ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
22 اکتوبر 2014
"انسان اپنے رب سے اس وقت سب سے قریب ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتاہے۔"
ایمان کی شہادت دینے کے بعد نماز اسلام کا دوسرا ستون ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس اسلام قبول کرنے کے لیے آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی شہادت کے بعد سب سے پہلی چیز جو انہیں سکھانے میں مدد کرنے کےلیے دوسروں کو حکم دیا وہ نماز تھی۔
قرآن مجید میں نماز کا ذکر بکثرت موجود ہے اور اکثر اس کا ذکر قرآن میں زکوة کے ساتھ ہوا ہے۔ اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ 'زکوٰة' کا لفظی معنیٰ طہارت اور ترقی ہے اور زکوة اور نماز دونوں میں طہارت اور ترقی مضمر ہے۔
اگر ہم نماز سے متعلق بے شمار قرآنی آیات پر نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوگا کہ تقریبا ان تمام آیات میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ نماز انفرادی طور پر عبادت کا ایک عمل ہےلیکن قرآن کے مطابق یہ عبادت کا ایک اجتماعی عمل بھی ہے اور اس کے اہم مضمرات ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن اور غیر مومن کے درمیان خط امتیاز نماز کو نظر انداز کرناہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے نمازکے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر "نماز درست ہوگی تو اعمال مقبول ہوں گے"۔ بارہا ایسا ہوا کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھنے آئے کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے تو آپ نے فرمایا "نماز"۔
جب ہم قرآن کریم کا بخوبی مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ نماز قوم مسلم کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے کہ نماز تمام پیغمبروں پر واجب تھی۔ توحید پرستی کی تاریخ میں ابراہیم علیہ اسلام کو بڑی اہمیت حاصل ہےاگر چہ وہ اولین توحید پرست نہیں تھے۔ ان کی ایک مشہور دعا قرآن میں اس طرح مذکور ہے: "اے اللہ مجھے اور میری ذریت کو نماز قائم کرنے والا بنا۔"
ان کی اولاد حضرت اسماعیل بھی اپنی اس ذمہ داری پر پوری طرح قائم رہے۔ قرآن مجید نے انہیں اپنے خاندان پر نماز اور زکوة کا حکم دینے والا بیان کیا ہے ۔ دراصل قرآن مجید میں جہاں ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹوں کا ذکر ان پر خدا کی نعمتوں کے ذکر کے ساتھ ہے تو اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ ہم انہیں اچھے اعمال اور نماز کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
قرآن غیر انبیاء اور یہاں تک کہ عورتوں کے بارے میں بھی نماز قائم کرنے کی بات کرتا ہے۔ قرآن عیسی علیہ السلام کی ماں حضرت مریم کو حکم دیتا ہے : "اے مریم! تو اپنے رب کی اطاعت کر اور سجده کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر"۔
اب ہم رسوم پرستی کے سوال پرگفتگو کرتے ہیں۔ بسا اوقات ہم یہ سنتے ہیں کہ مسلمان روایت پسند ہوتے ہیں اور ان کی نمازیں محض ایک قسم کی جسمانی ورزش ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک ظاہری دکھاوا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان صرف ظاہری جسمانی وضع قطع پر دھیان دیتے ہیں اور باطن کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو صرف روایت پرست نہیں ہوتے بلکہ اس کا تو اسلامی تعلیمات سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مخصوص ہدایات پر رسماً عمل کرتے ہوں لیکن اسے رسوم پرستی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
نماز کیوں ادا کی جانی چاہیے؟ قرآن مجید ہر وقت اور ہر لمحے خدا کو یاد کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اٹھنا بیٹھنا اور تمام برے کام کرنا نماز نہیں ہے۔ دوسری وجہ رسوم پرستی سے گریز کرنا ہے جسکی وضاحت خود قرآن کرتا ہے۔ یقینا نماز انسانوں کو بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اسی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے "کہ اگر نماز انسان کو بے حیائی اور برے کاموں سے نہیں روکتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نماز مقبول نہیں ہوئی"۔
"اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کی یاد سے دل کو آرام ملتا ہے"۔
URL for English article:
https://newageislam.com/spiritual-meditations/the-second-pillar/d/99705
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-second-pillar-/d/100041