احمد رضا
12 جولائی ، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام )
اسلامی فقہ قانونی مطالعہ کے دو اہم حصوں میں منقسم ہے۔ اسلامی قانون کا وہ حصہ جونظریاتی اور تصوراتی بنیادوں سے متعلق ہے اسے اصول فقہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
دوسرے حصے کا تعلق دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے مسلمانوں کے بدلتے ہوئے تاریخی اور سماجی حالات کی طرف سے ضروری کئے گئے انطباقات اور تشریحات سے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قانونی مظاہر اور تشریحات کے لئے فریم ورک خود نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ شروع کئے گئے تھے اور پھر ان کے اصحاب اور بعد کے زمانے کے اور اہل علم کے ذریعہ اس پر عمل کیا گیا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو درپیش مشکلات اور نئے معاملات کے بارے میں عمدہ رائے مرتب کرنے کے لئے ایک بہت سادہ طریقہ کار دکھایاہے۔
عام طور پر قانونی فیصلہ سازی اور رائے سازی میں شرکت کرنے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ کی ایک معروف حدیث ہے۔ معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر مقرر کرتے ہوئے انہوں نےمعاذ بن جبل سے پوچھا کہ وہ لوگوں کے درمیان کس طرح فیصلہ کریں گے ۔ معاذ بن جبل نے جواب دیا کہ وہ قرآن میں نازل کئے گئے احکام کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے ۔
نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر انہیں قرآن مجید میں متعلقہ مسئلے کا حل نہیں مل سکا تو وہ کیا کریں ۔ معاذ بن جبل نے جواب دیا کہ وہ سنت (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اعمال اور اخلا ق ) کے بارے میں ان کے علم کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ نے ان سے پوچھا کے اگر سنت میں بھی اس کا کوئی حل نہیں ملا وہ کیا کریں گے ۔ عماذ بن جبل نے جوب دیا کہ وہ اس صورت میں عوامی معاملات پر فیصلہ کرنے کے لئے ہدایت کے لئے نبی صلی اللہ علیہ کی متقی اصحاب کے اجماع (قانونی اتفاق رائے، نظریات اور اتفاق رائے ) سے رجوع کریں گے۔
آخر میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل سے پوچھا کہ اگر اس کا مناسب حل صحابہ کی زندگی میں نہیں ملا تو وہ کیا کریں گے، اس پر معاذ بن جبل نے جواب دیا کہ وہ لوگوں کی ضروریات کو پوراکرنے کے لئے ان کے اپنے ہی قیاس(قیاس ، عقل ) کا استعمال کریں گے ۔
اس حدیث اور قرآنی ہدایات پر مبنی متقی صحابہ کے دور سے 18ویں اور 19ویں صدی میں اسلامی علاقوں کی آباد کاری تک اسلامی علماء نے اسلامی قانون کے چار مصادر کا تعین کیا ہے ۔ اور وہ یہ ہیں: قرآن مجید، سنت، اجما اور قیاس۔
لیکن فقہ کی کتابوں میں زیادہ تر مذہبی مباحثوں کا تعلق وضو اور غسل، طہارت اور نجاست اور ایمان اور کفر سے متعلق مسائل سے ہے۔ اسلامی فقہ کے ڈھانچے پر مذہبی پرت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اجماع اور قیاس کا استعمال معروف فقہی مذہب (مکتبہ فکر) کے انفرادی اماموں کی قانونی رائے تک محدود ہو گیا۔
یہ گزشتہ سات صدیوں میں اسلامی شہری قانون کی متحرک ترقی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ مسلمانوں نے ایک اصولی اور اجتماعی انداز میں اتفاق رائے اور موافقت کے سماجی اصولوں کے انطباق کو بند کردیا ہے ۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے متقی اصحاب کے معمول پر عمل کو ترک کردیا ہے جو کہ ہمیشہ عام قانونی رائے تک پہنچنے کے لئے کونسل (شوری) کا انعقاد کرتے تھے۔
مسلمان صدیوں سے مسلم بادشاہوں اور سلاطین کے مخصوص سیاسی قیادت کے لئے اس دانا معمول سے غافل ہو گئے ہیں۔ تاریخ ہمیں انفرادی قانونی کوششوں کی مثالیں پیش کرتی ہے لیکن ہمیشہ تبدیل ہونے والے مسلم معاشرے کے لئے فقہ کی تشکیل کےلئے ضروری قانونی اور اجتماعی کوششوں کا کوئی ثبوت شاید ہی فراہم کرتی ہو۔
سوسائٹی اور ثقافت آگے بڑھ گئی ، اس نے داخلی اور خارجی تبدیلی کی نئی اور متحرک قوتوں کا سامنا کیا، جبکہ فقہ قرون وسطی اور جدید قرون وسطی کے علمیاتی استعماریت میں جمی رہی۔ یہ قانونی اور ثقافتی جمود کی خصوصیت دنیا بھر میں مسلمانوں کی عصر حاضر کی سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی ضروریات کے تئیں ایک گہری اور مکمل خاموشی ہے۔
قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے متقی اصحاب کے ذریعہ بیان کی گئی فقہ کی روح اس دنیا کے مسلم سامراجی تسلط کے ایک تاریخی وہم کا یرغمال بن گئی ہے۔
خاص طور پر جدید دنیا میں مسلمانوں کے نئے تاریخی حالات کے مطابق، قانونی اتھارٹی مدرسوں کےچند خود ساختہ مفتیوں سے ان قانون سازوں کے وسیع تر اداروں کے ہاتھوں میں منتقل کرنا لازمی ہے جوصحیح معنوں میں عوامی نمائندے ہیں۔ ان قانون سازوں کو مسلمانوں کو ہمیشہ درپیش پیچیدہ سماجی اور ثقافتی حالات کے قرآن و سنت کے قوانین کی تعبیر نو کرنا اور اسے نافذکرنا لازمی ہے۔
یہ نئی تشریحات ایشیا اور افریقہ سے یورپ اور شمالی امریکہ کے لئے مختلف ہو سکتی ہیں ۔ قانون سازوں کو معاشیات، سماجیات، جینیات، ریاضی، کاروبار اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نئے ترقی کے مطالعہ پر، پیچیدہ جدید سماجی نظام کی آسان اور منظم کار گزاری کے لئے اسلامی شہری قانون کی تدوین کے لئے ، زیادہ وقت خرچ کرنا چاہئے۔
اسی طرح، شہری قانون سازی، مسلم عقائد اور رسومات کے پہلو سے منسلک فقہ کی مذہبی درجہ بندی سے الگ ہونی چاہیے۔
ایسے کچھ مخصوص علاقے ہیں جہاں اسلامی شہری قانون کی فوری طور پر نئی قانونی سازی کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر کیا الیکٹرانک مالی لین دین کے ذریعہ منظم نئے علم پر مبنی معیشت جائز ہے؟ کیا افراد خود کا بیمہ کرا سکتے ہیں جب ریاست ان کے بیمار، بے روزگار اور حادثہ کا شکار ہونے کی صورت میں انہیں خطرے سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے تیار نہ ہو ؟ کیا انسانی زندگی کے معیار کو بڑھانے کے لئے بچے کے خلیات پر حیاتیاتی تحقیق جائز ہے؟ کیا ایک ایسی ریٹائرڈ خاتون ٹیچر جس کا کوئی بچہ یا خاندان ہو اور وہ اس کی آمدنی پر منحصر ہوں ، ایک ماہانہ محفوظ آمدنی حاصل کرنے کے لئے کسی بینک میں اپنا پنشن جمع کر سکتی ہے ؟
کون فقہ کی تعبیر نو کر سکتے ہیں – مدرسے کا کوئی روایتی مفتی، ایک نامزد کونسل یا عوام کے منتخب نمائندے؟ مسلمانوں پر سیاسی اتھارٹی کس کی ہونی چاہیے - بالغ رائے دہی، یا ایک موروثی بادشاہ کی؟ اسٹاک اور اشتراک مارکیٹوں اور سرمایہ کاری پر اسلامی قانونی حیثیت کیا ہے؟
یہ سوالات نئے ثقافتی رسومات کی پیداوار ہیں اور نئے جوابات کی ضرورت ہے۔
احمد رضا یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور میں ایک سماجی سائنسدان ہیں ۔
ماخذ:
http://dawn.com/news/1028406/is-a-new-fiqh-possible
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/is-new-fiqh-possible/d/12579
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/is-new-fiqh-possible-/d/12611