ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
‘نماز(عبادت کرنے کا اسلامی طریقہ) کی ادئیگی کے دوران میرے ہاتھ کہاں ہونے چاہئے؟ ‘ کیا مجھے شہادت کی انگلی اٹھانی چاہئے ؟ کیا مجھے آمین زور زور سے بولنا چاہئے یا دل میں ؟’ یہ کچھ معمولی سوالات ہیں جو کہ اکثر عام اور کم پڑھے لکھے مسلمانوں کو پریشان کرتے ہیں ۔
‘ کیا مجھے اپنی بیٹی کو کانوینٹ اسکول کی "شیطانی سیکولر" تعلیم سے الگ کر دینا چاہئے؟ ' کیا امریکہ اور اسرائیل اسلام کو تباہ کرنے کی سازش کررہے ہیں '؟ ‘ کیا مجھے کافروں کے خلاف مقدس جنگ چھیڑ دینی چاہئے ، جیسا کہ ہماری مسجد کے امام اس کا مطالبہ کرتے ہیں ؟ یہ کچھ اہم سوال ہیں جو کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو پریشان کر رہے ہیں۔
مسئلہ
قرآن دنیا میں وسیع پیمانے پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، لیکن یہ ایک ایسی کتاب بھی ہے جو سمجھے بغیر پڑھی جاتی ہے، اس لئے کہ 80 فیصد مسلمان قرآن کی زبان ، عربی ، نہیں سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کی اکثریت کو قرآن کے بارے میں بہت کم علم ہے ، یا اس کے بارے میں علم ،ایک مولانا سے حاصل کرتے ہیں ، جن کے انداز فکر کے بارے میں ، کم سے کم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ، وہ بہت ہی محدود اور انفرادیت پسند ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگو کو یہ پتہ نہیں ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور کس کی بات سننی چاہئے ۔ مسلم دنیا کو پڑھنا نا پسند ہے، تو ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم ایک آسان راہ اختیار کرتے ہیں، ہم غیر معتبر معلومات پر اعتماد کر لیتے ہیں ، اور وہ یہ ہے کہ ہم مولانا کی بات سنتے ہیں ، اور ان کے اقوال پر عمل کرتے ہیں ، خاص طور پر اپنے ہی ، فرقے کے عالموں کی باتوں پر عمل کرتے ہیں ، یعنی، اگر ہم وہابی حنفی ہیں تو جمعہ کے دن وہابی / حنفی کی ہی مسجد میں جائیں گے اور ان کی باتیں سنیں گے ، اور اسلام کے بارے میں ان کے ذریعہ کی گئی تشریح پر عمل کریں گے ۔ یہی چیز مزید تقسیم پیدا کرتی ہے۔
یہ میں اپنے چاروں طرف دیکھتا ہوں ، کہ ایک مالکی اس مسجد میں نماز ادا نہیں کرے گا ،جس کا امام شافعی ہے ۔ عام طور پر میں یہ سنتا ہوں کہ وہ ایک "ہری پگڑ ہے " (وہ ایک سبز ٹوپی پہنتا ہے ) یا "آدھا مسلمان " (نصف مسلم) ہے ، کیونکہ اس کی مونچھیں اچھی طرح تراشی ہوئی نہیں ہیں ۔ ہر مکتب فکر کے لئے، ‘دوسرے مکتب فکر کے لوگ ’ اگر مشرک نہیں ، توآدھے مسلمان ضرور ہیں ۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ مسلم دنیا کی حالت بہت خراب ہے۔
ہمارے چاروں طرف تفریق ہے۔ مسلمان مجموعی طور پر پوری دنیا کو ‘مسلم ’ اور ‘غیر مسلم’ میں تقسیم ، کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،اور مسلمانوں کے درمیان بھی ذیلی تقسم ہیں۔ جو عام طور پر کم پڑھے لکھے مسلمانوں کے درمیان تذبذب پیدا کرتی ہیں۔ وہ ،ہم میں سے اکثر کی طرح ان مکتب فکر پر عمل کرنا جاری رکھتے ہیں ، جن پر ہمارے آباؤ اجداد عمل کرتے تھے ۔ کوئی تفتیش نہیں ، کوئی شک نہیں، اور نہ ہی کوئی غور و فکر ۔
حل
اسلام اتحاد کو فروغ دیتا ہے، صرف مسلمانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ مسلموں اور غیر مسلموں کے درمیان بھی۔
قرآن 103 :3 میں کہتا ہے :
"اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ "
ہم سب کو "خدا کی رسی" کو تھامنے کی ضرورت ہے۔ میرے مطابق ، اس کا مطلب ، خدا کے احکام پر عمل کرنا ہے ، جو کہ مختلف وحی میں اس کی طرف سے موقع بموقع نازل کئے گئے ہیں ، اور اس کا مطلب، ان انبیاءکی تعلیمات پر عمل کرنا بھی ہو سکتا ہے ، جو ہر قوم کے لئے بھیج گئے تھے ۔
تمام مقد کتابیں اللہ کے ذریعہ بھیجی گئی ہیں ، اور صرف ایک ہی بنیادی اور عام بات کی تبلیغ کرتی ہیں ، اور وہ ایک خدا میں یقین رکھنا اور نیک عمل کرنا ہے، تا کہ جنت کا حقدار ہو سکیں ۔
مجھے یقین ہے کہ ،ان تمام تقسیم اور نفرت کا علاج ، اس کی مذہبی کتاب کو سمجھ کر پڑھنا ہے ۔ اس روئے زمیں پر کو ئی ایسا اہم عالمی مذہب نہیں ہے کہ جس میں فرقے نہ ہوں ۔ فرقے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ مذہب کے پیروکار ، سیاسی، مالیاتی اور فوجی مقاصد کے لئے مذہب کی حقیقی، شائستہ اور خدا ئی راہ سے منحرف ہو جاتے ہیں،انہو نے ،ان کے اپنے فائدے کے لئے ،فرقے پیدا کئے ۔ بوجھ ،نسبتا کم تعلیم یافتہ انسان پر ہوتا ہے ، جو اس تقسیم کے بعد خود کو ایک تاریکی میں پاتے ہیں ، خاص طور پر زیادہ اس لئے، کیونکہ فرقوں میں سے کچھ ‘‘مومنوں کی جماعت ’’ سے مضبوط، فوری اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
ان میں سے ایک سعودی وہابی ہیں ۔ اپنے وسائل کی کی افراط کی بنا پر ، وہ خاص طور پر جمعہ کے دن اپنی نفرت کی اشاعت کرتے ہے ۔ اوروہ مفت میں ، ایسی کتابیں چھاپتے اور تقسیم کرتے ہیں ، جو 'ان' کے متعلق ،یعنی ،مغرب اور غیر مسلموں کے متعلق سازشوں اور نفرت سے سے بھرےہوتے ہیں ۔ اس مسجد ،جہاں میں عام طور پر جاتا ہوں ، کے خصوصی پسندیدہ مولانا نے چند ہفتے پہلے کہا کہ کہ کانوینٹ اسکول مسلمان طلبا کو ،اسلام کا مذاق بنا کر،اور مسیح (علیہ السلام ) کی تعریف کر کے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فکر مند اور "سچے مسلم" والدین کو ان کے بچوں کو "شیطانی ا سکولوں" میں جانے سے روکنا چاہئے ۔ مجھے جو چیز سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ، مسجد میں بچے بھی اپنے والد کے ساتھ آتے ہیں ، وہ (معصوم بچے) بھی زہریلے بیانات سنتے ہیں ۔ ان کا یہ طرز فکر ان کی سوچ کو بگاڑ دےگا۔
جہاں میں رہتاہوں وہاں بھی ،مین روڈ میں ایک مسجد ہے ،اور لاؤڈ اسپیکر کو سڑک کی طرف کر دیا گیا ہے ۔ تقریبا ہر ہفتے میں اس طرح کے جملے سنتا ہوں "ہمارے حقوق کو دبایا جا رہا ہے " اور جس جملے نے مجھے دہشت زدہ کر دیا اور مجھے امام سے نفرت کر نے پر امادہ کر دیا وہ یہ ہے ، ‘ ہم جس دیش میں رہتے ہیں وہاں مانگنے سے کچھ نہیں ملتا ، بلکہ چھیننے سے ملتا ہے’ ۔ اور یہ ساری چیزیں لوگ باہر سنتے ہيں، اورکوئی بھی مسلمانوں کے لئے، ان کے چہروں پر ،آسانی سے نفرت دیکھ سکتا ہے ۔ اسی مسجد میں جمعہ کے دن ، بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے، بہت سے مسلمان سڑک پر نماز ادا کرتے ہیں ، اور وہ بالکل نصف سڑک کا احاطہ کر لیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوتا ہے۔
میں مکمل طور پر اس کے خلاف ہوں، اور اگر مذہب سیکولر امور میں مداخلت کرتا ہے، تو مذہب کو ،سیکولر سانچے میں ڈھالا جانا چاہئے۔ لیکن میں اس کے بالکل برعکس دیکھتا ہوں ۔ جدید سیکولر کو ، پرانی مذہبی، کے مطابق تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا: ‘‘کیا ہم واقعی ترقی کر رہے ہیں ’’
مکمل طور پر بدعنوان کی موجود گی میں ، میں سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی نہیں دیکھتا ۔ عام مسلمانوں کو ، تیزی سے بنیاد پرستی کی طرف رخ کرتے ہوئے ، میں صرف ہیبت ناک مستقبل ، اور جنت کے وارث ہونے کا دعوی کرتے ہوئے ،لوگوں کی آپس میں، ایک دوسرے سے ضرررساں ،دور ی دیکھتا ہوں ، مجھے آخرت کی جنت میں کوئی حصہ نہیں چاہئے، جب کہ موجودہ زندگی جہنم سے کم نہیں ہے ۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/i-where-going/d/10583
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/i-where-going-/d/10721