New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 03:49 PM

Urdu Section ( 2 Jul 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Aisha al-Manoubia: The Sufi Saint Who Broke Barriers and Spread Spirituality عائشہ المنوبیہ: وہ صوفیہ جس نے بندشیں توڑیں اور روحانیت کی اشاعت کی

 افروز خان، نیو ایج اسلام

 26 جون 2025

 تیونس سے تعلق رکھنے والی 13ویں صدی کی صوفیہ بزرگ عائشہ المنوبیہ نے، اپنی پوری زندگی روحانیت، عطیات و صدقات اور تعلیم کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔ صنفی اصولوں کو توڑتے ہوئے، انہوں نے شاذلی سلسلے کی قیادت کی، غلاموں کو آزاد کیا، اور خواتین کے حقوق کی حمایت کی ۔ ان کے مزار پر حملوں کے باوجود ان کی میراث تیونس کی ثقافت میں اب بھی زندہ ہے۔

 اہم نکات:

 1.  عائشہ المنوبیہ، 13ویں صدی کی تیونس کی صوفیہ بزرگ ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی روحانیت کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔

 2.  مراقبہ، خیرات و صدقات اور خواتین کے حقوق پر بات کی، اور تاعمر مجرد رہنا پسند ۔

 3.  شاذلی صوفی سلسلے کی قیادت کرتے ہوئے قطب کا لقب حاصل کیا ۔

 4. غلاموں کو آزاد کیا اور تمام لوگوں کو یکساں طور پر تعلیم دی ۔

 5.  ان کے مزار پر حملوں کے باوجود تیونس کی ثقافت میں ان کی میراث زندہ ہے ۔

 -----

تصوف اسلام کی ایک شاخ ہے، جو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے، اور صوفی خواتین نے بھی صوفی مردوں کی طرح شہرت حاصل کی ہیں ۔

 ایسی ہی ایک خاتون صوفیہ بزرگ تیونس کے قریب منوبیہ گاؤں میں پیدا ہوئیں، اور تصوف و روحانیت کی راہ پر چلتے ہوئے، اپنی زندگی اللہ کے لیے وقف کر دی ۔

 عائشہ المنوبیہ 1190 یا 1198 میں پیدا ہوئیں، ان کے والد علاقے کے شیخ تھے، اور ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ان کے دادا حاجی تھے، عائشہ المنوبیہ کے دل میں بچپن سے ہی ولی بننے کی خواہش تھی، انہوں نے شاذلی صوفی سلسلے میں طریقت کی تعلیم حاصل کی ۔

 انہوں نے بچپن میں اپنے والد سے قرآن پڑھنا سیکھا، اور نو سال کی عمر سے ہی اپنا زیادہ تر وقت تنہائی اور گوشہ نشینی میں بسر کرنا شروع کر دیا ۔ وہ تنہائی میں مراقبہ اور عبادت و ریاضت کرنا پسند کرتی تھی ۔ جب وہ تھوڑی بڑی ہوئیں تو ان کے والد نے ان کی شادی کرنے کی کوشش کی، لیکن انہیں ازدواجی زندگی گزارنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ وہ اپنی پوری زندگی عبادت و ریاضت اور مراقبہ میں گزارنا چاہتی تھیں، اس لیے منوبیہ چھوڑ کر تیونس چلی گئیں ۔ انہوں نے اپنے خاندان کو خیرآباد کہہ دیا، نکاح اور ازدواجی زندگی کے بجائے مجرد رہنے کا فیصلہ کیا، اور اپنی پوری زندگی حصولِ تعلیم، خواتین کے حقوق کی حمایت، اور اسلام کی صوفی تعلیمات کی اشاعت کے لیے وقف کر دی ۔

 تیونس میں وہ تنہائی کی زندگی بسر کرنے لگیں ۔ انہوں نے اپنی گزر بسر کے لیے سلائی، کتائی اور بُنائی کا کام کیا، اور زیادہ تر ایک ایسی مسجد میں وقت بسر کیا کرتی تھیں جو صوفیاء کرام کے درمیان مشہور تھی ۔ انہوں نے حدیث اور اسلامی فقہ کا بھی مطالعہ کیا تھا ۔

 عائشہ المنوبیہ شراب خانوں میں جا کر مذہب اور تصوف کی تبلیغ کیا کرتی تھیں، جو کہ ایسی جگہ ہے جو عورتوں کے لیے ممنوع اور ناپسندیدہ سمجھی جاتی تھی ۔ اس کے لیے انہیں کئی بار تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کا ماننا تھا کہ گمراہ لوگوں کو تعلیم کی زیادہ ضرورت ہے۔

 وہ مرد اور عورت دونوں کو یکساں طور پر تعلیم فراہم کیا کرتی تھیں ۔ اس کے سبب لوگ اکثر ان پر تنقید بھی کیا کرتے تھے، لیکن روحانیت اور تصوف سے ان کی وابستگی اتنی مضبوط تھی، کہ انہوں نے ان سب باتوں کی کبھی پرواہ نہ کی، اور اپنا سلسلہ تعلیم و تبلیغ جاری رکھا ۔ انہوں نے صفا مسجد (اب درگاہ) میں بھی تبلیغ کی، اور سلطان ابو زکریا یحییٰ کے ساتھ گفتگو کی ۔ انہوں نے روحانی مراقبے لیے طویل عرصے تک دیہی علاقوں میں تنہائی کی زندگی بھی گزاری ۔ مانا جاتا ہے کہ انہوں نے 1520 مرتبہ قرآن مکمل کیا تھا ۔

عائشہ المنوبیہ اپنی خیرات و عطیات کے حوالے سے بھی بہت مشہور تھیں، وہ ہر وقت ضرورت مندوں کی مدد کے لیے تیار رہا کرتی تھیں، اور اپنی زندگی کے لیے صرف ضروری چیزوں پر ہی گزارا کرتی تھیں، انہیں غیر شادی شدہ، مطلقہ اور بیوہ خواتین کے ساتھ خصوصی ہمدردی تھی، اور وہ ان کی مدد کیا کرتی تھیں ۔ اس وقت تیونس میں غلاموں کو خریدنے کا غیر انسانی رواج رائج تھا ۔ یہ مانا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سے غلاموں بھی کو خرید کر آزاد کیا تھا ۔

 انہوں نے تصوف اور مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے بڑے پیمانے پر سفر کیا، اور لوگوں کو تصوف سے آگاہ کیا ۔ 50 سال کی عمر میں، ایک اہل اللہ کے طور پر ان کی ساکھ قائم ہو چئی تھی ۔ جب الشاذلی نے تیونس چھوڑا تو انہوں نے اپنی چادر اور انگوٹھی عائشہ المنوبیہ کو، اپنے مجاز کی علامت کے طور پر عطا کی ۔ ایک تقریب میں، انہیں قطب کا خطاب عطا کیا گیا تھا، اور وہ ائمہ کی نگرانی کرتے ہوئے، تیونس صوفی سلاسل کی شیخہ بن گئیں ۔

 انہیں تیونس کے چار روحانی محافظوں میں سے ایک مانا جاتا تھا، اور ان کی یادیں تیونس کی ثقافت میں زندہ و تابندہ ہیں ۔

 عائشہ المنوبیہ سے وابستہ ایک قصہ بہت مشہور ہے ۔ ایک دفعہ انہوں نے ایک بیل کی قربانی کا حکم دیا ۔ ان کے حکم پر بیل کی قربانی دی گئی، اور پورے گاؤں کو دعوت میں مدعو کیا گیا ۔ جب دعوت ختم ہوئی تو لوگ واپس لوٹے اور بیل کو زندہ اور اپنی جگہ پر صحیح و سالم پایا ۔

 1267 میں ان کی وفات کے بعد، خصوصی تقریبات کے ساتھ انہیں ایل گورجانی کے مقبرے میں دفن کیا گیا ۔ تیونس کے ایک ضلع کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے، اور آج بھی وہاں کے لوگ اپنی بیٹیوں کے نام ان کے نام پر رکھتے ہیں ۔

 ان کے آبائی شہر میں ان کی یاد میں ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا تھا، لیکن 2012 میں بنیاد پرست اسلام پسندوں نے ملک کے صوفی ورثے پر حملے میں، ان کے مزار کو نذر آتش کر دیا ۔ تاہم، اس کے بعد اس کی تزئین کاری کی گئی اور عوام کے لیے اسے دوبارہ کھول دیا گیا ہے ۔ اس میں خواتین کا عملہ ہے، اور خاص طور پر خواتین زائرین کے لیے یہ مقام کافی مشہور ہے ۔ ان کی میراث تیونس کی ثقافت میں زندہ و تابندہ ہے، جہاں ان کی سخاوت روایتی گانوں میں قید ہے ۔

 عائشہ المنوبیہ نے اپنی پوری زندگی تیونس میں تصوف اور روحانیت کی تبلیغ کے لیے وقف کر دی ۔ انہوں نے اکثر صنفی بندشوں کو توڑتے ہوئے معاشرے کو تعلیم دی ۔ عائشہ المنوبیہ حقیقی معنوں میں ایک روحانی بزرگ تھیں، جنہوں نے تمام بنی نوع انسان کو، مردوں اور عورتوں کے درمیان بلا کسی امتیاز کے یکساں دیکھا ۔ وہ اسلام کی ایک معظم و محترم خاتون تھیں ۔

 ---

English Article: Aisha al-Manoubia: The Sufi Saint Who Broke Barriers and Spread Spirituality

URL: https://newageislam.com/urdu-section/aisha-manoubia-sufi-saint-spirituality/d/136050

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..