سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
12دسمبر،2024
کہتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ لیکن گزشتہ بیس بائیس برسوں سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ عالمی سطح پر مسلمان امریکہ اور مغربی ممالک کے فریب میں بار بار آرہے ہیں ۔ تازہ مثال شام میں القاعدہ کی حکومت کا قیام ہے۔ ظاہری طور پر حیات التحریر الشام یا ایچ ٹی ایس ایک جنگجو تنظیم ہے جس نے شام کے ظالم ڈکٹیٹر کا تختہ پلٹ کر اسے مع کنبہ روس فرار ہونے پر مجبور کردیا ہے لیکن در حقیقت ایچ ٹی ایس القاعدہ کا ہی ایک دھڑا ہے جس کا لیڈر الجولانی پہلے القاعدہ کا ہی کارکن تھا اور القاعدہ سے اختلافات کے نتیجے میں الگ ہو کر النصرہ فرنٹ نام کی دہشت گرد تنظیم کی تشکیل کی تھی۔ 90ءکی دہائی سے امریکہ کی تیار کردہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ نے مسلم ممالک میں اپنا جال پھیلایا اور اس نے امریکہ کی مخالفت کو اپنا ہتھیار بنایا۔ چونکہ دنیا بھر کے مسلمان امریکہ کی جارحیت اور اسلامی دنیا پر اس کے مظالم کی وجہ سے اس سے شدید نفرت کرتے تھے لہذا ، امریکہ کی مخالفت اور اس کے خلاف دہشت گردانہ حملے کرکے اس نے مسلمانوں میں اپنے لئے ایک مسیحا کی امیج بنانے کی کوشش کی اور کچھ سادہ لوح مسلمان اس کے فریب میں آبھی گئے۔ امریکہ نے اسامہ بن لادین اور القاعدہ کو اسلامی ممالک کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔جس ملک میں امریکہ کو فوجی مداخلت کرنی ہوتی تھی وہاں القاعدہ دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے لگتا تھا اور امریکہ کو اس ملک پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے حملے کا جواز مل جاتا تھا۔ اس نے القاعدہ کو ختم کرنے کے بہانے عراق ، لیبیا ، یمن اور افغانستان میں فوجی مداخلت کی اور ان مملکوں کو تباہ کردیا۔
اتنی تباہی کے بعد مسلمانوں کو جب القاعدہ کا اصل چہرہ نظرآیا اورالقاعدہ اور امریکہ کے درمیان تال۔میل کا پتہ چل گیا تو اس کے پاس القاعدہ کے مزید استعمال کی گنجائش باقی نہیں بچی۔ لہذا ، امریکہ نے داعش کے نام سے ایک نئی دہشت گرد تنظیم کی تشکیل کی اور اسے اسلحے اور تربیت دی۔ اس تبظیم کو اس نے ایک نیا نعرہ دیا اور وہ نعرہ تھا قیام خلافت کا۔یہ نعرہ مسلمانوں کے لئے ایک نیا فریب تھا ۔ اور مسلمان ایک بار پھر امریکہ کے فریب میں آگئے ۔ امریکہ اور اسرائیل نے داعش کو ہتھیار اور تربیت دے کر شام اور عراق کے ایک بڑے حصے پر قابض ہونے اور اپنی نام نہاد خلافت قائم کرنے میں مدد دی۔ دراصل اس تنظیم کی تشکیل کے پیچھے اس کا مقصد لیبیا ، عراق اور افغانستان کو تباہ کرنے کے بعد باقی بچے اسلامی ممالک کو بھی تباہ کرنا تھا۔ داعش کے سرغنہ ابوبکر البغدادی کو خلیفہ بنا کر امریکہ اور اسرائیل نے پورے مشرق وسطی میں تباہی کابدترین کھیل کھیلا ۔ داعش کی تشکیل کا بنیادی مقصد شام کو تباہ کرنا تھا کیونکہ شام کے صدر بشارالاسد روس اور ایران سے اقتصادی اور فوجی تعلقات رکھتے تھے اور روس نے سیریا کی مدد سے مشرق وسطی میں اپنے فوجی اور معاشی اثرورسوخ میں اضافہ کررہا تھا۔چونکہ شام ایک شیعہ اکثریتی ملک تھا اس لئے امریکہ نے بڑی آسانی سے شیعہ سنی کارڈ کھیل کر سنی ممالک اور علماء و مذہبی تنظیموں کو داعش کے حق میں اور سیریا کے خلا کھڑا کردیا۔ اس تمام کھیل کے باوجود امریکہ اور اسرائیل بشارالاسد کو ہٹا نہیں سکے کیونکہ ایران اور روس نے سیریا کا ہر ممکن دفاع کیا۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل تھک کر نہیں بیٹھے اور القاعدہ کے نئے دھڑے حیات التحریر الشام کو اسلحے اور تربیت دے کر سیریا کے ایک حصے پرقابض ہونے میں مدد دی۔ اس کے اس کھیل میں درپردہ ترکی کے صدر اردوگان بھی شامل تھے اور خفیہ طور پر الجولانی کے گروہ کو اسلحے اور تربیت فراہم کرتےرہے۔ یہاں یہ ذکر بھی اہم ہے کہ چار سال قبل جب مسلن ملک آذربائیجان اور عیسائی ملک آرمینیا کے درمیان جنگ ہوئی تھی تو اردوگان نے داعش کے چار ہزار لڑاکے آذر بائیجان کی مدد کے لئے بھیجے تھے۔ اردوگان کے امریکہ کے سیریا مخالف پلان میں شامل ہونے کی ایک وجہ تو ان کا سنی مسلم ہونا ہے۔ وہ خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر سے فکر مند تھے اور وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ خطے میں بشارالاسد کی حکومت ایران کی موجودگی کا باعث ہے۔ غزہ اور اسرائیل کی جنگ کے دوران بھی ترکی نے اسی لئے اسرائیل کا ساتھ دیا کہ اس کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی اور فوجی رشتے تھے اور ایک مرحلے میں یہ خبر بھی آئی تھی کہ اسرائیلی فوج میں ترکی کے لوگ بھی شامل ہوکر غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ترکی کی طرف سے داعش یا حہات التحریر الشام کے ہی لڑاکے ہوں گے۔ چونکہ ترکی ناٹو کا ممبر ہے اس لئے وہ مسلم ممالک کے مفادات کے بجائے اسرائیل اور امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
سیریا میں بشارالاسد کے تختہ پلٹ میں بھی اردوگان کا رول کھل کر سامنے آگیا ہے۔سیریا میں ایچ ٹی ایس کے قابض ہوتے ہی امریکہ ، اسرائیل اور ترکی نے سیریا کی فوجی تنصیبات اور ایران کے حمایت یافتہ جنگجو تنظیموں پر حملے شروع کردئیے ہیں۔ تاکہ اگر کل ایچ ٹی ایس اسرائیل ، امریکہ اور ترکی کا مخالف بھی ہوجائے تو سیریا فوجی طور پر ایک لمبے عرصے تک ان کے لئے خطرہ نہ بن سکے اور وہ سیریا کو اپنے منصوبوں اور مفادات کے مطابق استعمال کرسکیں۔
اسرائیل لگاتار تین دنوں سے سیریا کے علاقوں پر قبضہ کررہا ہے اور اس کی فوجی تنصیبات کو تباہ کررہا ہے لیکن الجولانی کی فوج اور اس کی نام نہاد حکومت نے اسرائیل پر جوابی حملہ نہیں کیا ہے۔ یہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ الجولانی امریکی اور اسرائیلی ایجنٹ ہے اور اسے سیریا کو تباہ کرنے کے لئے ہی بھیجا گیا ہے۔ ورنہ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ جو گروہ ایران اور روس کی حمایت یافتہ سیریائی فوج کو شکست دے سکتا ہے وہ اسرائیل پر جوابی حملہ تک نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے اسے اسلحے اسی شرط پر دئیے گئے ہونگے کہ ان کا استعمال اسرائیل پر نہیں ہوگا۔
بشارالاسد کی حکومت اس لئے گرگئی کہ اس کے ساتھ عوام کی حمایت نہیں تھی اور اس نے اپنی حکومت بچانے کے لئے عوام پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔ ہزاروں شامیوں کو اس نے قید کرکے ان پر اذہت کے پہاڑ توڑے اور انہیں بھیڑوں اور بکرہوں کی طرح قتل کروایا۔ انہیں تیس تیس سال تک جیلوں میں رکھا۔ بنگلہ دیش میں بھی شیخ حسینہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد خفیہ جیلوں کا انکشاف ہوا جہاں معصوم لوگوں کو صرف حکومت کے خلاف احتجاج کرنے اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے پر دس دس برسوں تک جیلوں میں رکھا گیا تھا اور انہیں شدید اذیتیں دی گئی تھیں۔ حتی کہ حزب مخالف کی رہنما کو بھی لمبے عرصے جیل میں رکھا جس کی وجہ سے وہ جسمانی اور ذہنی طور پر معذور ہوگئیں۔شاید دونوں آمروں کی حکومتوں کے ختم ہونے کی وجہ معصوم لوگوں کو لمبے عرصت تک محروس رکھنا تھی۔ جب ان کی رہائی کے سارے دنیاوی راستے بند ہو گئے تو قدرت نے ان کی رہائی کے لئے ان حکومتوں کو ہی الٹ دیا اور ظالم حکمرانوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنے کی راہ ہموار کردی۔ سیریا میں تو پچاسوں افراد ایسے تھے جن کا قتل اسی دن طئے تھا جس دن اسد فرار ہوا اور وہ آزاد ہوئے۔ اسی لئے سیریا کے عوام الجولانی اور ایچ ٹی ایس کو اپنا مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ لیکن یہ ان کا محدود نقطہءنظر ہے۔ وہ اپنے حالات کے تناظر میں رائے قائم کررہے ہیں۔عالمی تناظر میں حیات التحریر الشام ہو یا القاعدہ یا داعش یہ تنظیمیں اسلامی ممالک میں امریکہ اور اسرائیل کے سیاسی اور فوجی مفادات کی تکمیل کے طویل۔مدتی منصوبے کا حصہ ہیں اس لئے سیریا میں ان گروہوں کی حکومت نہ صرف اس خطے بلکہ سیریائی عوام کے مفادات کے لئے مستقل خطرہ ہوگی۔ حیات التحریر الشام ایک سنی دہشت گرد تنظیم ہے اور سیریا کی اکثریت شیعہ ہے۔ وہاں کردوں کی بھی قابل لحاظ آبادی ہے جو عظیم تر کردستان ریاست کا مطالبہ کرتے آئے ہیں اور اسرائیل کے حامی ہیں کیونکہ وہ کردستان کے قیام کا حامی ہے۔اردوگان اپنے ملک کے کردوں پر اسی لئے ظلم ڈھاتے ہیں کہ کرد اپنی نسلی و تہذیبی شناخت پر اصرار کرتے ہیں۔لہذا ، ایچ ٹی ایس کی حکومت میں علاحدگی پسندی ، مسلکی اختلافات اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ہوگا اور اس کا فائدہ اسرائیل اور امریکہ اٹھائیں گے۔ اندیشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ سیریا مسلکی اور نسلی اختلافات کی بنا پر تین حصوں میں بٹ جائے گا۔
قصہ مختصر یہ کہ بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ سیریائی عوام کے لئے راحت کی بات تو ہے لیکن حیات التحریر الشام کا سیریا کی حکومت پر وابض ہونا نہ تو سیریا کے لئے اور نہ ہی عالم اسلام کے لئے فال نیک ہے۔
یہ ڈرامہ دکھائےگا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/al-qaida-government-installed-us-help/d/134000
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism