ایمن ریاض ، نیو ایج اسلام
30 اکتوبر 2013
2001 میں دی گیلپ آرگنائزیشن نے اعلیٰ پیمانے پر مسلم ممالک میں رائے عامہ کے اعدادو شمار شروع کرنے کا فیصلہ کیا،ریسرچ کرنے والی گیلپ آرگنائزیشن 160 ممالک میں سروے کا کام کرتی ہے اور ان کی سائٹ پر یہ لکھا گیا ہے کہ ‘‘ان کا مقصد پوری صدی اس کام کو جاری رکھنا ہے ’’۔1
2011 میں اس گلوبل پرفارمنس مینجمنٹ کنسلٹنگ کمپنی نے ایک ایسے سفر کے آغاز کا فیصلہ کیا جس میں وہ دروازے دروازےجائیں گے اور مسلمانوں سے یہ پوچھیں گے وہ تعدد ازدوج ، صنفی انصاف، 9/11،اسرائیل اور فلسطین اور دیگر دوسرے مسائل کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک مسلم میں پائے جاتے ہیں اور وہ دنیا کی تمام زبانیں بولتے ہیں ۔ تقریباً صرف 15% مسلمانوں کا تعلق عرب سے ہے اور ظاہر ہے تمام عرب مسلمان نہیں ہیں ۔ دراصل مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ایشاء، خاص طور پر جنوبی ایشیاء میں بستی ہے ۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ریلیجن اینڈ انٹرنیشنل افیئرز کے پروفیسر جان ایل اسپوسیتو کا کہنا ہے کہ سروے میں یہ پایا گیا ہے کہ مسلمان درحقیقت جو سوچتے ہیں وہ اس مروجہ حقیقت کے خلاف ہے جو میڈیا میں پیش کیا گیا ہے اور اس دقیانوسیت کے خلاف ہے جو مسلم اور غیر مسلم ممالک میں پھیلی ہوئی ہے ۔
تصادم
تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ چند مفرضات پر قائم ہے ۔ سب سے پہلا اور شاید سب سے اہم یہ نظریہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان جمہوری اقدار کے حامل نہیں ہیں ؛ وہ آزادیٔ تقریر اور صنفی انصاف کو نہیں سمجھتے یا ان کی قدر نہیں کرتے ، وہ نمائندہ حکومت کو دیکھتے ہیں اوریہ سوچتے ہیں کہ یہ فساد اور انتشار کی وجہ ہے ۔
بہت سارے امریکیوں کو مسلم ممالک سے خطرہ لاحق ہے۔ وہ اسے نہیں سمجھتے ۔ ان کی تمام معلومات کی بنیاد میڈیا ہے جو کہ تقریباً منفیت سے بھری ہوئی ہے۔ کینتھ پولّک کے مطابق اکثر امریکی یہ سوچتے ہیں کہ مسلمان ان سے نفرت کرتے ہیں ۔ وہ امرکیوں کو صرف اس لئے مارتے ہیں کیونکہ وہ امریکی ہیں ۔ وہ امریکہ کو ، اس کے معاشرے کو اور اس کی روایت کو صرف اس وجہ سے تباہ کرنا چاہتے ہیں جو کہ وہ ہے ۔عام طور پر یہ تمام چیزیں مسلسل پولّک کے اندر ڈر اور غصے کا غیر معمولی احساس اور مسلمانوں کے تئیں دشمنی پیدا کر رہی ہیں ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دینا کے ایک ایسے حصے کی طرف توجہ دلانے کی کوشش میں 9/11 جیسےایک عظیم واقعے کو انجام دیا گیا، جس سے اکثر امریکیوں کا کوئی خاص تعلق نہیں تھا ستمبر میں کئے گئے حملے سے پہلے امریکیوں کے علم اور مغربی ممالک میں شاید ہی مسلم دنیا کا کوئی وجود تھا ، لیکن 9/11 کے بعد ان کے علم میں مسلمانوں کا وجود آیا ۔2
گللپ سینٹر فار مسلم اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سینئر تجزیہ کار دالیا موگهید اس ڈرامائی اور ہولناک دن کی اپنی یادوں کو اس طرح پیش کرتی ہیں ۔‘‘ میں بالکل حیرت زدہ تھی ۔ میں اپنے شوہر سے بھی بات نہیں کر سکتی تھی۔ ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا سوچیں اور کس چیز کی امید رکھیں ۔صرف ایک چیز جو میں نے کہی وہ مجھےیاد ہے کہ ‘‘اے خدا یہ مسلمان نہ ہو ں’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘مجھے اس بات کا خوف تھا کہ مجھے ان لوگوں کے ساتھ نہ جوڑ دیا جائے جنہوں نے اتنا خطرنا ک کا رنامہ انجام دیا ہے ۔ لوگ دہشت زدہ اور غضبناک تھے ، تاہم ہم بھی خوف زدہ تھے’’۔
گلپ ورلڈ پول کے علاقائی ریسرچ ڈائریکٹر فخرالدین کے مطابق جہاد کا مطلب ،ایک ایسا عمل جو ٹون ٹاور کے زمین بوس ہونے کی وجہ بنا، صرف امریکہ پر حملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو عرب دنیا (مسلم دنیا پڑھیں) اور مغرب کے درمیان مکمل علیحدگی کی وجہ بنا ۔
رائے شماری کا عمل
سروے کے لئے اکثر مسلم ممالک کا انتخاب کیا گیا تھا ۔ اس سروے کو مسلم رائے شماری کا انتہائی جامع اور مکمل سروے بناتے ہوئے صرف مشرق وسطی ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور شمالی افریقہ کو خاص طور پر منتخب کیا گیا تھا جہاں عالمی مسلم آبادی کا90% حصہ آباد ہے ۔
سولات کا تعلق بنادی طور پر ان معاملات سے تھا جو ان لوگوں کے لئے اہم تھے ،وہ جن اقدار کے حامل ہیں ، وہ اپنے بچوں کو کس چیز کی تعلیم دینے کو سب سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں ، وہ کس چیز کو خود اپنی سوسائٹی میں معزز گردانتے ہیں اور وہ خود اپنی پیش قدمی میں کس چیز کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ وہ مغرب اور بالخصوص امریکہ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔
دراصل گلپ آرگنائزیشن کے حوصلہ مند ممبران لوگوں کے گھروں تک گئے ۔ٹیلی فون اور انٹر نیٹ کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے لوگوں کے درازوں پر دستک دی ، گھنٹوں فیملی کے ممبران کے ساتھ بتائے ۔انہوں نے انہیں سمجھنے کی کو شش کی ، ان سے اس بارے میں بات کی کہ ان کے لئے کون سی چیزیں واقعی اہم ہیں ۔ سوالات مقامی زبان میں تھے اور جہاں کہیں ممکن ہو سکا وہاں سوالات مقامی لب و لہجے میں تھے ۔
انٹر ویو لینے کے لئے مردوں اور عورتوں کی ایک مخلوط ٹیم بنائی گئی۔ کچھ ممالک میں عورتوں سے انٹرویو لینے کے لئے عورتوں کو ہی مقرر کیا گیا تھا جس کی سب سے اچھی مثال سعودی عرب ہے اور بالکل یہی طریقہ چند ممالک کے کم ترقی یافتہ اور قدامت پسند علاقوں میں استعمال کیا گیا تھا جہاں علاقائی معیار کو ذہن میں رکھتے ہوئے جنسی اختلاط کو اب بھی ایک گناہ سمجھا جاتا ہے۔
انٹرویو جوان اور بوڑھوں ، تعلیم یافتہ اور نا خواندہ ، مردوں اور عورتوں سے لیا گیا تھا ۔ انٹرویو لینے والوں کا لوگوں کے گھروں تک جانے کی وجہ یہ تھی کہ مسلم ممالک کے مختلف علاقوں میں اجنبیوں سے کھل کر باتیں کرنا اب بھی ایک مشکل کام ہے اسی لئے لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت پیش آئی تاکہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آزادانہ طور پر اپنی بات رکھ سکیں ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
1. http://www.gallup.com/strategicconsulting/en-us/worldpoll.aspx
2. http://www.gallup.com/poll/5380/gallup-poll-islamic-world.aspx
نوٹ: اس مضمون کے بیشتر مواد سروے سے لئے گئے ہیں تاہم جہاں کہیں بھی ضرورت پیش آئی میں نے اس میں حذف و اضافہ کیا ہے ۔ بہت سی جگہوں پر میں نے بالکل اسی ترکیب کا استعمال کیا ہے۔ سروے اس بارے میں نہیں ہے کہ ‘مسلم ایسا کیوں سوچتے ہیں ’ بلکہ اس بارے میں ہے کہ ‘وہ کیا سوچتے ہیں’۔
http://www.youtube.com/watch?v=aGonyARCv7k
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/muslims-really-think-(part-i)/d/14223URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muslims-really-think-(part-i)/d/14326