ایلینہ زمن
16 مارچ، 2015
عورت: اس ایک لفظ کے بے شمار معانی اور مضمرات ہیں۔ خواتین کو ہمیشہ یہ بتایا جاتا ہے کہ انہیں مساوی حقوق حاصل ہیں جبکہ حقیقت میں وہ اب بھی مسلسل اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اور اب تک وہ بہت سے شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
ہم تصور حقوق کو ایسی بہت ساری چیزوں سے مخلوط کر دیتے ہیں جن کا حقوق سے کوئی واسط نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر، 'خواتین کو بااختیار بنانے' کو 'خواتین کو مغربیت زدہ' بنانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے جسے معاشرے میں 'اقدار و روایات کو فراموش' کرنا مانا جاتا ہے۔
کبھی کبھی عورتوں کے وجود کو ایسے معاشرے میں قابل اعتراض سمجھا جاتا ہے جہاں مردوں کا غلبہ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے اس جدید دور میں بھی جبکہ بے شمار غیر سرکاری تنظیمیں اور انسانی حقوق کے قوانین موجود ہیں، دنیا کے کچھ حصوں میں خواتین کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے جیسا کہ اسلام سے پہلے عرب میں کیا جاتا تھا؟
کیا خواتین کا احترام نہیں کیا جانا چاہیے، کیا انہیں تعلیم نہیں دی جانی چاہیے یا ان سے ملازمت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے؟ کیا عورتوں کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیاجانا چاہئے؟
ہم خواتین کو بااختیار بنانے سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ اس کا جواب ہماری ذہنیت اور نقطہ نظر میں پنہاں ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا سماج مجموعی طور پر خواتین کو مرضی کی آزاد دینے کی کوشش کرے۔ اگر ضرورت ہو تو انہیں باہر جا کر کمانے کی اجازت ہو، وہ جیسے کپڑے چاہیں انہیں پہننے کی اجازت ہو اور عام طور پر انہیں اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کی اجازت ہو۔
ہمیں کپڑے کی بنیاد پر کسی عورت کے کردار کا فیصلہ کرنے کی عادت چھوڑنے کی ضرورت ہے۔ جینس پہننا برے اخلاق کا ثبوت نہیں ہے اور حجاب یا برقعہ تقوی و طہارت کی علامت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں، 'جدید طرز کے کپڑے میں ملبوس' عورت کاامور خانہ داری اور 'روایتی' ذمہ داریوں سے ناوقف ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔
خواتین کے حقوق سے متعلق تمام مباحث میں جو پہلو نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح خواتین نادانستہ طور پر زن بیزاری کو فروغ دیتی ہیں اور دوسرے خواتین کے لیے زندگیاں دشوار بنا دیتی ہیں۔ اگر ہم واقعی اس کے بارے میں سوچیں تو صحیح معنوں میں خواتین کے احترام کا تصور عورتوں کی ہی جانب سے پیدا ہونا چاہئے۔
جس ماں پر اس کے بچوں کی پرورش کی ذمہ دار ہے اسے اپنے بیٹے کو یہ سکھانا چاہئے کہ وہ اپنی بہن سے برتر نہیں ہے۔ اور جب کبھی ممکن ہو اپنے بیٹے کو مطبخ میں مدد کرنے کی تربیت دینی چاہئے۔ اور جب اس کا بیٹا پہلی بار اپنی بہن یا خاندان کی کسی بھی دوسری خواتین پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے اس کی ماں کو ہی اس سے روکنا چاہیے۔
صنفی مساوات سے کوئی سمجھوتا کئے بغیر ماؤں کو اپنے بچوں کے ذہنوں میں خواتین کے احترام کا بیج بونا چاہئے۔
اور ساتھ ہی ساتھ اگر خواتین کو کسی بھی صورت میں کسی بھی طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہو تو معاشرہ ان کے حق میں اپنی آواز بلند کر کے اس میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ خواتین کی مصیبتوں اور پریشانیوں کے لیے خود انہیں ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے ان ہم ان کی حمایت کریں اور ان کی مدد کریں۔
اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے اندر سے خواتین کے حوالے سے ان دقیانوسی تصورات کو ختم کر دیں جو انہیں سکھائے یا بتا ئے گئے ہیں اور ان کی شجاعت اور ان کے کردار کے لئے ان کی تعریف کرنے کی کوشش کریں جو وہ ایک ایسے معاشرے میں ادا کرتی ہیں جو ہر ممکن طریقے سے خواتین کا گلا گھوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ان کا یہ کردار ایک کمپنی کی صدارت سے لیکر امور خانہ داری تک کہیں بھی ہو سکتا ہے۔
ایلینہ زمن ایف سی سی میں ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں۔ وہ نوجوانوں سے متعلق اور سماجی مسائل میں وہ گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔
ماخذ:
http://nation.com.pk/blogs/16-Mar-2015/why-are-we-so-afraid-of-empowering-women
URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/so-afraid-empowering-women/d/102016
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/so-afraid-empowering-women-/d/102038