علامہ اسلم جیراجپوری
حدیثیں یعنی وہ اقوال و اعمال وغیرہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں اور بسلسلہ روایت کتابوں میں مدوّن کیے گئے ہیں، ان کے متعلق ابتداء ہی میں بحث شروع ہوئی کہ ان کی حیثیت دینی نہیں ہے بلکہ تاریخی ہے، جس کی بناء اس پر تھی کہ ان کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غیر یقینی ہے۔ کیونکہ خبروں کی کیفیت یہ ہے کہ وہ صبح سے شام تک میں تبدیل ہو کر کچھ سے کچھ ہوجایا کرتی ہیں اور جتنے بڑے آدمی کی باتیں بیان کی جاتی ہیں، اتنا ہی ان میں تبدّل و تغیر کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں سب سے بڑے آدمی تھے ۔ چنانچہ پہلے ہی صدی ہجری سے اُمت میں ایسے طبقات پیدا ہوگئے ، جو اپنے اغراض کے لئے حدیثیں بنابنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے لگے ۔ وضاعین و کذّابین کے تراجم اور موضوع روایات جن کے بیسیوں مجموعے موجود ہیں ، اس پر شاہد ہیں اور آپ حدیث کی جس قدر کتابیں اُمّت کے ہاتھوں میں ہیں ان میں سے کوئی عہدِ رسالت یا زمانہ صحابہ کی لکھی ہوئی نہیں ہے، بلکہ ایک موطاً امام مالک کے سوا جو دوسری صدی ہجری کی تالیف ہے، بقیہ جملہ کتب حدیث جن میں صحاح ستہ بھی شامل ہیں، تیسری صدی ہجری اور اس کے بعد کی مرتّب کی ہوئی ہیں۔
محدّثین نے روایات کو دینی تسلیم کرلیا اور ان کے اثر سے تمام اُمّت میں ان کی دینی حیثیت مسلّم ہوگئی، مگر محققین کی ایک جماعت ہمیشہ سے قرآن ہی کو مکمّل دین مانتی اور حدیثوں کو تاریخ دینی سمجھتی رہی ہے، اس لیے میں نے چاہا کہ تاریخ حدیث کے ان ابواب کو روشنی میں لاؤں ، جن سے اس کی حقیقت واضح ہوتی ہے تاکہ ا س کا صحیح رتبہ معلوم ہوسکے ۔
روایت حدیث ۔ روایت کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں ہوچکا تھا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جن اوقات میں صحبت مبارک میں موجود نہیں رہتے تھے ، ان اوقات کے احوال و اقوال نبوی کو دوسرے صحابہ جو حاضر رہتے تھے ، پوچھتے اور سنتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں او رمیرے ایک انصاری پڑوسی ( ان کی سکونت مسجد نبوی سے فاصلہ پر محلّہ بنی امیّہ بن زید میں تھی) باری باری سے ایک ایک دن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے ، پھر ایک دوسرے کو اپنے اپنے دن کے وہ حالات جو وہاں گزرتے تھے، سنا دیتے تھے ۔ ( صحیح بخاری) لیکن یہ حضرات کرام سنتے اسی سے تھے ، جن پر اُن کواعتماد ہوتا تھا ، کیونکہ اس عہد میں منافقین بھی تھے، جو طرح طرح کی غلط باتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےمتعلق بیان کرتے تھے اور وہ مسلمانوں میں ایسے ملے جلےرہتے تھے کہ انکا امتیاز کرنا مشکل تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:
وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُم (9:101)
( مدینہ والوں میں سے کچھ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، تم ان کو جانتے نہیں ہو ہم ان کو جانتے ہیں)
علاوہ بریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید تھی کہ مجھ سے زیادہ حدیثیں روایت کرنے سے بچو۔ ( ابن ماجہ ، صفحہ 5) اس لیے عہد رسالت میں روایتیں بہت تھوڑی تھیں اور وہ بھی اخباری حیثیت رکھتی تھیں ۔ دین کی بناء قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوۂ حسنہ پر تھی، جیسا آپ کو کرتے دیکھتے یا حکم پاتے ، اس کے مطابق عمل کرتے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہ چونکہ اپنی محبوب ترین شخصیت سے محروم ہوگئے تھے ، اس لیے فرصت کے اوقات میں دو چار جب مل کر بیٹھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے تذکرے درمیان لاکر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ کرتے مگر ان بیانات میں اختلاف ہونے لگے، اس وجہ سے خلیفہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روایت کی بہ یک قلم ممانعت کردی اور لوگوں کو جمع کرکے فرمایا :
تم جب آج اختلاف کرتے ہو تو آئندہ نسلیں اور بھی اختلافات کریں گی ، لہٰذا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت نہ کرو ۔ اگر کوئی پوچھے تو کہہ دو کہ ہمارے او رتمہارے درمیان قرآن ہے جو اس نے جائز کیا ہے اس کو جائز اور جو اس نے ناجائز کیا ہے اس کو ناجائز سمجھو ۔ (تذکرۃ الحفاظ ، ذھبی)
مگر باوجود اس ممانعت کے بھی روایت کا سلسلہ جاری رہا ،کیونکہ اس کو جرم قرار نہیں دیا تھا ۔ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے زمانہ میں روایت کو روکتے رہے ۔ قرظہ بن کعب کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت کے ساتھ عراق کو روانہ ہوئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ صرار تک ہم کو رخصت کرنے کے لیے ساتھ آئے وہاں پہنچ کر فرمایا : ‘‘ تم جانتے ہو کہ میں کیوں یہاں آیا ہوں؟ ہم نے کہا کہ ہماری مشایعت اور تکریم کی غرض سے ، فرمایا کہ ہاں! اور اس لیے بھی کہ تم سےکہوں کہ تم وہاں جارہے ہو، جہاں لوگوں کی تلاوتِ قرآن کی آواز شہد کی مکّھیوں کی آواز کی طرح گونجتی رہتی ہے،لہٰذا ان کو حدیثوں میں پھنسا کر قرآن سے نہ روکنا اور روایتیں نہ سنانا ۔’’ قرظہ کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد سے پھر کبھی میں نے حدیث نہیں بیان کی ۔ ( مختصر جامع بیان القلم ، صفحہ 175)
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ روایت کے معاملہ میں اس قدر سخت تھے کہ ابی بن کعب کو جب حدیثیں سناتے دیکھا تو ذّرہ لے کر ان کو مارنے کے لیے تیار ہوگئے ۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، جلد 1، صفحہ 7)
ایک بار ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو کثرت روایت میں مشہور ہیں، پوچھا کہ کیا تم اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی حدیثیں بیان کرتے تھے؟ انہوں نے کہا اگر ان کے زمانہ میں بیان کرتا تو مجھے پیٹ ڈالتے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس امر میں صحابہ کبار کابھی لحاظ نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود ، ابوالد ردا اور ابوذر ، رضِی اللہ عنھم کو ڈانٹا کہ تم یہ کیا روایتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے رہتےہو؟ پھر ان کو مدینہ میں نظر بندر کھا اور جب تک زندہ رہے کہیں جانے کی اجازت نہیں دی ۔
خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو روایت کی طرف کوئی توجہ نہیں تھی اور وہ اس کو مسترد کردیا کرتے تھے ۔ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد اپنے والد سے ایک پرچہ لے کر جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم زکوٰۃ کے متعلق لکھا ہوا تھا ، ان کے پاس گئے آپ نے فرمایا کہ مجھے اس سے معاف رکھو۔
خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کثرت روایت سے منع فرماتے ۔ خود اُن کے سامنے جب کوئی حدیث بیان کرتا تو اس سے حلف لیتے ۔ اکثر تاکید کیا کرتے کہ جن حدیثوں کو لوگ نہیں جانتے ان کو نہ بیان کرو ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ لوگ اللہ و رسول کی تکذیب کرنے لگیں؟۔
خلفاء راشدین ہی کی طرح بالعموم صحابہ کرام بھی روایت کے معاملہ میں سخت محتاط تھے بلکہ بعض حضرات اس سے بالکلیہ اجتناب کرتے تھے ۔ ( توجیہ النظر الیٰ اصول الائر اللشیخ طاہر بن صالح الجزائری ، صفحہ 11 تا 18)
ستمبر ، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ،کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/science-hadith-/d/99126