New Age Islam
Sun Feb 09 2025, 10:19 AM

Urdu Section ( 29 Oct 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Allama Iqbal Targeted By Sectarians علامہ اقبال’ فرقہ پرستوں کے نشانہ پر


ایم عارف حسین

بھارتیہ جنتا پارٹی میں محمد علی جناح پر طویل بحث اور اس بحث کے نتیجے میں  ایک اہم رہنما جسونت سنگھ کے اخراج کولیکر زبردست بھونچال کے بعد اب مدھیہ پردیش کے ایک ممبر اسمبلی نے شاعر مشرق علامہ اقبال کو نشانہ بناتے ہوئے مدھیہ پردیش حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقبال سمان کو منسوخ کردے ۔ قابل ذکر ہے کہ اقبال سمان مدھیہ پردیش حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے اور اس وقت مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی ہی حکومت ہے ۔گرجا شنکر شرما نامی اس ممبر اسمبلی الزام عائد کیا ہے کہ دوقومی نظریہ کا تصور سب سے پہلے اقبال نے پیش کیا تھا۔ صوبہ کے ہوشنک آباد اسمبلی حلقہ سے منتخب رکن اسمبلی نے حکومت سےمطالبہ کیا کہ ہر سال دیا جانے والا اقبا سمان ایوارڈ منسو خ کریا جائے۔ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ پیش کیا تھا اور وہی جناح کے ذہن میں تقسیم کا بیج بونے کے لئے ذمہ دار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اقبال جناح کے درحانی رہنما تھے اور انہوں نے پاکستان کی تشکیل میں جناح سے زیادہ کردار ادا کیا تھا۔ گریجا شنکر شرمانے صوبہ کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان  اور بی جے پی کی قومی قیادت کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے صوبہ کے اقبال سمان ایوارڈ کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کاے کہ یہ ایوارڈ اقبال کے بجائے کسی اور اردو اسکالر کے نام سے دیا جائے۔

واضح رہے کہ صو بے کے محکمہ ثقافت کی جانب سے علامہ اقبال کی یاد میں ہر سال ایک اردو ادیب یاشاعر کو اقبال سمان ایوارڈ عطا کیا جاتا ہے ملک کے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر اقبال کے قومی گیت ‘‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا’’ کی گونج ہر طرف سنائی دیتی ہے ۔حال ہی میں جناح کی ستائش کرنے پر بی جے پی نے سینئر قائد جسونت سنگھ کو پارٹی سے خارج کردیا تھا ۔ اسی دوران مدھیہ پردیش کانگریس پارٹی کے ترجمان کے مشرا نے بی جے پی رہنما کے بیان کو تنگ نظری قرار دیا اور پارٹی سے ان کے اخراج کا مطالبہ کیا۔ جماعت انور صفی اور کل ہند مسلم تہوار کمیٹی کے صدر شاہ میر خرم نے بھی بی جے پی رہنما کے بیان کی مذمت کی اور کہا کہ علامہ اقبال اردوکے عظیم شاعر تھے اور مہاتما گاندھی کی یاد میں ایوارڈ کا قیام صوبے کے لیے فخر کا باعث ہے۔

جسونت سنگھ نے کتاب میں رقم کیا ہے کہ جناح نے 1945تک حتی الامکان کوشش کی کہ ہندوستان کےمسئلے کو حل کرنے کی مشترکہ طور پر کوشش کی جائے ،لیکن ان  کی نہرو جیسے لیڈروں کے سامنے نہ چلی کیونکہ نہرو اس وقت تقسیم ہند کا اسکرپٹ لکھ چکےتھے ۔انہوں نے اپنی کتاب میں اہم انکشاف کئے ہیں کہ گاندھی ،راج گوپال اچاریہ کانگریس کی اکثریت پسندی سمجھتے تھے ،لیکن ہندو ذاتی نہ سمجھ سکی۔ اگرکوئی نتیجہ اخذ کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ کانگریس اگر ہندوستان کا مرکزی وفاق قبول کرلیتی تو ہم واضح طور پر متحدہ ہندوستان حاصل کرلیتے ۔

مزید برآں جسونت سنگھ کے بعد ہندوستان میں سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم کےسابق سربراہ کے سودرشن نے بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی تعریف کی ہے۔ سودرشن نے پریس کانفرنس میں کہاکہ جناح وطن پرست تھے ۔اگر مہاتما گاندھی نے تقسیم نہ ہونے پر زیادہ زور دیا ہوتا تو ہندوستان تقسیم نہ ہوتا ۔تاہم جب ان سے جسونت سنگھ کے بارے میں پوچھا گیاتو انہوں نے کہا کہ یہ بی جے پی کا اندرونی معاملہ ہے ۔سابق وزیر قانون اور ممتا زسیاست داں رام جیٹھ ملانی نے بھی کہا ہے کہ جسونت سنگھ نے جو بھی لکھا ہے وہ قابل تردید حقیقت ہے ،اگر کیبینٹ مشن پلان 1946آنے کے بعد نہرو ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرتے اور سردار پٹیل ان کا ساتھ نہ دیتے تو برصغیر کا نقشہ آج کچھ اور ہوتا۔

علاوہ ازیں برطانیہ کے معروف ترین اخبار ڈیلی ‘‘ٹیلی گراف’’ نے اپنی خصوصی رپورٹ میں یہ کہا کہ ‘‘پاکستان کا اصلی بانی محمد علی جناح ہر گز صرف اور صرف جواہر لعل نہرو تھے جو سیکولر جناح کے مقابلے میں ایک کٹر اور متعصب ہندو تھے ۔چنانچہ ‘‘ٹیلی گراف’’ کی اس رپورٹ میں بھارتی سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے نظریات جو انہوں نے جناح، سردار پٹیل اور نہرو کے بارے میں دیئے ان کی مکمل تصدیق کی گئی ہے ۔رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ قائد اعظم حقیقی معنوں میں ہندو مسلم اتحاد کے داعی اور امن کے سفیر تھے، تقسیم ہند کے بعد بھی جناح پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دوستی کے خواہاں تھے لیکن جان بوجھ کر کشمیر کو مسئلہ بنا کر پاک بھارت تعلقات کشیدہ کئے گئے۔

اب اگر گرجا شنکر شرما کے الزام کا اگرسرسری جائزہ لیا جائے تو اس میں سیدھا نتیجہ یہ نکل کر سامنے آتا ہے کہ انہیں علامہ اقبال پر محض اس لئے اعتراض ہے کہ وہ مسلمان تھے ۔یہ ٹھیک ہے کہ وہ قومی نظریہ کا تصور اقبال نے پیش کیا تھا لیکن اقبال وہ مفکر ہیں جنہوں نے قومی اتحاد کیلئے ‘‘ نیا شوالہ ’’ جیسی نظم لکھی اور برہمن اور واعظ دونوں کو نشانہ بنایا۔ قومی ترانہ ‘‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا’’ کا ایک مصرعہ قومی اتحاد کی علامت ہے ۔ پھر ایسے دانشور کی نکتہ چینی کیا تمام مفکرین کی بے ادبی نہیں ہے۔ گرجا شنکر شرما کے بیان کی نکتہ چینی نہ صرف ریاستی بلکہ قومی سطح پر ہورہی ہے، ہونی بھی چاہئے ۔ممکن ہوگرجا شنکر شرما نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا ہو۔ کم از  کم اس بہانے ان کا نام تو میڈیا میں آیا اور لوگ انہیں جان تو گئے۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/allama-iqbal-targeted-sectarians-/d/2011


 

Loading..

Loading..