ساحل رضوی، نیو ایج اسلام
5 اکتوبر 2024
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ، اجمیر شریف، ہمدردی اور انسان دوستی کی علامت ہے۔ ہر سال یہاں لاکھوں لوگ زیارت کے لیے حاضر ہوتے ہیں، جو روحانیت اور اتحاد پر اس کے گہرے اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔
اہم نکات:
1. حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر پہنچے، اور آپ نے رحمدلی اور سخاوت کی ایک میراث قائم کی۔
2. اب ان کا مزار ایک زیارت گاہ ہے، جہاں سالانہ اور خاص طور پر عرس کی تقریبات کے دوران، لاکھوں لوگ حاضر ہوتے ہیں۔
3. مختلف شاہی خاندانوں، خاص طور پر شہنشاہ اکبر نے، مزار کی شان و شوکت میں اضافہ کرتے ہوئے، تزئین و آرائش کا کام کروایا۔
4. مزار کے احاطے میں، متعدد صحن، کھانے کی تقسیم کے لیے دیگ، اور تاریخی ڈھانچے بھی موجود ہیں۔
5. اجمیر شریف کو برصغیر کی سب سے بڑی چشتی درگاہ تسلیم کیا جاتا ہے، جو روحانی اتحاد اور برکات کی علامت ہے۔
---
اجمیر شریف درگاہ
-------
تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات پیش آتے ہیں، جو عقل اور استدلال سے ماوراء ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ، ایسے عظیم واقعات پیش آتے رہے ہیں، کہ ان کی گونج آسمانوں تک سنائی دیتی ہے، لیکن تاریخ لکھنے والوں نے انہیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ کرنے کے لائق نہیں سمجھا۔ انہیں انفرادی اہمیت کے حامل واقعات میں سے ایک، راجستھان کے اجمیر میں، حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی آمد ہے۔ یہ سفر، جو سیستان سے شروع ہوا اور عالم اسلام کا سفر طے کرتا ہوا، اس قدیم تاریخی شہر میں ایک پرامن رہائش پر اختتام پذیر ہوا، جس کے اثرات صدیوں تک گونجتے رہے۔
خواجہ معین الدین چشتی، دہلی کے سلطنت کا حصہ بننے سے بہت پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے۔ صرف ایمان اور اللہ پر پختہ یقین لے کر، وہ اپنے ساتھ اسلامی اخلاقیات، انسان دوستی، ہمدردی اور سخاوت کی قدریں لے کر آئے، اور عام لوگوں کا دل جیت لیا۔ آپ کی شخصیت کے اثر سے انسانوں کے دلوں پر آپ کا ایک راج قائم ہو گیا، جو کبھی زوال نہیں آیا۔ حضرت خواجہ اجمیری، جنہیں عوام "غریب نواز" اور "سلطان الہند" کے نام سے جانتی ہے، انہوں نے اجمیر کو اپنا آخری ٹھکانہ منتخب کیا اور 634 ہجری (جون 1227 عیسوی) میں وفات پائی۔ انہیں اسی کمرے میں دفن کیا گیا جہاں وہ قیام پذیر تھے، جو اس وقت سے اب تک لاکھوں عقیدت مندوں کا مرکز عقیدت بنا ہوا ہے۔
سال در سال، لاکھوں زائرین اس مزار پر حاضری دینے آتے ہیں، خاص طور پر سالانہ عرس کی تقریبات کے دوران، وہاں لاکھوں عقیدت مندوں کا ایک جم غفیر ہوتا ہے۔ اجمیر کے جنوبی مغربی حصے میں واقع، یہ مزار مختلف نشانیوں سے گھرا ہوا ہے، بشمول مغرب میں اندر کوٹ محلہ اور مشرق میں لنگر خانہ، جنوب میں جھلڑہ کے نام سے مشہور پانی کا چشمہ، جو تاریخی طور پر درگاہ کو پانی فراہم کرتا ہے۔
مزار کے احاطے میں 21 دروازے ہیں، اور اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شروع میں یہ عام اور سادہ سی درگاہ تھی۔ یہاں پہلی سب سے بڑی تزئین و آرائش، خلجی خاندان نے کروائی، جس میں صحن اور گنبد کی تعمیر کی گئی۔ شہنشاہ اکبر کو اس درگاہ سے بڑی عقیدت تھی، اور اس نے کئی مواقع پر آگرہ سے اجمیر کا سفر کیا تھا۔ ایک سفر کے دوران، اس نے ایک بڑی دیگ عطیہ کی، جس میں کافی مقدار میں کھانا بنایا جا سکتا ہے، جس سے مزار کے اہتمام و انصرام سے، اس کی لگن واضح ہوتی ہے۔ تقریباً بارہ گز لمبا یہ دیگ، مزار کے صحن میں ایک منفرد کشش کا باعث بنی ہوئی ہے، جہاں کھانا تیار کرکے ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
شہنشاہ اکبر نے صحن کے اوپر "چھتری" بھی تعمیر کروائی تھی، جو آج بھی موجود ہے۔ مزار کے شمالی دروازے کو نظام گیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے نظام حیدرآباد نے 1915 عیسوی میں بنوایا تھا۔ چھوٹے قدیم دروازے کو شاہ جہاں گیٹ کہا جاتا ہے، جو شاہ جہاں کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا اور اکبری مسجد سے ملحق ہے، جسے جہانگیر کی پیدائش کے فوراً بعد تعمیر کیا گیا تھا۔
دوسرے صحن میں، دیگوں اور چراغ خانوں کے علاوہ، ایک کشادہ اجتماع گاہ 1891 عیسوی میں، حیدرآباد کے نواب سر آسمان جاہ نے بنوایا تھا۔ اس کے سامنے ایک تالاب ہے جسے دھمال خانہ کہا جاتا ہے، جہاں قلندر اور عقیدت مند رقص کرتے اور جشن مناتے ہیں۔ اس کے اوپر ایک چھتری بنائی گئی تھی، جسے 1911 عیسوی میں، ملکہ برطانیہ میری نے بنوایا تھا۔
مشرقی جانب لنگر خانہ ہے، جہاں اکبر کی دی ہوئی ایک بڑی دیگ نصب ہے، جس میں روزانہ دلیہ بنایا جاتا ہے اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے، یہاں ایک چھوٹی سی چھتری موجود تھی، جس کے بارے میں مانا جاتا تھا کہ یہی وہ جگہ ہے، جہاں اکبر نے صوفیاء کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا، لیکن یہ خراب ہو گیا۔ اور اب اس کی جگہ ایک کمرہ تعمیر ہے۔ احاطے کے تیسرے حصے میں خواجہ معین الدین چشتی کا مقدس مزار ہے۔
شمال میں، ایک چھوٹی لیکن خوبصورت سی مسجد ہے، جسے صندل مسجد کہا جاتا ہے، جہاں مزار پر چڑھائی جانے والی صندل رکھی جاتی ہے۔ اور اسی کے متصل بابرکت مزار پر انوار ہے۔ مغرب میں، شاہ جہانی مسجد ہے، جو 1637 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ مزار کا مشرقی دروازہ، جو صندل کی لکڑی سے بنا ہے، اکبر نے بنوایا تھا۔
مزار مبارک سے متصل بی بی جمال کی قبر ہے، اور مغرب میں شاہ جہاں کی بیٹی حور النساء کی قبر ہے۔ اجتماع گاہ کے مغرب میں، خانقاہ ہے جس میں حضرت غریب نواز کا خاندان رہتا تھا۔ اسے اکبر نے بنوایا تھا۔
مزار کے احاطے کے اندر، مشرقی جانب، کئی قبریں ہیں، جن میں سے ایک نظام سقا کی ہے، جس نے ہمایوں کو ڈوبنے سے بچایا تھا، اور اسے بطور انعام ایک دن کے لیے بادشاہ بنایا گیا تھا۔
اجمیر شریف، پورے برصغیر میں چشتیوں کی سب سے بڑی درگاہ ہے، جہاں سے روحانی فیوض و برکات دور دور تک تقسیم ہوتی رہتی ہیں۔ لہذا، اجمیر کو ہندوستان کی تاریخ میں اعلیٰ ترین روحانی درجہ حاصل ہے۔
-----------------
English Article: Ajmer Sharif Dargah: A Testament to Hindu-Muslim Unity Across Centuries
URL: https://newageislam.com/urdu-section/ajmer-sharif-dargah-testament-hindu-muslim-unity/d/133397
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism