اے آئی احمد
30 جنوری، 2015
آج کے پر فریب ، دھوکہ باز اور قدم قدم پر وعدہ خلافی اور بد عہدی جیسی اخلاقی برائیوں سے نبرد آزما معاشرتی زندگی میں انسان کے اخلاقی اقدار کی بہت اہمیت ہے۔ اگر معاشرے میں کوئی شخص اخلاق مند، ملنسار اور وعدہ وفا کر نے والا ایفائے عہد کا پا بند شخص نظر آتا ہے تو اس کی عزت و تکریم میں لوگ آنکھیں بچھا دیتے ہیں ۔ ایسے شخص کے قول و قرار اور زبان کو اہمیت دی جاتی ہے جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو جو وقت کی پابندی کےساتھ اپنی زبان پر بھی کھرا اترتا ہے اس کے لئے دنیا ترقی، کامیابی کی ضمانت دیتی ہے اور ایسے صفت سے متصف شخص کی ہر زمانے میں عزت و تکریم کی گئی ہے۔ اسلام نے اپنے اخلاقی تعلیمات میں جہاں دیگر معاشرتی خوبیوں کی پاسداری کا حکم دیا ہے وہیں ایفائے عہد اور وعدہ وفا کی بھی بھر پور تلقین کی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےبھی امانت داری اور ایفائے عہد کو دین و ایمان کا جزولانیفک قرار دیا ہے۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں او روہ شخص دین سے محروم ہے جو عہد کاپابند نہیں ۔ یہ بات زور روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جس شخص میں وقت کی پابندی نہیں ہوتی اور جس شخص کے اندر وعدہ وفا کا فقدان ہوتاہے وہ شخص کبھی معاشرے میں با کردار با اخلاق نہیں تسلیم کیا جاتاہے ۔ اس کی بات او راس کی زبان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ بڑا سے بڑا علم والا ہو ، مالدار ہو، معاشرے میں خود کوباحیثیت محسو س کرتا ہو او ر لوگ بھی ظاہری طور پر اس کو اہمیت دیتے ہوں لیکن حقیقی معنوں میں وہ شخص معاشرے میں وہ مقام نہیں حاصل کرسکتا جو ایک با اخلاق ، باکردار شخص کو حاصل ہوتاہے۔ دنیا میں حقیقی عزت اس شخص کو ہی حاصل ہوسکتی ہے جو وعدہ کرے اور اسے نبھائے ۔ جو قول دے اس پر کھڑا اترے جو شخص وعدے کی خلاف ورزی کرتاہے عہد و پیمان کو توڑتا ہے اپنی بات پر پورا نہیں اترتا ہے اس شخص کا معاشرے میں کوئی اعتبار نہیں کرتا ہے۔ ا س پر کوئی بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے۔ وہ شخص قابل اعتماد ہی نہیں مانا جاتا ہے۔ ایسا شخص اگر مصیبت کے وقت بھی قسمیں کھا کھا کر اپنے عہدہ پیمان کی دہائی دے اور مدد کی فریاد کرے پھر بھی لوگ پر اعتماد کرنے سے ہچکچا تے ہیں ۔
عہد کی پابندی اور وعدہ وفا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں اس کا حکم دیا ہے۔ فرمان الہٰی ہے ‘ ارفو بالعھد’ اورعہد پورا کرو۔ بلاشبہ وعدے کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں ایک دوسری جگہ مومنین کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘ والموفون بالعھد ’ مومن وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں ، عہد و پیمان کے پاسدار ہوتےہیں جس بات کا عہد کرتے ہیں اس کو پورا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں وعدہ پورا کرنے والوں کو بشارت بھی دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جس نے اپناوعدہ نبھایا اور پر ہیزگاری اختیار کی وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں شامل ہوگئے ۔ اسلام نےوعدہ پورا کرنے اور عہد پیمان کے پاس و لحاظ کی اتنی اہمیت اس لئے بتائی ہےکہ دنیا میں یہ وہ انسانی خصلتیں ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر انسان کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتا ہے ۔ ترقی کےمنازل طے کرسکتا ہے ۔ یہ خصلتیں انسانی کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہیں ۔ آج کے اس بے روزگاری او رمہنگائی کےدور میں جہاں انسان اپنی روزی روٹی اور کاروبار کے لئے پریشان ہے عہد وپیمان اور وعدہ پورا کرنے کی پابندی انسان کی کئی مشکلوں کو آسان کردیتی ہے۔ لیکن آج کےمسلمانوں نے اسلام کے اس زریں تعلیم کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہم آج اہم ترین نصیحت کو بالکل بھلا بیٹھے ہیں۔ کسی سے وعدہ کیا بھول گئے یا ٹال دیا۔ وقت دیا اور اس کی پابندی نہیں کی ۔ معاہدہ کیا اور توڑ دیا۔ یہی بےاصول اور غیر اخلاقی زندگی نےآج مسلمانوں کو ذلیل و خوار کردیا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپیش نظر شاید ہماری یہ کمزوری تھی اور انہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کے اندر دیگر تمام برائیوں کے ساتھ وعدہ وفا نہ کرنے اور عہد شکنی جیسی بری خصلت بھی پیدا ہوجائے گی۔ یہی سبب ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی سےایسا وعدہ نہ کرو جسے تم پورا نہ کرسکو۔
کتنے افسوس او ربے شرمی کی بات ہے کہ آج ہم بغیر سوچے سمجھے ، بے خوف و خطر اپنے بھائی سےایسا وعدہ اور ایسا عہد کرلیتےہیں جسے ہم پورا نہیں کرسکتے اور پھر اپنےنامہ اعمال کو گناہوں کااضافہ کرکے مزید سیاہ کرلیتے ہیں اور اپنی عاقبت برباد کر لیتےہیں ۔ وعدے اور عہد و پیمان کی کئی قسمیں ہیں ۔ آج جب ہم کسی کمپنی یا ادارے میں ملازمت کےلئے جاتےہیں تو امپلائر، ادارے کے ذمہ داران او رملازمین کے درمیان کئی طرح کے وعدہ اور عہد و پیمانے ہوتےہیں جس میں وقت کی پابندی بھی شامل ہوتی ہے۔ کام کا حساب و کتاب بھی ہوتاہے، ایک دن میں کمپنی ملازم کے ذمہ کیا کام دیتی ہے اور اسے پورا کرنے کا عہد وعدہ بھی ہوتا ہے۔ یہ تمام چیزیں بھی عہد و پیمان اور وعدہ کیا تو ضروری ہے کہ وہ اس پر پورا اترے اگر وہ آدھے گھنٹے یا پندرہ منٹ وقت مقرر رہ سے تاخیر کرتا ہے تو یہ وعدہ کی خلاف ورزی میں شمار ہوگی اور ملازم کے لئے اس پندرہ منٹ اور آدھے گھنٹے کی سیلری جائز نہیں ہوگی، بلکہ اس کے لئے حرام ہوگی۔ ملازم کو چاہئے کہ وہ اس تاخیر کے لئے معذرت کرتے ہوئے آئندہ سے وقت کی پابندی کرے۔ اسی طرح کمپنی یا کسی ادارے کے ذمہ داران پر بھی یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ایک ملازم کی تقرری کے وقت کئے گئے وعدوں اور عہد و پیمان کو توڑنے پر مجبور ہوجائے۔ بغیر سوچے سمجھے او رکسی حکمت عملی کے کسی سے عہد و پیمان اور وعدہ کرنا اور پھر اسے پورا نہ کرنا صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی نقصان اور خسارے کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے جو اس کے لئے دونوں جہا ن میں رسوائی اور خسارے کا سبب بنتی ہے۔
کاش کے آج امت میں اس طرح کی فکر پیدا ہوجائے او رہر شخص وقت کا پابند اور وعد ہ وفا کا عادی ہوجائے تو آج مسلمانوں کو ملازمت میں اس لئے ترجیح دی جائے کہ مسلمان وعدوں کےپکے اور عہد پیمان کے پاسدار ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں کا وقار اور ساکھ بلند ہوجائے ۔ اگر ہم نے صرف اس ایک اخلاق کو اپنا لیا تو شاید آج ہماری بے روزگاری کامسئلہ کسی حد تک کچھ حل ہوجائے ۔ افسوس یہ ہے کہ آج تعلیمی اداروں ، مدارس ومکاتب بھی اس اخلاقی پستی کے شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ جہاں اساتذہ وقت کی پابندی نہیں کرتے تو طلبہ سےکیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس بری خصلت کے عادی نہیں ہوں گے۔ کس طرح ایسے اساتذہ او رٹیچر طلبہ کو وقت کی پابندی کا سبق پڑھائیں گے ۔ اگر اساتذہ اور ٹیچر وقت کی پابندی کرنے لگیں تو شاید طلبہ میں بھی وعدہ وفا اور عہد و پیمان کی پاسداری کا جذبہ پیدا ہو۔ہر شخص کا فرض ہے کہ اس صورت حال کو بدلے اور اس بری خصلت سے خود کو آزاد کرے ۔ خدارا اپنے دین او رایمان کے تحفظ کےلئے ہی خود کو و عدہ وفا کا پابند بنائیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ‘لادین لمن لا عھد لہ ’ یعنی جو شخص وعدہ نہیں نبھاتا ، جس کو عہد و پیمان کا کوئی پاس نہیں اس کا دین و ایمان معتبر نہیں ۔ غرضیکہ امت اگر وعدے کی پابند ہوجائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مسلم قوم کا وقار بلند ہوجائے ، کاروبار میں اس کی ساکھ قائم ہوجائے، دین و دنیا دونوں جہاں کی دولت سے مالا ہوجائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں تو یقینی طور پر ترقی ، کامیابی و کامرانی کی منزل مسلمانوں کی قدم بوسی کرے گی۔
30 جنوری، 2015 بشکریہ : روز نامہ خبریں، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/fulfilment-promise-guarantee-success-/d/101354