New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 02:14 PM

Urdu Section ( 14 Dec 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Reforming Muslim Personal Law مسلم پرسنل لاء میں اصلاحات

 

علی ریحان، نیو ایج اسلام

سپریم کورٹ کا یہ حالیہ تبصرہ کہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ کیا یونی فارم سول کوڈ کو اپنایا جانا چاہئے یا نہیں ایک قانونی طریقہ کار ہونا چاہیے۔ عدالت نے کا کہنا ہے کہ وہ ان معاملات میں خفت اور ہلکا پن نہیں پیدا کرنا چاہتی ہے جو ملک کے قانون سازوں کے لیے مناسب انداز میں ضروری ہونی چاہیے۔ اس بات کو واضح کر دیا جانا چاہیے کہ پرسنل لاء مختلف ہیں اور وہ صرف ملک میں مذہبی گروہوں کے لئے ہی نہیں بلکہ وہ ان مختلف علاقوں کے لئے بھی ہے جن میں عملی طور پر مختلف قسم کے روایتی قوانین رائج ہیں۔ اس طرح ملک کے شمال مشرق علاقوں میں وسیع ثقافتی اختلافات موجود ہیں۔

لیکن مسلم پرسنل لاء میں اصلاحات کے لیے مطالبات کر کے اکثر یونی فارم سول کوڈ پر بحث کی جاتی ہے۔ ہندو حق کی جانب سے اس بات پر پر آشوب مہم کے باوجود کہ مسلم پرسنل لاء پسماندگی اور فرسودگی کا شکار ہے اور اسے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ، سپریم کورٹ کے مشاہدے کی روشنی میں اس پر گفتگو کرنا معقول معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس ملک میں صرف مسلم خواتین کو امتیازی قوانین کا سامنا ہے، بلکہ ضرورت اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی ہے کہ مسلم خواتین کو خود ان کے معاشرے کے اندر امتیازی قوانین اور معمولات کی وجہ سے ظلم و تشدد کا سامنا ہے۔ اور یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ مسلم خواتین کی تنظیمیں 1920 کے بعد سے ہی پرسنل لاء کی اصلاح کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔ خواہ وہ طلاق مغلظہ کا معاملہ ہو یا نکاح نامہ کا مسئلہ ہو، مسلم خواتین نے ہمیشہ مسلم معاشروں کے اندر شادی اور طلاق کے قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ لہٰذا، 1920 کی دہائی میں، آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس ان خاتون تنظیموں میں سے ایک تھی جس نے تعدد ازدواج اور طلاق مغلظہ کو ختم کرنے کا مطالبہ سب سے پہلے کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی دلیل یہ تھی کہ معمولات فطری اعتبار سے روایتی ہیں اور اسلامی قانون میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے جو کہ متنازعہ فیہ ہے۔ لیکن یہاں اہم نقطہ جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مسلم خواتین نے اکثر اس مسئلے کو اٹھایا ہے لیکن مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کے سلسلے میں شاید ہی اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا ہو۔

جب مسلم پرسنل لاء کی اصلاح کی بات آتی ہے تو اس سلسلے میں دو اہم روکاوٹیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ سب سے پہلی روکاوٹ تو وہ مسلم علماء ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی اس لیے کہ یہ شریعت پر مبنی ہے، اور شریعت اسلامیہ الٰہی اور مقدس ہے۔ ان کے زعم میں مسلم پرسنل لاء میں کوئی خلل اندازی کرنا الہی قانون میں خلل اندازی کرنے کے مترادف ہے جسے کامل و اکمل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، وہ اس بات کی کوئی توضیح پیش نہیں کرتے کہ اگر معاملہ ایسا ہے تو پاکستان، انڈونیشیا جیسے مسلم اکثریت والے ممالک اور مشرق وسطی کے اکثر ممالک کے اندر اسلامی قوانین میں اصلاح کیوں کی گئی۔ لہٰذا، مسئلہ شریعت کی الہی حیثیت اور تقدیس میں نہیں ہے، بلکہ مسئلہ مسلم علماء کے رویہ میں ہے جنہوں نے شریعت اور فقہ کو الہی قوانین کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے۔ اپنی انتہاء پسندی کی بنیاد پر انہوں نے مسلم پرسنل لاء کے اندر بھی ابتدائی اور بنیادی تبدیلیوں کی بھی مخالفت کی ہے۔ لہٰذا، ہمارے سامنے ایک ایسی انتہائی سخت صورت حال ہےجس کے تحت سیکولر ہندوستان میں مسلمان فرسودہ قوانین پر عمل کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ ساتھ ہی ساتھ بعض اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو صنفی انصاف کے لحاظ سے کہیں زیادہ ترقی پسند قوانین حاصل ہیں۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ مسلم پرسنل لاء کی الہی حیثیت اور اس کی تقدیس کے لیے مسلم علماء کے اس قول میں مسلمان مرد اور عورتوں کی ایک اکثریت بھی شامل ہے، لہٰذا، وہ کمیونٹی کے اندر اس مسئلے پر کسی بھی بحث میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔

اور دوسری رکاوٹ خود ریاست ہے۔ ریاست ہمیشہ مسلم کمیونٹی کے قدامت پسند طبقے کے دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور قوانین میں تبدیلیاں پیدا کرنے کے مطالبات کو یکسر مسترد کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان میں لاکھوں مسلم خواتین کی زندگی زبوں حالی کا شکار ہے۔ شاہ بانو کا کیس اس کی ایک کلاسکی مثال ہے۔ یہاں تک کہ مسلم شادی اور طلاق میں اصلاحات کی تجویز پیش کرنے والی ممبئی کی مسلم خواتین کی مجلس کی حالیہ کوششوں کو بھی ان دیکھا اور ان سنا کر دیا گیا۔ کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ اگرریاست مسلم خواتین کے مطالبات کے تئیں حساس نہیں ہو گی تو پھر کون ہو گا؟ خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب خود معاشرہ ان تبدیلیوں کو بروئے کار لانے کے لیے تیار معلوم نہیں ہوتی، ریاست کو قدم بڑھانے اور کم از کم اس معاملے پر کمیونٹی کے اندر ہی پائی جانے والی مختلف رائے کے درمیان بحث و مباحثے اور مکالمے کے عمل کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہاں اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ایسا کرنے سے ریاست کو کمیونٹی کے 'اندرونی' معاملات میں مداخلت کرنے والے کے طور پر دیکھا جائے گا۔ لیکن ہمیں اس سیاست سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے جو معاشرے کے اندرونی اور ذاتی دائرے کے اندر کی جاتی ہے، اور ہمیں اس حقیقت سے بھی آگاہ رہنا چاہیے کہ اس سیاست کا اثر صرف ذاتی نہیں بلکہ عوامی اور ظاہر ہے۔

علی ریحان کی ایک آزاد محقق اور کلم کار ہیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/reforming-muslim-personal-law/d/105588

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/reforming-muslim-personal-law-/d/105606

 

Loading..

Loading..