)
نبی کو اختیار نہیں کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنا کر زمین میں دہشت کا راج قائم کرے۔
جنگ خندق: جنگ خندق یا جنگ احزاب ایک صبر آزما معر کہ تھا کہ دشمن نہایت ہوشیاری سے مدینہ کے دروازوں پر دستک دے چکا تھا او ریہ جنگ اپنی تمام تر وجوہات کے باوجود دفاعی تھی۔
جنگ احد:یہ بھی دشمن کے غنیم کی در مدینہ تک پہنچنے کی جنگ تھی جس میں خاندان نبوت کے افراد ( سید نا حمزہ) شہید ہوئے تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسکری قیادت نے کام دکھایا ۔ کفار توبھاگ کھڑے ہوئے لیکن مسلمان ان کے مترادک اثاثے جمع کرنے میں لگ گئے ۔ رسول پکار تا رہا مورچے مت چھوڑو مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور دشمن نے پہاڑی کے پیچھے سے پلٹ کر حملہ کردیا جس سے مسلمانوں کو ناگوار صورتحال پیش آئی۔ یہ یاد رہے کہ جنگ احد 625ء کے موقعہ پر مدینہ منورہ کے ایک مکان کو زنانہ کیمپ کی حیثیت دے کر حضرت حسان بن ثابت ( 674م) کو نگران بنایا گیا لیکن ہوا یہ کہ جونہی دوکفار سامنے سے نمودار ہوئے حضرت موصوف بھاگ کھڑے ہوئے ۔ آپ شاعر تھے اشعار کی جنگ لڑسکتے تھے تلوار کی نہیں ۔تاہم آنحضرت کی پھوپھی صفیہ (641) بنت عبدالمطلب نے ہمت کی اور آرام سے کنڈی کھول کر جاسوس کودبوچ لیا اور مار مار کر بھر کس نکال دیا۔
جنگ خیبر: یہود جو کہ تجارت اور زراعت پیشہ تھے اسلامی عملدار ی میں رہناپسند نہ کرتے تھے نہ اچھے شہری بن کر رہتے نہ خزانہ کا حق ادا کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے حق حکمرانی کو چیلنج کئے ہوئے تھے ۔ ان کی گوشمالی کے لئے مسلمان یہاں پہنچے تو یہود یوں نے عقلمندی سے کام لیا اور بغیر جنگ کے شہر سپرد کردیا۔مسلمانوں نے کوئی انتقامی کاروائی نہیں کیا البتہ زمینیں نئی شرائط پر سابقہ کاشتکار وں کو دے دیں۔
دو نئی پالیسیاں: جنگ احد میں جس طرح دو نئی پالیسیاں عطا ہوئیں اسی طرح یہاں بھی قدیم رواج کے برعکس دوپالیسیاں عطا ہوئیں اور دونوں کا مسلمانوں سے تعلق ہے ۔ایک تو یہ اس چڑھائی میں نہ فوج استعمال ہوئی نہ تلواریں چمکیں۔ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ۔ (حشر۔6) یعنی فوج استعمال ہوئی نہ گھوڑے دوڑائے گئے ۔ یعنی میدان حرب گرم ہونے سے پہلے ہی دشمن میدان چھوڑ گئے لہٰذا مسلم لشکر یوں کا حصہ حذف ہوگیا ۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تقسیم کا مالک ہے وہ اپنی صو ابدیدہ کے مطابق قرابت داروں ، ناداروں ، یتیموں اور پردیشیوں میں اموال متروکہ تقسیم کرے گا البتہ لوگوں میں جو مہاجر ہوں گے ان کا نادار ہونا ضروری ہے تب ہی وہ حصہ پائیں گے۔
مہاجروں کے نادار ہونے کے شرط میں جو راز پوشیدہ تھا اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سمجھ گئے وہ اہل قرآن بھی تھے او راہل زبان بھی ۔ انہوں نے للفقراء کے لفظ میں جو سبب مضمر تھا اسے ملحوظ رکھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتجی ہوئے کہا یا رسول اللہ ہم پر للفقراء کی تعریف صادق نہیں آتی کیونکہ ہم جب مکہ سے نکلے تھے تو اپنی پونجی ساتھ لے آئے تھے ۔ حضرت عثمان کی سوچ بلاشبہ سمندروں کی گہرائی سے زیادہ گہری اور پربتوں کی اونچائی سے زیادہ بلند تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سوچ کی تہہ تک پہنچ گئے اور ان کا حصہ ختم کردیا اسی دوسرے اہل قرآن مہاجر حضرت جبیربن مطعم نے بھی للفقراء کے حوالہ سے اپنا حصہ حذف کرایا ۔ اب یہاں سے پالیسی کا اگلا او راہم حصہ شروع ہوجاتا ہے۔
اموال متروکہ میں لوکل کاحصہ: زمانہ قدیم میں چونکہ تنخواہ دار عسکریوں کا رواج نہیں تھا لہٰذا اموال متروکہ میں سے حصہ اسدی ہوجاتی تھی ۔ ان دنوں مہاجر، مقامی کی تفریق بھی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن معرکہ کی خیبر میں جنگ نہیں ہوئی ، اموال پڑے ملے ، مسلمانوں نے قبضہ کرلیا او رپہلی بار مہاجر او رمقامی میں امتیاز برتا گیا ۔ یعنی فرمایا : وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ (حشر۔9)او رجو پہلے سے مدینہ کے باسی ہیں اور مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بھی جگہ پا چکا ہے ۔ ان کے لئے للفقراء کی شرط نہیں ہے ان کا ’’ لوکل ‘‘ ہونا ہی کافی ہے کیونکہ ان کے دہری قربانی ہے میدان جنگ میں نذانہ جان پیش کرنا او رنئی سٹیٹ کے قیام کے لئے جغرافیائی کمک پہنچا کر اپنا اعزاز بر قرار رکھا لہٰذا انہیں پورا حصہ ملے گا ۔ اس طرح قرآن نے لوکل کے حصے کے بارے میں غیر متبدل پالیسی دے کر دائمی فیصلہ سنا دیا ہے ۔ اسے منسوخ کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوسکتا لیکن پاکستان کے لیاقت علی نے متروکہ جائیداد کو صرف مہاجروں کے لئے خاص کر کے جغرافیائی کمک پہنچا نے والوں کو بالکل ہی محروم کردیا اور یہ فیصلہ کرتے وقت یوپی کے قد آور علماء حضرات مثلاً سید سلیمان ندوی، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا عبدالحامد بدایونی ، مولانا شبیر احمد عثمانی او رمولانا محمد شفیع ، ظفر احمد عثمانی وغیرہ موجود تھے۔ اور کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ لیاقت کا ہاتھ پکڑ کر پونچے سے کاٹ ڈالتا جب کہ قرآن اپنے فیصلوں میں دست اندازی کی سزا پونچے سے کاٹ ڈالنا ہی قرار دیتا ہے۔ ( الحاقہ ۔46)
ہجرت کے مقامات:ہندو پاک معاہدے میں مہاجر اسے تسلیم کیا گیا ہے جو وقت مقرر ہ تک طے شدہ یعنی فساد ی علاقوں سے نکل جائے ۔ مسلمان کے لئے مشرقی پنجاب او رہندو کے لئے مغربی پنجاب طے شدہ علاقے قرار دیئے گئے ۔ اس طرح یوپی، سی پی، ابرار، راجپوتانہ، بمبئی اورحیدر آباد و جنوبی ہند میں نہ فساد ہوا نہ وہاں سے آنے والے سیاسی تعریف کے مطابق مہاجر کہلاسکتے ہیں ۔ خاص کر جس طرح فساد زدہ علاقوں کا جس طرح تعین ہوا تھا اسی طرح نکلنے کے لئے وقت مقرر کیا گیا تھا فرمایا :وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم ۔ ( انفال۔72)جنہوں نے وقت پر ہجرت نہیں کی بعد میں خاص اشاروں پر چل پڑے ۔ اور یہاں آکر مال و متاع میں حصہ دار بن گئے ان کا کوئی بھی حصہ نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل اور بہت سے قرآنی مفکرین ’’ والایتھم ‘‘ کے معنی المغانم یعنی متروکہ سوال کرتے اور بے وقت آنے والوں کو حصہ نہیں دیتے ۔ اس طرح یوپی اور سنٹرل انڈیا سے آنے والوں کو حصہ نہیں مل سکتا پھر ہجرت کا پیریڈ 47-48کے درمیان ختم ہوجاتا ہے ۔ پھر نہ کوئی مہاجر رہتا ہے نہ شرنار تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ ہم تعصب کی راہ دکھلاتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں حقوق العباد کا معاملہ ہے میاں افتخارالدین ایک جری انسان تھے جس نے لیاقت سے آنکھ ملا کر بات کی کہ جناب والا ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں ہم نے اسکول و کالج ، فیکٹریاں، سڑکیں ، ہسپتال اور اسلحہ خانے بنانے ہیں یہ کھربوں کی متروکہ جائداد صرف مہاجروں کو دان کرنے کا جواز نہیں ہے او رمہاجر بھی وہ جو سیاسی سطح پر تسلیم ہی نہیں ہوئے ۔ اس پر نواب زادہ صاحب طیش میں آئے اور میاں افتخار کو تعصب پھیلانے کے الزام میں کابینہ سے فوراً علیحدہ کردیا بلکہ اسی جرم میں سہروروی اور ایوب کھوڑو اور جی ایم سید کو نیز زیر عتاب لایا گیا ۔...........یہ کہنا کہ اب یہاں نہ کوئی مہاجر ہے نہ لوکل ایک ’’ جذباتی‘‘ سلوگن ہے۔ قرآن پاک نے دونوں کا ذکر کیا ہے لیکن مہاجر اسے کہا ہے جو الذین اخرجوا کے مطابق شرو فساد کا نشانہ بنا ہو اور لوکل وہ ہے جو تبعوالدار کے مطابق سٹیٹ بنانے والا ہو۔
نظر باز گشت: جیسا کہ عرض کیا ہے کہ جہاد کسی بھیانک جنگ و جدل کا نام نہیں اس کے جو معانی سابقہ عنوانات میں جہاد کے 15مستقات کے تناظر میں کئے ہیں وہی برحق اور مزاج قرآنی کے ہم آہنگ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (692م) سفیان ثوری (778م) ابن شبرمہ (710م) عطا ء بن رباح (723م) اور عمر بن ابی رباح ، بھی فرماتے تھے کہ جہاد مزاحمتی تدبیر کا نام ہے جارحیت اس کے مفہوم میں شامل نہیں ہے۔
جہاد کرنے کا مجاز کون ہے؟ : جہاد مذہبی لڑائی لڑنے کے مفہوم میں بعد کی اصطلاح ہے جو نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھی نہ صحابہ و خلفائے راشدین کو ۔ تاہم مانا کہ جنون زدگان کا مفہوم بھی برائے بحث ٹھیک ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ انفرادی عمل کا نام ہے یا حکومتی سطح کا؟
قرآن محکم کی عمومی پالیسی یہ ہے کہ وہ تعزیراتی مفاہیم کے لئے صیغے تو جمع کے استعمال فرماتا ہے مثلاً فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا (نور 2) فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا ( مائدہ۔38)لیکن اس جمع سے مراد ’’ حکومت‘‘ ہے یعنی سزا دینا حکومت کا کام ہے ہر فرد مجاز نہیں کہ اٹھے اور زانی کو سزا سے دو چار کردے یا چور کو مرضی کی سزا دے ڈالے۔ اسی طرح جہاد جارحیت کا ہو خواہ دفاعی اس میں تلوار بھی چمکے گی اور نفسیاتی جانبداری بھی بیدار ہوگی ۔ لہٰذا ایسے ذمہ دار نہ عمل کو افراد کے ہاتھوں مکمل نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رعہد صحابہ میں جہاد کو سرکاری سطح کاعمل قرار دیا جاتا رہا آج بھی ضروری ہے کہ اس کی تکمیل یا آغاز سرکاری سطح پر ہو۔
رسول اللہ کی بعثت روایات کے تناظر میں : بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جعل رزقی تحت رمحی ۔ اللہ نے میرا رزق نیز ے اور تلوار کی انی میں رکھا ہے ۔وغیرہ یہ ایک گونہ لوٹ مار کا استعارہ ہے کہ دوسری حدیث میں فرمایا .......اموت ان اقاتل الناس حتی یقولو الا الہ الااللہ مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ کلمہ نہیں پڑھتے ۔ ( بخاری کتاب الایمان ۔ مطبوعہ لکھنؤ 1301ھ نیز عینی شرح البخاری ۔ طبع مصر۔ جلد 790/2)
مفہوم واضح ہے کہ رسول اللہ کا مشن بہ جبر ایمان کی طرف بلانا او راس وقت تک تلوار کو میان میں نہیں ڈالنا تھا جب تک کلمہ پڑھ کر ایمان کا اعلان نہیں کیا جاتا تھا حالانکہ یہ حدیث سراسر جھوٹی او رتعلیمات قرآن کے خلاف ہے۔ ارشاد ہے : أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ۔ ( یونس : 99)تم لوگوں سے جبراً کلمہ پڑھانے او رمومن بن جانے کے غیر فطری عمل کا مظاہرہ کرتے ہو؟ حالانکہ جبر سے نہ کوئی ایمان ایمان ہے او رنہ ہی اللہ کے قانون ادارہ و اختیار کو ختم کر کے کسی کے روزن قلب میں ایمان کی کرنیں پہنچا سکے۔
بات کیا ہوئی کہ تلوار کے زور سے کسی کو مومن بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ تبلیغ ہی وہ کار گر تدبیر ہے جس سے ایمان کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔
بشکریہ : صوت الحق ، پشاور، مارچ،2002
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/jihad-aggression-defence-/d/118306
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism