احسان الحق ( لکھنؤ)
7 مارچ 2022
ابن صفی صاحب کے والدصفی
اللہ صاحب کو مطالعے سے دلچسپی تھی، لہٰذا گھر میں قدیم داستانوں اور ناولوں کے
ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ لیکن خود ابن صفی کو
اس کی اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی کتاب کو ہاتھ لگائیں!
ابن صفی
------
ابن صفی صاحب نے جہاں
آنکھ کھولی وہ ایک بھرا پرا قصبہ تھا۔ وہ خوشحال جاگیرداروں کی بستی نارا (الٰہ
آباد، اب کوشامبی میں) تھی۔ ہر طرف فرصت ہی فرصت تھی۔ شعر وادب کی محفلیں جمتی
تھیں۔ سیرو شکار سے جی بہلا یا جاتا تھا۔ بعض گھرانوں میں صرف علم و ادب کے چرچے
تھے۔
ابن صفی صاحب کے والدصفی
اللہ صاحب کو مطالعے سے دلچسپی تھی، لہٰذا گھر میں قدیم داستانوں اور ناولوں کے
ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ لیکن ابن صفی کو اس کی اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی کتاب کو ہاتھ
لگائیں۔ ایسے میں ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کوئی کتاب اٹھاکر یہ تاثر دیتے ہوئے کہ
کھیلنے جا رہے ہیں، چھت پر پہنچ جاتے اور صبح سے شام تک کتابیں پڑھتے رہتے۔ سارا
دن اسی چکر میں گزر جاتا۔ ایک دن پکڑے گئے۔ ڈانٹ بھی پڑی لیکن فیصلہ اُنہی کے حق
میں ہوا۔ دادی نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا: ’’میرا بیٹا ان لڑکوں سے تو بہتر ہے
جو دن بھر گلی کوچوں میں گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد کوئی روک ٹوک نہ ہوئی
اور انہوں نے داستانوں کی داستانیں پڑھ ڈالیں۔
اپنی پیدائش کا واقعہ ابن
صفی صاحب نے یوں بیان کیا ہے: ’’جولائی۱۹۲۸ء کی کوئی تاریخ تھی اور جمعہ کی شام دھند
لکوں میں تحلیل ہو رہی تھی کہ میں نے اپنے رونے کی آواز سنی۔ ویسے دوسروں سے سنا
کہ میں اتنا نحیف تھا کہ رونے کیلئے منہ تو کھول لیتا تھا لیکن آواز نکالنے پر
قادر نہ تھا۔‘‘
ابن صفی کی بہن ریحانہ
لطیف نے یوں تحریر کیا ہے:’’ والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں کبھی ایک جگہ جم کر نہ
رہ سکے۔ یہ اماں ہی کی محبت تھی کہ انہوں نے بھائی جان(ابن صفی) کی تعلیم کا بیڑا
اٹھایا اور تنہا ماں اور باپ کے فرائض انجام دیئے۔ ہم تین بہنیں اور ایک بھائی
تھے۔ ایک بہن جن کا نام خورشید تھا، بھائی جان سے بڑی تھیں۔ دو بہنیں غفیرہ اور
میں بھائی جان سے چھوٹی تھیں۔ ہم سب بھائی بہنوں میں بڑی محبت تھی۔ اگر کسی کو
معمولی سی تکلیف ہو تی تو سب اس تکلیف کو اپنے اوپر محسوس کر تے۔ یہ ہماری والدہ
کی اچھی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ہم آپس میں اس قدر متحدو متفق تھے کہ دیکھنے والے
حیران رہ جاتے تھے۔ ‘‘
والد صاحب ابن صفی نے
ابتدائی تعلیم مجید یہ اسلامیہ ہائی اسکول (الٰہ آباد) سے حاصل کی اور میٹرک کیا۔
نصابی کتابوں کے علاوہ جو پہلی کتاب ان کے ہاتھ لگی وہ ’’طلسم ہو شربا‘‘ کی پہلی
جلد تھی۔ حالانکہ اس کی زبان کو سمجھنا آٹھ سال کی عمر میں ان کیلئے مشکل تو ضرور
رہا ہوگا، تاہم کہانی تو ان کی سمجھ میں آ ہی گئی۔ پھر پے درپے ساتوں جلدیں ختم
کر ڈالیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’طلسم ہو شربا‘‘ نے ان کے دماغ پر قبضہ جما لیا۔
ڈی اے وی اسکول جہاں سے
انہوں نے میٹرک کیا تھا ،شہر میں تھا۔ شہر جانے سے داستانوں کے مطالعے کا سلسلہ
منقطع ہو گیا کیونکہ کتابیں تو گھر میں رہ گئی تھیں۔ جب اسکول سے واپس آتے تو بڑی
الجھن اور دشواری میں مبتلا رہتے۔ وہ ہوائی قلعے بنانے لگتے اور خود کو طلسم ہو
شربا کی حدود اور اسی کے سحر میں پاتے۔ ایک روز انہیں اپنے ہم جماعت کے گھر میں دو
کتابیں دکھائی دیں۔ جن کا نام تھا ’’عذرا‘‘ اور’’عذرا کی واپسی‘‘ وہ دونوں کتابیں
انہوں نے دوست کی اجازت سے وہیں بیٹھ کر
پڑھ لیں۔
ان کے اسکول کا ایک واقعہ
شکیل جمالی صاحب نے یوں تحریر کیا ہے:
ابن صفی صاحب پانچویں
جماعت میں تھے۔ ایک لڑکے سلیم نے استاد سے شکایت کی کہ راجیش نے اس کی انگریزی کی
بالکل نئی کتاب لا کر اپنے بستے میں رکھ لی ہے۔ استاد نے راجیش کو حکم دیا کہ وہ
اپنا بستہ کھول کر دکھائے۔ اس نے اپنا بستہ کھولا تو انگریزی کی کتاب اس میں مل
گئی۔ سلیم نے اپنی کتاب پہچان لی اور استاد کو بتا یا۔
استاد نے راجیش کو حکم
دیا کہ انگریزی کی وہ کتاب سلیم کو دے دی جائے، اس پر راجیش نے واویلا مچا دیا کہ
یہ تو اسی کی ہے، اس کے پتا جی نے کل ہی خرید کر دی ہے۔ اب استاد کے لئے یہ فیصلہ
کر نا دشوار تھا کہ کتاب کس کی ہے۔ اس لئے کہ کتاب بالکل نئی تھی اور اس پر کسی کا
نام نہیں لکھا تھا۔انہوں نے راجیش کو کتاب دے دی اور سلیم سے کہا کہ یہ اس کی کتاب
نہیں ہے وہ اسے کہیں اور تلاش کرے۔ سلیم منمناتا ہوا اپنی سیٹ پر بیٹھنے جا رہا
تھا کہ اسرار احمد نے استاد سے کہا: سر! یہ کتاب سلیم کی ہے، لہٰذا اسے دے دیجئے۔
تمہارے پاس اس کا کیا
ثبوت ہے کہ کتاب سلیم کی ہے؟ اسرار احمد نے کہا ’’کتا ب پر چڑھے ہوئے اردو اخبار
کی وجہ سے۔‘‘
استاد نے حیرت سے پوچھا۔
’’اس میں کیا خاص بات ہے؟‘‘
اسرار احمد نے جواب
دیا۔’’اردو اخبار ہندو گھرانوں میں نہیں پڑھے جارہے ہیں تو اس کتاب پر اردو اخبار
کیسے چڑھا ہوا ہے؟ سلیم نے کتاب خریدی، اس پر اخبار کا کور چڑھا یا لیکن کتاب پر اپنا
نام لکھنا بھول گیا۔‘‘
استاد نے یہ دلیل سن کر
راجیش کو سرزنش کی تو وہ رونے لگا اور اس نے اقرار کر لیا کہ حقیقت میں کتاب سلیم
ہی کی ہے۔ چنانچہ والد صاحب کے فہم و دانش اور سراغرسانی کی دھوم مچ گئی اور انہیں
جاسوس کہا جانے لگا۔
انہوں نے اپنی پہلی کہانی
اس وقت لکھی جب وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ کہانی کا نام تھا ’’ناکام
آرزو۔‘‘ اس زمانے میں عادل رشید ایک رسالے’’شاہد‘‘ کے مدیر تھے۔ ان کے انداز
تحریر کو دیکھ کر انہیں گمان ہوا کہ کوئی بزرگ ہیں۔ اس لئے انہوں نے کہانی کے ساتھ
کچھ اس قسم کا کیپشن چھا پ دیا:
’’نتیجہ فکر مصور جذبات حضرت اسرار ناروی‘‘ وہ کہانی شائع ہو تے ہی
گویا مصیبت آ گئی۔ گھر والوں نے ان کی دُرگت یوں بنائی کہ کسی کو پیاس لگتی تو وہ
انہیں یوں آواز دیتا’’ ابے او مصور جذبات، ذرا ایک گلاس پانی تو پلانا۔‘‘ آٹھویں
اور نویں تک پہنچتے پہنچتے انہیں شاعری کا چسکا لگ گیا۔ یوں رومانویت اور داستان
گوئی پیچھے رہ گئی۔
ابتدا میں انہوں نے اپنے
ماموں جناب نوح ناروی سے اصلاح لی، اس کے بعد ہائی اسکول میں اپنے اردو کے استاد
مولانا محمد متین شمس سے رجوع کیا۔ اس کے بعد فراق گورکھپوری، سلامؔ مچھلی شہری
اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سنانے لگے۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ بڑی
بات تھی کیونکہ فراق عظیم اور معتبر شاعر تھے۔
ہندوستان میں قیام کے
دوران جب وہ الٰہ آباد کی حسن منزل منتقل ہوئے تو وہیں ان کی دوستی عباس حسینی
اور ان کے بھائی جمال رضوی (شکیل جمالی) سے ہوئی۔ ادبی ذوق نے انہیں قریب کیا تھا
اور ایک گروپ سا بن گیا تھا جس میں عباس
حسینی کے کزن سر ور جہاں (نامور مصور)، مجاور حسین (ابن سعید)، ڈاکٹر راہی معصوم
رضا، اشتیاق حیدر، یوسف نقوی، نازش پر تاپ گڑھی اور تیغ الٰہ آبادی (مصطفیٰ زیدی)
بھی شامل تھے۔
۱۹۴۷ء
کے فسادات شروع ہو چکے تھے۔ الٰہ آبادیونیورسٹی میں بھی خنجر زنی کی ایک واردات
ہو گئی۔ ان کے بزرگوں نے ان کا یونیورسٹی جانا بند کرا دیا۔ پھر دوسرے سال دوبارہ
داخلے کی ہمت اس لئے نہیں پڑی کہ ان کے ساتھی فورتھ ائیر میں پہنچ گئے تھے۔ الٰہ
آباد یونیورسٹی میں پرائیویٹ امیدواروں کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یوپی میں
صرف آگرہ یونیورسٹی ایسے طلباء کا واحد سہارا تھا لیکن شرط یہ تھی کہ امیدوار کو کسی ہائی اسکول
میں معلّمی کا دوسالہ تجربہ ہو نا چاہئے۔
والد صاحب (ابن صفی) نے
پہلے اسلامیہ اسکول الٰہ آباد اور اس کے بعد یادگار حسینی اسکول میں پڑھا یا تا
کہ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر احساس کمتری کا شکار نہ ہونا پڑے۔ اس طرح انہوں نے
آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔
ابن صفی کے ہمعصرابن سعید
صاحب نے ملاقات میں بتایا کہ ابن صفی کام کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ شیخی اور تکبر
انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے قریبی دوستوں پر ان کے جو
ہر کھلتے تھے تو انہیں ایک خوش گوار حیرت سی ہو تی تھی۔ ابن سعید صاحب ایک مضمون
میں لکھتے ہیں: ’’جنوری۱۹۴۸ءکی
بات ہے۔ میں الٰہ آباد کے ایک سہ روزہ اخبار’’نیا دور‘‘ میں سب ایڈیٹر تھا۔ اس کا
گاندھی نمبر نکالنا تھا۔ میں صبح صبح دفتر جا رہا تھا۔ اسرار نے راستے میں ایک نظم
دے دی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے شائع نہیں کرنا ہے۔ اسے ردی کی ٹوکری میں
ڈالنے سے پہلے میں نے یونہی سر سری طور پر نظر ڈالی تو ٹھٹک کر رہ گیا۔ نظم کتابت
کے لئے دے دی، لیکن شام کو ان سے بڑی سنجیدگی سے کہا:
’’اسرار! وہ نظم اشاعت کے لئے دے دی گئی ہے۔‘‘
کہنے لگے:’’شکریہ۔‘‘
میں نے کہا:’’سمجھ لیجئے،
جس کی نظم ہو گی وہ مجھے اور آپ کو قبر تک نہیں چھوڑے گا۔‘‘
وہ بولے: ’’کیا مطلب؟‘‘
میں نے کہا:’’مطلب یہ کہ
وہ آپکی ہے ؟‘‘
بولے: ’’تو پھر کس کی
ہے؟‘‘
میں نے کہا:’’چرائی ہے۔‘‘
کہا:’’ثابت کر دیجئے تو
پانچ روپے دونگا۔‘‘
میں نے ایک شعر سنایا۔
’’یہ تو آپ کا نہیں ہے۔ یہ تو جوش یا فراق کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
کہنے لگے: ’’دکھا دیجئے،
شاعری ترک کر دوں گا۔‘‘
وہ شعر یہ ہے:
لویں اداس چراغوں پہ سوگ
طاری ہے
یہ رات آج کی انسانیت پہ
بھاری ہے
اب ان کی حیثیت ہمارے
حلقے میں ایک شاعر کی سی ہوگئی تھی۔ ایسا شاعر جو فراق، سلام مچھلی شہری اور وامق
جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سناتا تھا
اور لوگ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔
مجاور حسین صاحب نے ایک
دلچسپ واقعہ یوں بتایا .. اسرار بڑےخوش مزاج تھے۔الٰہ آباد یونیورسٹی کے بی اے
سال اول کے درجے میں ڈاکٹر حفیظ سید اردو پڑھا رہے تھے۔ میں پہلی نشست پر بیٹھا
ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اس پر بائیں ہاتھ کا سہارا دے کر ٹھہر
کر بولتے تھے۔ ان کے سرپر حاشیے کی طرح چاروں طرف بالوں کے گچھے رہتے تھے۔ درمیانی
حصہ بالکل صاف تھا۔ پیچھے گردن پر بال بے ترتیبی سے پڑے رہتے تھے۔ وہ جوش تقریر
میں کبھی کبھار چھڑی اٹھا کر ہوا میں لہرانے بھی لگتے تھے۔ اسرار نے ٹہوکا دے کر
کہا۔’’ذرا دیکھو سر کے پیچھے ڈاڑھی ہے۔‘‘ یہ جملہ اتنی زور سے کہا گیا تھا کہ ساری
کلاس قہقہے لگانے لگی۔ ڈاکٹر صاحب نے باز پرس کی تو اسرار نے بڑی معصومیت سے کہا۔
’’یہ بات میں نے اپنے لئے کہی تھی۔‘‘
یہ۱۹۴۸ء کی بات ہے کہ عباس
حسینی نے تجویز پیش کی کہ کوئی ادبی رسالہ شائع کیا جائے۔ سب رضا مند ہو گئے۔
رسالے کا نام ’’نکہت‘‘ رکھا گیا۔ اسرار احمد نے حصہ نظم اور مجاور حسین نے حصہ نثر
سنبھال لیا۔ لیکن اسرار احمد نے نثرنگاری کے باب میں طغرل فرغان، عقرب بہارستانی،
سنکی سولجر کے قلمی نام سے طنزیہ اور فکاہیہ مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی سب
سے پہلی کہانی ’’ نکہت‘‘ میں ’’فرار‘‘کے عنوان سے تھی جو جون۱۹۴۸ء میں شائع ہوئی۔’’نکہت‘‘
کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی خوب پزیرائی کی۔ اس کے تقسیم کار اے ایچ وہیلر تھے جن کے ہاتھ ہندوستان کے سارے
ریلوے بک اسٹال تھے۔
7 مارچ 2022، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism