New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 11:26 PM

Urdu Section ( 12 Jan 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

In CAA narrative, finding the judiciary’s lost voice سی اے اے کے بیانیے میں عدلیہ کی گمشدہ آواز کی تلاش


اجیت پرکاش شاہ

28دسمبر،2019

(ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)

یہ عدلیہ کے لیے ایک نازک موڑ ہے کہ وہ غلطیاں نہ کرے اور ججوں کے لیے بھی کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو درست کریں۔ شہریت ایکٹ میں حالیہ ترمیمات نے کئی لوگوں کو بے چین کردیا ہے اور یقینا ان میں‘ میں بھی شامل ہوں۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ یہ قانون سازی خود اپنے آپ میں مسائل کھڑے کرنے والی ہے اورنیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) سے اس کی نسبت مزید کئی گنا دشواریوں کا باعث ہے۔ میں آسام میں این آر سی کے نفاذ کے وقت عوامی ٹریبونل کا ایک حصہ تھا او رمیں نے دیکھا کہ گوکہ یہ عدالت کی سرپرستی میں چل رہا تھا یہ ایک تباہ کن مشق تھی جس کے نتائج انتہائی خوفناک تھے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) 2019کے بعد ہونے والے احتجاجات باعث حیرت نہ تھے لیکن جس انداز میں احتجاجیوں سے نمٹا گیا وہ ضرور حیرت انگیز تھا۔ طلبا کی رہنمائی میں واضح طور پر چلنے والے پر امن احتجاجات پر لا اینڈ آرڈر مشنری کا رد عمل ملک بھر میں تشدد اور املاک کے نقصانات پر منتج ہوا جو کہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے۔ یہ اس دور کی عکاسی ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور اس بات کااشارہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان کو ابھی ایسی لیڈر شپ سے طویل لڑائی کرنے میں اپنا اچھا خاصا وقت لگانا ہے جو بیک وقت فرقہ ورانہ اور آمرانہ ہے۔

مغلوب عدلیہ

ایسے وقتوں میں، ہمدردی ایک فطری ردعمل ہے بالخصوص ایک ایسی نسل کی جانب سے جس نے بد ترین آمرانہ حکومت یعنی ایمرجنسی کو دیکھا تھا۔ اس تناظر میں مجھے ذاتی طور پر جو چیز سب سے تکلیف دے رہی ہے وہ اس پورے بیانیے میں عدلیہ کی آواز ہے جو یا تو پوری طرح سے خاموش ہے یا پھر طاقتور انتظامیہ کے نیچے کہیں دب گئی ہے۔سی اے اے کو پڑوسی ممالک (افغانستان، بنگلہ دیش او رپاکستان) کے مظلوم اقلیتوں (ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسیوں، اور عیسائیوں) کے لیے فطری طریقہ سے شہریت دینے کا ایک ”فاسٹ ٹریک) ذریعہ بتایا جارہا ہے۔ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے یہ اقلیتی طبقات قانون کے مطابق ”غیر قانونی تارکین وطن“ نہیں کہلائے جائیں گے۔

محدود تعریف

جب سے یہ بل پیش ہوا ہے اور اس کے بعدبتدریج نافذ ہوا، ہم نے مختلف منظر نامے ابھر تے دیکھے جو اس قانون اور اس کے اطراف کی جانے والی سیاست کی توضیح کرنے والے النوع فریم ورک دکھاتے ہیں۔ ان میں جو سب سے بنیادی اوراہم نظریہ ہے، وہ یہ کہ یہ قانون غیر دستوری ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دستور ہند کے آرٹیکل 14میں دیے گئے حق مساوات کی نفی کرتا ہے۔ یہ دانستہ طور پر مسلمانوں کوبطور اقلیتی کمیونٹی الگ کردیتا ہے او ر شہریت عطا کرنے کے لیے مذہبی شناخت کو بنیاد بنا تاہے اور اس طرح وہ دستور کی روح ختم کردیتا ہے۔ہندوستانی شہریت عطا کرنے کے لیے مذہبی اقلیتوں پر ظلم کو جواز بنانے کی کوئی دستوری بنیاد نہیں ہے با لکل ایسے ہی جیسے صرف ان تین ممالک ہی کے افراد تک ”فاسٹ ٹریک“ شہریت کو محدود کرنے میں کوئی منطق نہیں ہے۔ یقینا‘ کسی بھی قسم کا ظلم تارکین وطن کو شہریت عطا کرنے کی واحد کسوٹی ہونی چاہئے۔ اس انداز میں ظلم کی تعریف کو محدود کرنا اس بنیاد کو ہی اکھاڑ پھینکنا ہے جس پر ہندوستانی جمہوریہ کی تعمیر کی گئی۔ یہ مساوات اورتنوع کے اصولوں کی بنیاد پر کی گئی جد وجہد کو نظر انداز کر دینے کے برابر ہے جس نے ہمیں آزادی دلائی۔ منظر نامے کے دوسری جانب‘ متبادل امکانات بھی موجود ہیں جو اس بیانیہ کو تقویت پہنچارہے ہیں کہ سی اے اے بالکل بھی نقصان دہ نہیں ہے اور اس کا مقصد صرف جائز نقل مکانی کے لیے تیز رفتار راستہ اور امان فراہم کرنا ہے۔ یہ کہناکہ سی اے اے نقصاندہ نہیں ہے، دستوری حیثیت پر اٹھائے گئے سوال سے بھی زیادہ اہم مسئلہ ہے، کیونکہ یہ اس بہترین ڈیزائن والے قالین کے اندر گھسنے کی کوشش ہے جس کا یہ قانون ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

ایک مذہبی قومیت کا

آپ پوچھنا چاہیں گے کہ یہ بہترین ڈیزائن کیا ہے۔ اس کے اوپری حصے پر سی اے اے کے مضمرات ہیں یعنی ان افراد کو علاحدہ کردینا جن کا تعلق مسلم کمیونٹی سے نظر آتاہو۔ اگر آپ قانون کی تفہیم کو محدود کردیں گے‘ جیسا کہ حکومت کررہی ہے‘ یعنی اسے صرف تارکین وطن پر لاگو کرنا‘ تب یہ قانون از خود مسلم تارکین وطن کو ہندوستانی سرزمین پر آتے ہی سیکنڈ کلاس ترجیح بنا دے گا حالانکہ انہوں نے انہی وجوہات (غربت‘ سیاسی ظلم و ستم‘ وغیرہ) کی بنیاد پر ہندوستان پہنچنے کے لیے لمبا سفر طے کیا جن وجوہات کی بنا پر ہندو یا عیسائی پڑوسی یہاں آئے ہیں۔ اگر آپ اس قانون کوتفہیم کادائرہ کار بڑھائیں گے، جیسا کہ حکومت نے (این آر سی کو سی اے اے سے جوڑکر) یہ اعلانیہ طور پر کیا ہے، یہ پورے ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے درجے کاشہری بنا سکتا ہے۔ اس طرح یہ قانون او رپالیسی سیکولر ازم‘ بھائی چارے او رانسانیت کے دستوری اصولوں سے نہ صرف منہ موڑتی ہے بلکہ انہیں تباہ بھی کردیتی ہے۔

اس جھوٹ کی جڑیں اس ثقافتی او رمذہبی قومیت کی آئیڈیا لوجی میں پیوست ہیں جو ہندو توا شخصیتیں مثلاً ونائیک دامودر ساورکر او راس قبیل کے لوگوں کی تھی‘ جس کے تحت ساورکر کہتے رہے کہ ”ہندو راشٹر (مملکت)‘ ہندو جاتی (نسل)‘ اور ہندو سنسکرتی (ثقافت)“ ہی آئیڈیل ہیں۔ مذہبی قومیت کی شکل میں یہ آئیڈیالوجی ایک ہندو حکمرانی والی مملکت کا خواب دیکھتی ہے‘ اکھنڈ بھارت (متحدہ بھارت) میں ایک ہندو راشٹر‘ اس یقین کی بنیاد پر کہ صرف ہندو ہی برطانوی ہندوستان کی زمین پر ان کے آباو اجداد کی زمین یعنی پِتر بھومی او ران کی مذہبی یعنی پُنیہ بھومی کے طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں۔ اس تناظر میں‘ مسلمان اور عیسائیوں کو بیرونی افراد کے طور پر دیکھا جائے گا جو ہندوستانی سر زمین سے تعلق نہیں رکھتے او رجن کے مذہب نے کسی او رمقدس سرزمین پر جنم لیا ہے۔

میرا ذاتی پس منظر اس بیانیے سے‘ عمومی تصور سے کیں زیادہ وابستہ ہے۔ میرے نانا 1940کے دہے میں ہندو مہا سبھا کے صدر تھے او رمیرے اسکول کے دنوں میں جو تحریریں میں نے سب سے زیادہ پڑھیں وہ ساورکر کی تھیں۔1938میں جب ہٹلر اپنے عروج پر تھا‘ ساورکر نے اپنی تحریروں میں یہودیوں کے تئیں او رانہیں مادر وطن سے بھگانے کے لیے اپنائی گئی ہٹلر کی پالیسیوں کو صحیح ٹھہرایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ”کوئی ملک وہاں بسنے والے اکثریت سے تشکیل پاتا ہے۔ یہودی جرمنی میں کیا کررہے تھے؟ اقلیت ہونے کے بنا پر انہیں جرمنی سے نکال باہر کیا گیا۔“ ایک بچہ کی حیثیت سے میں جوکچھ پڑھ رہا تھا اسے جذب کرتے ہوئے اور ان کی شاعری کو سراہتے ہوئے (جو کہ آج بھی سراہتا ہوں)‘ میں مہا سبھا کے ایک ادارہ ہونے کے طور پر ہمیشہ سوال اٹھاتا رہا او راس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ آخر کون سی چیز انہیں اس حرکت پر اکسا رہی ہے۔اس دور میں بھی مجھے اپنے دور کے فسطائی آمروں بالخصوص ہٹلر او رمسولینی کے تئیں ساورکر کا یہ جنون کھٹک رہا تھا۔

پسماندگی‘ استبدادپسندی اور آئینی حیثیت پر ہندو مہا سبھا اور اس کے جانشینوں کانظریاتی موقف یکساں رہا ہے۔ لیکن ان کی اس یکسانیت میں ایک ہندو تو اراشٹر کے خیالی تصور میں اور ثقافتی‘ لسانی اور مذہبی تنوع والے جدید ہندوستان کی حقیقت سے اسے جدا کرنے میں انہوں نے غلطیاں کی ہیں۔ چونکہ سی اے اے غیر اخلاقی ہے لہٰذا ایک عوامی تحریک ناگزیر او رلازمی ہے۔ بصورت دیگر وہ بنیادی اصول جن پر ہندوستان کا دستوری تصور قائم ہے کسی ایسی چیز کے بدلے تباہ ہوجائے گا جو ہمیشہ کے لیے گہرے زخم چھوڑ سکتی ہے۔

ایک اہم موڑ

سی اے اے احتجاجوں کے جواب میں چیف جسٹس آف انڈیا نے مبینہ طور پر کہا کہ اگر لوگ ”سڑکوں پر آنا“ چاہتے ہیں تو انہیں عدالتوں میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بیان کو ایک وارننگ کے طور پر بھی لیا جاسکتا ہے کہ اگر عدل حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے اچھا رویہ لازمی ہے۔ کسی بھی واقعہ کی صورت میں‘ ایک جمہوریت میں احتجاج کرنے اور عدالت کو رجوع ہونے کے دونوں راستے عوام کے پاس موجود ہیں اور دونوں ہی راستے درست ہیں۔ لیکن اس وقت عدلیہ سے کیا توقع کی جائے جب پوری سوسائٹی ہی احتجاج کرنے پر آجائے؟ اس صورت میں‘ جیسا کہ اب ہورہا ہے‘ احتجاجیوں کواچھے او ربرے قرار دینے کے درمیان کوئی واضح لائن نہیں ہے۔

تاریخی طور پر‘ ہندوستانی عدلیہ ایسے حالات سے نمٹنے کی ایک غیر واضح تاریخ رکھتی ہے جہاں وہ حتمی ثالث ہو۔ بالخصوص اس وقت جب ایک طاقتور انتظامیہ کا معاملہ ہوتو عدالتیں غلطیاں کرنے لگتی ہیں۔ اس معاملے میں ایمر جنسی کی مثال لی جاسکتی ہے۔ یہ ججوں کی موجود ہ نسل کے لیے ایک نازک مو ڑ ہے کہ وہ ان غلطیوں کو درست کریں جو ان کے پیش رو پچھلے 40سال سے ہندوستانی عوام کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ ہم ان تلافیوں کابے چینی سے انتطار کرتے ہیں۔

(اجیت پرکاش شاہ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس او رلاکمیشن آف انڈیا کے سابق چیر پرسن ہیں۔)

ماخذ۔ دی ہندو

Source: URL for original English article: https://www.thehindu.com/opinion/lead/in-caa-narrative-finding-the-judiciarys-lost-voice/article30415118.ece

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/in-caa-narrative-finding-judiciarys/d/120772

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..