New Age Islam
Fri Jan 17 2025, 07:31 AM

Urdu Section ( 8 Jun 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Slavery is Equivalent to Jihad in Saudi Arabia غلامی سعودی اسلام میں جہاد کے مماثل ہے

ایمن ریاض،  نیو ایج اسلام

7 جون، 2012

(انگریزی سے ترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)

2003 میں اعلی سطح کے سعودی عرب کے ایک قانون داں، شیخ صالح امام الفوزان نے ایک فتوٰی جاری کیا جس میں انہوں نے دعوٰی کیا کہ "غلامی اسلام کا ایک حصہ ہے۔  غلامی جہاد کا حصہ ہے، اور جہاد تب تک باقی رہے گا جب تک کہ اسلام ہے۔" انہوں نے الگ رائے رکھنے والے مسلم علماء کی تنقید کی اور  اپنی بات پر قائم رہے کہ،" وہ جاہل ہیں، علماء نہیں ہیں ... وہ محض لکھنے والوں میں سے ہیں۔  لھٰذا جو بھی اس طرح کی باتیں کہتا ہے وہ کافر ہے۔ "

کیا یہ اس "اسلامی" ماحول میں کوئی تعجب کی بات ہے تب جب کہ  ایک ہندوستانی تمل پیریا سامی جیسے کی کہانی اکثر سامنے آتی ہے۔ آیئے  ہم چند سیکنڈ پیریا سامی  کی کہانی سننے کے لئے صرف کریں اور  سعودی عرب کے جانور صفت انسان  کے ذریعہ اس کی زندگی تباہ کرنے پر ماتم کریں، سعودی عرب کے یہ لوگ خود کو سب سے زیادہ خالص مسلمان کہتے ہیں۔ ہم اس بات کو  بھی اپنے ذہنوں میں رکھیں کہ پیریا سامی ان  بہت سے لوگوں میں سے ایک ہے جن کی زندگیوں کو  اس طرح سے  ہزاروں اسلامی ممالک کے مقابلے اس  مقدس ملک میں زیادہ تباہ کیا جا رہا ہے۔ پیریاسامی تب صرف 28 سال کا تھا جب اس نے تمل ناڈو میں  اپنی بہترین زندگی اور  اپنی بیوی کو سعودی عرب کے ایک امیر زمیندار کی بکری اور اونٹوں کی دیکھ بھال  کی پرکشش تنخواہ والی نوکری کے  وعدہ پر  چھوڑ دیا تھا۔  لیکن ایک بہتر زندگی کے وعدے نے  اس سے اس کی زندگی کے 20 سال اور  اس کی بیوی چھین لی، اور اب وہ جسمانی، اقتصادی نفسیاتی اور سماجی طور پر پہلے سے اور بھی زیادہ  بدتر حالت میں ہے۔

یہ المناک کہانی کئی ہندوستانی تارکین وطن مزدوروں کے حالات  پر روشنی ڈالتی ہے جو  مزدوروں کے سوداگروں   کے اچھی اجرت کے جھوٹے وعدہ پر خلیجی ممالک میں جاتے ہیں۔ انہیں غلام تو نہیں کہا جاتا ہے لیکن اصل میں ان کے ساتھ ویسا ہی برتائو کیا جاتا ہے۔

زیادہ تر مہاجر مزدور  ناخواندہ ہوتے ہیں، لہذا ان کو بیوقوف بنانا آسان ہوتا ہے اور مزدوروں کے سوداگروں کے  یہ  آسان شکار  ہو جاتے  ہیں۔ پیریا سامی کا معاملہ بھی  ایسا ہی  تھا، وہ پڑھا لکھا نہیں تھا اور دھوکے سے  اس سے  20 سال کے لئے مزدوری کے بانڈ پر دستخت کرا لیا گیا۔ اگلے 17 سال کے لئے اس کا  پاسپورٹ قبضے میں کر  لیا گیا، اسے کوئی تنخواہ نہیں دی گئی اور  اس سےعلی الصبح سے آدھی رات تک کام لیا  جاتا تھا اور دن بھر میں صرف  ایک وقت کھانا دیا جاتا تھا۔

پیریا سامی کو ملازم رکھنے والے شخص کے ایک پڑوسی نے اس کی گرتی صحت کو دیکھ کر  مقامی حکام کو مطلع کیا ، جنہوں نے ہندوستانی قونصل خانے کو بتایا۔ اس کی ہندوستان  واپسی میں تاخیر ہوئی کیونکہ اسے  اپنے گاؤں کی تفصیلات یاد نہیں رہ گئیں تھیں۔ پیریا سامی، جو سوچا کرتا تھا کہ وہ قزاق عربوں کے چنگل سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ اس کی خوشی کے آنسوں کڑواہٹ میں  تبدیل ہو گئے جب اسے پتہ چلا کہ اتنے سالوں تک انتظار کے بعد اس کی بیوی نے اپنے خاندان والوں کے دبائو میں  گزشتہ سال شادی کر لی۔

سعودی عرب غلامی کا ایک مرکز

سعودی عرب میں جبکہ غلامی باضابطہ طور پر غیر قانونی ہے، منظم مجرموں کے گروہ بچوں، جاہل مردوں اور خوبصورت عورتوں کی سعودی عرب میں اسمگلنگ کرتے ہیں جہاں انہیں غلام بنا کر رکھا جاتا ہے اور ان کا استعمال جسمانی لطف کے لئے کیا جاتا ہے اور انہیں بھکاریوں کے طور پر کام کرنے کے لئے مجبور کیاجاتا ہے۔ جب ان کی حالت زار دریافت ہو جاتی ہے تو انہیں غیر قانونی غیر ملکی کے طور پر جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے مطابق، "سعودی عرب،  جنوبی اور مشرقی ایشیا اور مشرقی افریقہ سے مردوں اور خواتین کا بطور مزدور استحصال کرنے کا مرکز  ہے  اور  یمن، افغانستان، اور افریقہ  کے بچوں کو  جبری بھیک مانگنے کے لئے یہاں  اسمگل کیا جا تا ہے۔"

پوری دنیا سے  کم ہنر مند مزدور خاص طور سے  ہندوستان، انڈونیشیا، فلپائن، سری لنکا، بنگلہ دیش، ایتھوپیا، اریٹیریا، صومالیہ اور کینیا سے  رضاکارانہ طور پر سعودی عرب ہجرت کرتے ہیں، کچھ غیر ارادی طور پر  غلامی کی حالت سے دو چار ہو جاتے ہیں اور جسمانی و جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں،  اجرت کی عدم ادائیگی یا تاخیر سے ادائیگی، سفری دستاویزات کو ملازم رکھنے والا  اپنے پاس روک کر رکھتا ہے، ان کے کہیں بھی آنے جانے پر پابندی ہوتی ہے اور  بغیر رضامندی کے  معاہدہ میں  تبدیلی ہو جاتی ہے۔

اصل میں قرآن کیا کہتا ہے؟

یہ تعجب کی بات نہیں ہے  کہ ایک ایسے ملک میں جہاں نام نہاد اسلامی علماء کرام، غلامی کو  مذہب کا اہم حصہ مانتے ہیں،  اور جہاد کے  جیسا ضروری مانتے ہیں، جسے وہ اسلام کا چھٹا ستون کہتے ہیں۔  تاہم، جو کچھ بھی سعودی اسلام یا وہابی اسلام کی تعلیمات ہو ، جس پر وہ لوگ عمل کرتے ہیں، لیکن مرکزی دھارے کے مسلمانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اسلام اس طرح کے عمل سے مسلمانوں کو باز رکھنے کی  ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور غلاموں کو آزاد کرنے اور خدا کی رضا حاصل کرنے  کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قرآن کئی مقامات پر غلامی کے خلاف بولتا ہے، ساتویں صدی کے عرب کے ریگستان میں موجودہ رواج کے مطابق ایسے غلام جو  جنگ میں مال غنیمت کے طور پر  پکڑے گئے ہوں..  ان کو آزاد کرنے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے، متعدد مواقع پر  ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے غلاموں کو خریدا اور انہیں آزاد کیا ہے۔ مالکوں کے ذریعہ غلاموں کو آزاد کرنے کو قرآن اور حدیث نے قابل تعریف عمل بتایا ہے۔ غلاموں کو  آزاد کرنے کے لئے انہیں خریدنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

مرے گورڈن، جنہوں نے اس موضوع پر وسیع پیمانے پر تحقیق کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ: " ایک متقی اور پرہیزگار مسلمان اور  ساتھ ہی غلام کے مالک کے درمیان کوئی تضاد نہیں تھا"۔  وہ درست فرماتی ہیں، لیکن آج کی دنیا میں ان کا نتیجہ قابل  اطلاق نہیں ہے۔  حلال غلامی، دومثالوں تک محدود ہے: جنگ میں پکڑا گیا (شرط ہے کہ قیدی  مسلمان نہ ہو)، یا غلامی میں پیدا ہوا ہو۔

موجودہ منظر نامے میں کسی بھی انسان کو غلام بنانا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ غیر اسلامی بھی ہے۔

اسلام میں سب سے بہترین نیکی جو ایک شخص کو دوسرے سے ممتاز بناتی ہے، وہ تقوی یا پرہیز گاری ہے۔ قرآن  کریم  تقوی کی وضاحت اس طرح کرتا ہے۔  باب 2،  آیت 177  اللہ تعالی پر زور طریقے سے فرماتا ہے:

" نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں "۔

اور  باب 90 میں اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ:

"اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہے۔"

وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہے۔"

یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے"۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ، "  جو شخص کسی غلام کو آزاد کرتا ہے، اللہ اس کے جسم کے تمام حصے کو آگ سے بچائے گا، جیسا اس نے  غلام کے جسم کے حصوں کو آزاد کیا ہے۔" (بخاری، جلد 3، حدیث نمبر 693)

اگر یہ اسلام ہے جس پر  کہ اعلی سطح کے سعودی عرب کے قانون داں شیخ صالح امام الفوزان  یقین رکھتے ہیں تو انہیں اس فتوٰی کو جاری نہیں کرنا تھا جو  کہتا ہے کہ،  غلامی کو اسلام کا حصہ کہتا ہے، جہاد کا ایک حصہ کہتا ہے اور یہ تب تک رہے گا جب تک کہ اسلام رہے گا۔  اور نہ وہابی اسلام کے مرکز سعودی عرب نے  اپنے ملک میں غلامی پر عمل کو فروغ دینے کی اجازت دینی تھی۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-society/aiman-reyaz,-new-age-islam/slavery-is-akin-to-jihad-in-saudi-islam/d/7559

URL: https://newageislam.com/urdu-section/slavery-equivalent-jihad-saudi-arabia/d/7570

Loading..

Loading..