ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
31 جنوری 2014
شریعت کی ایک اور نمایاں شبیہ جو لوگوں کے ذہنوں میں گھر کر چکی ہے وہ یہ ہے کہ شریعت میں بربریت اور وحشیت کا پہلو غالب ہے۔ اس کا مقصد صرف لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا، ان کے اعضاء کاٹنا اور انہیں سولی پر لٹکانا ہی ہے۔ مختصر یہ کہ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ شریعت ‘‘وحشت و بربریت’’ سے پر ہے۔
لوگوں نے شریعت کے متعلق جو یہ نظریہ قائم کر رکھا ہے اس سے نمٹنے کے مختلف طریقے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسے یہ نتیجہ نکالنے کا حق ہے کہ شریعت کا رویہ بربریت، سختی، غیر ہمدردی اور ظلم سے بھرا ہوا ہے؟ کیا شریعت کی اس تعریف پر کوئی مکمل اتفاق رائے قائم ہو چکی ہے؟ اور کیا اس معاملے میں گفتگو اور مکالمہ مکمل ہو چکا ہے؟ نہیں بلکہ اس موضوع پر مباحثہ اور مناقشہ جاری ہے۔
مثال کے طور پر سزائے موت کا ہی مسئلہ دیکھ لیں۔ سزائے موت کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سزائے موت‘‘حقوق انسانی سے قطعی طور پر انکار ہے’’ یہ ایک ‘‘مہیب، غیر انسانی اور ذلت آمیز سزا ہے’’۔ 1 لیکن اس دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک یعنی امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں موت کی سزا کا قانون ہے اور یہاں اب تک 264،1 سے زیادہ لوگ تختہ دار پر چڑھائے جا چکے ہیں۔ 2
سزاؤں کی ‘‘درجہ بندی’’ کرنے کا حق کسے ہے جو یہ کہے کہ ‘‘ہاں یہ سہی ہے’’؛ ‘‘نہیں یہ غلط ہے’’؛ ‘‘یہ ظلم و بربریت سے بھرا ہوا ہے’’ وغیرہ وغیرہ؟ یہ جذبات کے بہاؤ کے علاوہ ایسی کوئی اتھارٹی یا ایسا کوئی پیمانہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر کوئی انسان معروضی طور پر سزاؤں کی درجہ بندی کر سکے۔
دوسری بات، ہمارا سوال یہ ہے کہ ‘‘نرمی’’ کا کیا نتیجہ رہا ہے؟ کیا ‘‘نرمی’’ کا استعمال کر کے مجرموں کی راہ مسدود کی جا سکتی ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ کون یہ یقینی طور پر بتا سکتا ہے کہ کس قسم کی سزا زیادہ ‘‘غیر انسانی’’ ہے،کسی مجرم کو 80 کوڑے مارنے میں زیادہ ‘‘سنگ دلی اور غیر ہمدردی’’ ہے یا اس مجرم کو 10 یا 15 سالوں تک جیل کے اندر دوسرے سخت گیر مجرموں کے ساتھ رکھنا اور اس طرح انہیں اور بھی زیادہ جرائم سیکھنے کا موقع فراہم کرنا زیادہ ‘‘غیر انسانی’’ ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ایک ایسے انسان کو جو سنگین جرائم کا ارتکاب کر تا ہے اور زندگی، عزت و ناموس اور غناء و خوشحالی جیسے بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں پامال کرتا ہے کیا حق دیا جانا چاہیے یہی کہ اس کے اندر یہ کہنے کی ہمت ہو کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مجھے سزا دے اس لیے کہ یہ انسانی حقوق اور عزت و وقار کا معاملہ ہے؟ جب اس مجرم نے دوسرے انسانوں کے حقوق کا احترام نہیں کیا تو وہ دووسروں سے اس بات کی امید کیوں کر لگا سکتا ہے کہ وہ اس کے حقوق کا احترام کریں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ جب ہم شریعت اسلامیہ میں پائی جانے والی سنگین ترین سزاؤں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ ان سزاؤں کا نفاذ اسلام میں انتہائی محتاط اور پورے کنڑرول کے ساتھ کیے جانے کا حکم دیا گیا ہے اس مسئلے میں چند پہلو ہیں جنہیں واضح کیا جا نا ضروری ہے۔ میں ان کا مختصر خاکہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ جب کسی سخت شرعی قانون کا نفاذ کیا جائے تو اس کا یہ تقاضہ ہے کہ اس کا نفاذحاکم و محکوم دونوں پر یکساں کیا جانا چاہیں۔ آپ حاکم اور ان کے ہم نشینوں کو سزا نہیں دیتے اور ان کے جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ اس تعلق سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان انتہائی واضح ہے:
‘‘تم سے پہلی قوموں کو اس لیے تباہ و برباد کر دیا گیا کیوں کہ وہ غریبوں اور ناداروں پر قانونی سزائیں مسلط کرتے تھے اور قوم کے سرمایا داروں کو معاف کر دیتے تھے۔ رب ذالجلال کی عزت کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر میری بیٹی فاطمہ نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا’’۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو دوسروں کی اخلاقی لغزش کی رپورٹ کرنے کا اتنا زیادہ اشتیاق مند نہیں ہونا چاہیے۔ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بھی شخص کو دوسروں کی اخلاقی لغزشوں کی شکایت حکام سے کرنے میں بہت زیادہ سرگرم نہیں ہونا چاہیے۔ روایتوں میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ ان لوگوں کے عیوب کی پردہ پوشی کرے گا جو دوسروں کی غلطیوں اور لغزشوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر چہ جج یا حاکم کے پاس کسی کے جرم کی رپورٹ درج بھی کرا دی جائے تو جج یا حاکم کو اس مجرم کے لیے سزا سنانے کا بہت زیادہ شوقین نہیں ہونا چاہیے۔اس تعلق سے دو ذیلی شقیں ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا جرم کیا جاتا ہے جس کی سزا قرآن میں متعین کر دی گئی ہے مگر جس شخص نے جرم کیا ہے مثلاً زنا کیا ہے، وہ اس جرم کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہا ہے تو اس صورت میں اس شخص کو سزا نہیں دی جانی چاہیے۔
ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھ سے ایک ایسا جرم سرزد ہوا ہے جس کی ایک متعین سزا ہے۔ لیکن اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نہیں بتایا کہ اس کا جرم کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس بارے میں کچھ پوچا بھی نہیں۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز میں شامل ہونے کے لیے کہااور نماز کے بعد پھر اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں نے ایک ایسا جرم کیا ہے کہ جس کے لیے مجھے سزا کی ضرورت ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ‘‘تم نے ہمارے ساتھ نماز ادا کی اور اللہ نے تمہیں معاف کر دیا’’ (ایک روایت میں ہے کہ ‘‘اللہ نے تمہارے گناہوں کو معاف کر دیا’’)۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مجرم نے اپنے جرم کا تعین کر دیا ہو۔ اس صورت میں بھی حاکم یا جج کو سزا دینے میں سرعت سے کام نہیں لینا چاہیے اور انہیں اس شخص کو اصلاح کرنے کا ایک موقع دینا چاہیے۔
ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہوا اور کہا کہ ‘‘ائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے’’۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنا چہرا پھیر لیا، گوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سننا ناگوار گزرا۔ وہ شخص بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ‘‘ائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے’’؛ اس نے ایسا چار مرتبہ کیا (جس سے اس بات کی طرف بھی اشارہ مل گیا کہ اس نے خود اپنے خلاف ہی چار گوہی پیش کر دی) اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘کیا تم پاگل ہو؟’’، اس شخص نے کہا ‘‘نہیں’’؛ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘کیا تم شادی شدہ ہو؟’’ تو اس شخص نے جواب دیا ‘‘ہاں’’۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بری کرنا چاہا۔ لیکن بات اب بہت آگے جا چکی تھی۔ وہ شخص کسی بھی وقت تائب ہو سکتا تھا، اس معاملے کو نظر انداز بھی کیا جا سکتا تھا لیکن وہ شخص سزا پانے کا شوقین تھا۔ آخر کار اسے سزا دے دی گئی۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سزا سنائے جانے کے بعد بھی تائب ہو جائے تو وہ سزا سے بری کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر مجرم پر سزا کا اجرا کر دیا جائے اور وہ خود پر قابوں نہ رکھ سکے اور کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہو جائے تب بھی اسے معاف کر دیا جانا چاہیے۔
اگلا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ اسلام میں شہادت پیش کرنے کے قوانین بہت سخت ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ زنا کے مسئلہ میں ایسے چار گواہوں کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے سارا ماجرا دیکھا ہو اور وہ چارو اپنی شہادت پر قائم بھی ہوں اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنا ذہن بدلا تواان چاروں کو سزا دی جا سکتی ہے۔ نمبر دو: حمل کو زنا کی ایک اٹل شہادت نہیں قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عمل باہم رضامندی سے انجام نہیں دیا گیا ہو۔ یہ مسئلہ زنابالجبر کا بھی ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر عورت خود یہ کہے کہ اسے مجبور کیا گیا تھا پھر بھی اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ لہٰذا ستم رسیدہ کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے بلکہ سزا صرف مجرم کو ہی ملنی چاہیے۔
‘‘اگر کسی مسئلہ میں ذرا بھی عذر کی گنجائش ہو یا شک و شبہ پایا جائے سزا دینے یا پانے سے حتیٰ المقدور بچنا چاہیے۔ انہیں چھوڑ دینا چاہیے؛ اس لیے کہ سزا دینے میں غلطی کرنے کے بجائے جج کے لیے رہا کرنے میں غلطی کر جانا بہتر ہے’’۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
1. https://www.amnesty.org/en/death-penalty
2. http://en.wikipedia.org/wiki/Capital_punishment_in_Texas#cite_note-1,http://users.bestweb.net/~rg/execution/TEXAS.htm, http://www.tdcj.state.tx.us/stat/executedoffenders.htm
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/sharia-its-objectives-(part-3)/d/35518
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/sharia-its-objectives-(part-3)/d/35894