اے۔ جے جواد، نیو ایج اسلام
03 نومبر 2016
گزشتہ کئی ہفتوں سے پرائم ٹی وی پر مسلم پرسنل لاء اور یکساں سول کوڈ کی ضرورت کے تعلق سے بحث و مباحثے کا بازار گرم ہے۔ بدقسمتی سے ان مسائل کو صرف مندرجہ ذیل تین نقطہ نظر سے گفتگو کا عنوان بنایا جا رہا ہے:
اول۔ ایک سرپرستانہ پدرانہ نقطہ نظر –جس میں عورتوں کو مردوں کا ماتحت مانا جاتا ہے؛
دوم۔ مذہبی نقطہ نظر –جس کا تعلق مذہب کے تحت بعض رسوم و معمولات کے جواز سے ہے؛
سوم ۔ اقتصادی نقطہ نظر – جو "دوسری" بیوی کے حقوق سے متعلق ہے۔
اس تناظر میں دو مضامین اہم ہیں، جن میں سے ایک " Multiple ways to Equality" کے عنوان سے ' NALSAR' حیدرآباد کے وائس چانسلر جناب فیضان مصطفی کا پہلا مضمون جو (مورخہ 28-10-2016 کو انڈین ایکسپریس میں شائع ہو تھا ) اور دوسرا مضمون " Situating law in the land" کے عنوان سے چنئی کے آزاد محقق فیض الرحمان کا ہے جو (مورخہ 28-10-2016 کو (Hindu) ہندو میں شائع ہوا تھا)۔ دونوں مصنفین نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہندو قانون کے تحت دو شادیوں کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد بھی ہندوؤں میں دو شادی کے عمل میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، تجرباتی مشاہدات کا سہارا لیا ہے۔ میرے ناقص خیال میں اس طرح کے بحث و مباحثہ کے لیے یہ ایک غلط بنیاد ہے۔
گفتگو کا مرکز توجہ آئینی حیثیت ہو:
تین طلاق اور تعدد ازدواج پر گفتگو میں دلائل کی بنیاد مکمل طور پر اس بات پر ہے کہ آیا یہ معمولات شریعت میں جائز ہیں یا نہیں۔ اس عمل کے جواز یا اس کی مذمت میں قرون وسطی کے نظریات کے حامل متعدد فقہا کی رائے پیش کی گئی ہے۔
اس معاملے میں جس حقیقت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ اس مسئلے کا جغرافیائی و سیاسی محل وقوع ہے۔ بلکہ اس مسئلے پر بحث و مباحثہ میں بنیاد ہندوستان کے ان جغرافیائی علاقے کے اندر خواتین کے حقوق پر رکھی جانی چاہیے جن پر ان حقوق کو پامال کرنے والے مذہبی معمولات کی نہیں بلکہ ایک ایسے آئین کی حکومت ہو جو اس کے تمام شہریوں کے لئے مساوی حقوق کو یقینی بناتا ہو۔ سوال یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کسی خاص مذہب میں کیا درست ہے بلکہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ یہاں کے آئین میں کیا درست ہے۔
یہاں آئین کی شق 13، 14 اور 21 اہم ہے۔ آرٹیکل 13 کے مطابق آئین کے نفاذ سے پہلے کے تمام قوانین، رسوم و رواج اور طرز عمل مروجہ آئین کی دفعات کی خلاف ورزی کی حد تک باطل ہیں۔ آرٹیکل 14 میں قانون کی نظر میں مساوات کو یقینی بنایا گیا ہے۔ آرٹیکل 21 ایک پر وقار کی زندگی کے حق کو یقینی بناتا ہے۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ کے کچھ سابق فیصلوں نے پرسنل لاء کو مستثنی قرار دینے کے لیے آرٹیکل 13 کی دفعات کو ہلکا کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پرسنل لاء کی آڑ میں یہ نقصان دہ طرز عمل جاری رہا۔
لہٰذا، 1939کا مسلم پرسنل لاء (شریعت) ایپلی کیشن ایکٹ آئین کے نفاذ سے پہلے کا ایک ایسا ہی ایکٹ ہے جو اب تک مضبوطی کے ساتھ مروج ہے۔ اس میں صرف اس بات کی وضاحت ہے کہ شادی، طلاق، وراثت، وغیرہ سے متعلق تمام معاملات میں ہندوستان کے مسلمانوں کا فیصلہ شریعت کے مطابق کیا جائے گا۔ اس میں نہ تو اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ "شریعت" کیا ہے اور نہ ہی اس میں کسی حقوق، ذمہ داریوں، چارہ کار یا طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس قانون کی آئینی حیثیت کو آئین کی شق 13، 14 اور 21 کی روشنی میں دوبارہ جانچ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
مسلم میرج ایکٹ 1939 کی تحلیل:
تقریبا ہر مسلم ملک میں طلاق کو نافظ کرنے کے لیے کورٹ کی تحریری اجازت ضروری ہے۔ ہندوستان کو اس سے مستثنیٰ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور اس کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ مسلمانوں پر لاگو ہونے والے پرسنل لاء میں قانون سازی کی جائے۔ تاہم، اس کا ایک آسان راستہ مسلم شادی ایکٹ 1939 (جو کہ ایک ایسا قانون ہے جو مشروع بنیادوں پر عقد نکاح کو توڑنے کے لیے ایک مسلمان عورت کو عدالت سے رجوع کرنے کاحق عطا کرتا ہے)کی تحلیل میں ترمیم ہے تاکہ طلاق کو مکمل کرنے کے لیے زوجین میں سے کوئی ایک یا دونوں کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کی سہولت پیدا ہو سکے، خواہ وہ طلاق ہو، خلع ہو، مبارات ہو یا لعان ہو۔ اس کے بعد عدالت اختلاف کے اسباب کی تحقیقات کرے گی، مشاورت کی کوشش کرے گی، ثالثی یا مصالحت کرنے کی کوشش کرے گی اور اس کے بعد اگر عدالت کو یہ لگتا ہے کہ اب اس عقد نکاح کو بچایا نہیں جا سکتا تو وہ طلاق کی تصدیق کرتے ہوئے پنا فیصلہ دے گی۔ اس میں مجرم فریق کے لیے سزا کی شق کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ مسلمان اس قسم کی ترمیم پر کسی بھی طرح کا اعتراض نہیں کر سکتے اس لیے کہ یہ قرآنی طریقہ کار کی روح کے مطابق ہے اور یہ آئینی منشور کو بھی پورا کرتا ہے۔
عورتوں کو باختیار بنانا:
یہ ایک طفلانہ اور مضحکہ خیز دلیل ہے کہ ہندوؤں کے لئے دوشادی کے عمل کو غیر قانونی بنانے سے اس میں کوئی کمی وقع نہیں ہوئی ہےبلکہ اس کے برعکس "دوسری" بیوی کے حقوق پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اور یہ کہ تعدد ازدواج کے عمل کو نہ صرف مسلمانوں کے لئے برقرار رکھا جائے بلکہ اس کا دائرہ ہندوؤں تک بھی بڑھا دیا جائے۔ یہ دلیل صنفی مساوات کے تصور کے منافی ہے، اس میں پہلی بیوی کے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے خواتین ایک ذلیل و رسوا دائرہ حیات میں قید ہو کر خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ اس میں خواتین پر عائد ہونے والی ذلت، ذہنی اذیت، صدمے اور سماجی بدنامی سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اثرات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ لہذا، آئینی منصوبہ بندی کے تحت تعدد ازدواج کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
(فریقین کے دین و مذہب سے قطع نظر) قانونی نقطہ نظر سے شادی دو مساوی افراد کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ پہلے معاہدے کے رہتے ہوئے کسی بھی ایک فریق کو کسی تیسرے فریق کے ساتھ اسی طرح کا معاہدہ کرنے کا خصوصی استحقاق حاصل نہیں ہو سکتا۔ خواتین کا مردوں کی حد سے تجاوز کر جانے کی صورت میں بھی تعدد ازدواج کوئی حل نہیں ہے۔ خواتین کو تعلیم اور اقتصادی ترقی کے ذریعے با اختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ آئی پی سی (IPC)کی دفعہ 494 کو تمام کمیونٹیز پر نافظ کیا جانا چاہیے اور اسے صرف پہلی بیوی کے لیے ایک ذاتی اذیت ہی نہیں بلکہ ریاست کے خلاف ایک جرم تصور کیا جانا چاہئے۔
یکساں سول کوڈ:
یکساں سول کوڈ کے حق میں اور اس کے خلاف گرما گرم بحث و مباحثے میں اس بات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ خصوصی میرج ایکٹ 1954 اور دی انڈین سکسیشن ایکٹ 1925 (the Indian Succession Act, 1925)کی شکل میں پہلے سے ہی ایک اختیاری یکساں سول کوڈ موجودہ ہے۔ ہندوستان کا کوئی بھی شخص اپنی شادی کو اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت اندراج کروا سکتا ہے اور اس ایکٹ کی شق 21 کے مطابق اس میرج ایکٹ میں اندراج کروا لینے کے بعد فریقین کے ساتھ فیصلہ ان کے پرسنل لاء کے مطابق نہیں بلکہ اسی انڈین ایکٹ کے مطابق کیا جائے گا۔
ایک لازمی یونیفارم سول کوڈ سے بھی زیادہ ضروری یہ امر ہے کہ موجودہ اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ ملک میں فیملی عدالتوں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ مثال کے طور پر چنئی میں صرف تین ہی فیملی عدالتیں ہیں جن میں لوگوں کی بھاگ دوڑ گنجائش سے کہیں زیادہ ہے، ججوں پر کام کا بار زیادہ ہے اور بنیادی ڈھانچے کی حالت قابل رحم ہے۔
ابھی ضرورت اس امر کی ہے کہ خاص طور پر خاندانی مسائل میں تربیت یافتہ ججوں کی تقرری کر کے عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے، عام عدالتوں کے احاطے کے باہر فیملی عدالتیں بنائی جائیں، فریقین کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جائے، مقدمات کے تیز تر فیصلے کے لئے طریقہ کار کو درست کیا جائے اور اس میں تیزی لائی جائے، فریقین کو اچھی طرح تربیت یافتہ اور ہنر مند اہلکاروں کے ذریعہ ثالثی اور مصالحت جیسے متبادل فراہم کیے جائیں، عدالتوں کی مدد کرنے کے کل وقتی ماہرین نفسیات اور کونسلرز بھی مہیاء کرائے جائیں۔
خاندان معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور خاندان میں ہم آہنگی ایک صحت مند معاشرے کے لیے شرط اولین ہے۔ ریاست کو خاندانی تنازعات کے پرامن حل کے لئے ضروری وسائل فراہم کر کے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ تمام سہولیات مفقود ہوں تو یکساں سول کوڈ ایک حل نہیں بلکہ ایک لعنت ثابت ہوگا۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/the-uniform-civil-code-debate/d/108998
URL for this article: