New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 12:18 PM

Urdu Section ( 2 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

After the violence in Sambhal سنبھل میں تشدد کے بعد

محمد اویس سنبھلی

30 نومبر،2024

سنبھل ایک تاریخی شہر ہے اور اس شہر کی تاریخ کے عنوانات میں ایک نمایاں عنوان یہا ں کی شاہی جامع مسجد ہے، جو ا س وقت قومی اور عالمی میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ سنبھل کے اسی خوف و ہراس کے ماحول میں ہم نے چندروز سنبھل میں گزارے او رجو کچھ محسوس کیا، اسے پیش کررہے ہیں۔ اخبارات نے ان بے حیثیت بیانات کو قابل اشاعت جانالیکن افسوس ان میں سے کسی نے بھی سنبھل پہنچ کر حالات کاجائزہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی آتا بھی تو کیوں؟ جب اس شہر کی ملی، سماجی، مذہبی اور سیاسی قیادت ہی ایسے نازک موقع پر غائب تھی۔الیکشن آتے ہی نہ جانے کتنے نام لیڈر بننے کی خواہش میں سامنے آجاتے ہیں لیکن جب پڑا وقت گلستا ں پہ تو سب غائب تھے۔

23/نومبر کی شام ہم سنبھل پہنچے تو فضا انتہائی پرسکون تھی۔ دیر رات تک دوست احباب کے ساتھ بیٹھے مختلف موضوعات پر بات چیت کرتے رہے۔ ایک مرتبہ بھی 19/نومبر کوہونے والے جامع مسجد کے سروے کے متعلق بات نہیں ہوئی۔ ایک بجے کے قریب گھر میں داخل ہوئے۔ صبح فجر کے کچھ دیر بعد موبائل ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ واٹس ایپ پرمیسج ملا”صبح ساڑھے چھ بجے سے جامع مسجد کا سردے چل رہا ہے، آپ تمام حضرات دعا کریں اور امن قائم رکھیں“۔ حکومت کے ذمہ داران کی جانب سے رات میں ساڑھے گیارہ بجے کے قریب مسجد کمیٹی کے ذمہ داران کو فون پر اس سروے کی اطلاع دی گئی۔ کمیٹی کے صدر ظفر علی ایڈوکیٹ کو جب علی الصبح وہاں حاضر رہنے کوکہا گیا تو انہوں نے اپنی طبیعت کی ناسازی کا ذکر کیا او رکہا کہ دس بجے کے بعد کوئی وقت رکھ لیں لیکن سروے ٹیم کا اصرار تھا کہ ہمارے ایک ساتھی آفیسر کے گھر شادی ہے جس کے سبب انہیں جلد فارغ ہوکر وہاں پہنچنا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس سروے کی خبر اتنی تیزی سے پھیلی کہ کچھ ہی دیر میں پرُسکون فضا کی سانسیں بوجھل ہونے لگیں۔عوام کا جم غفیر مسجد کے ارد گرد اکٹھا ہونے لگا۔ مسجد کے سروے کو لے کر عوام میں شدید غصہ تھا۔ دراصل جس طرح کے زہریلے نعروں کے ساتھ ایڈمنسٹریشن کی قیادت میں سروے ٹیم مسجد میں داخل ہوئی تھی وہ ہرگزہرگز مناسب نہیں تھا۔ جذبات کو بھڑکانے کی حتی الامکان کوشش کی جارہی تھی۔ عوام ایڈمنسٹریشن سے یہ مطالبہ کررہے تھے کہ جس طرح ایک خاص طبقے کے عام لوگ سروے ٹیم کے ساتھ مسجد کے اندر گئے ہیں،ہمارے بھی کچھ لوگ اندر بھیجے جائیں۔ ایڈمنسٹریشن اس پر راضی نہیں تھا، اسی درمیان اطلاع ملی کہ سروے کرنے والی ٹیم حوض خالی کرنے کی ضد کررہی ہے، یہ سن کر عوام کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ دراصل لوگوں کے ذہنوں میں اس وقت گیان واپی مسجد کا سروے گھومنے لگا۔لہٰذا عوام او رانتظامیہ میں جھڑپ شروع ہوئی۔ ایڈمنسٹریشن تو اسی موقع کی تاک میں تھا۔کمانڈنگ آفیسر نے مورچہ سنبھالا او ربھیڑ کو منتشر کر نے کے لیے لاٹھی چارج کا حکم دے دیا۔ لوگ ادھر ادھر دوڑنے لگے او رکچھ پیچھے ہٹ کر دوبارہ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ اب بھیڑ کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے، اس پر عوام کا غصہ پھٹ پڑا اور پولیس کی اس حرکت کے جواب میں جو کچھ ہاتھ آیاپولیس کی جانب پھینکنے لگے۔ اس پتھراؤ کے نتیجے میں پولیس کی بربریت بڑھتی گئی۔ ایسے نازک حالات میں بنا کسی پر میشن کے پولیس افسر نے گولی چلانے کا حکم اس اندازمیں جاری کیا”چلاؤبے گولی، سب گولی چلاؤ“۔ہندی اخبار جن ستّا کی ویٹ سائٹ پر بھی یہی جملے لکھے ہیں نیز ان تمام واقعات کے سیکڑوں ویڈیو آپ نے خود دیکھے ہوں گے۔ کئی اراکین پارلیمنٹ نے بھی اپنے ٹیوٹر اکاؤنٹ پر ان ویڈویوز کو پوسٹ کیا۔ ان ویڈیوز میں پتھراؤ کے دوران اکثر پولیس والے فائرنگ کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ جب کہ حالات بالکل ایسے نہیں تھے۔ لیکن جب خاص پلاننگ کے تحت حالات کو خراب کرنے اور اسلحوں کا استعمال کرکے مسلمانوں کو ڈرانا مقصود ہوتو حالات کو بگڑنے سے کون روک سکتا ہے۔

کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ اس موقع پر عوام کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے تھا، جذبات پر قابو رکھنے کے نتیجے میں یہ سانحہ پیش آیا لیکن اس سلسلہ میں میرا صرف یہ کہنا ہے کہ اگر آپ موقع واردات پر موجود ہوں اورآپ کے سامنے کوئی آپ کی مسجد پر بری نظر ڈالے یا آپ کی مسجد کو آپ سے چھیننے کی کوشش کرے تو کیا آپ اپنے جذبات پر قابو رکھ سکیں گے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جانا چاہے۔ لیکن کیا سروے ٹیم قانون کے دائرے میں اپنا کام کررہی تھی؟ البتہ اس جگہ پر جس چیز کی کمی سب سے زیادہ محسوس کی گئی وہ بھی ملی، سماجی، مذہبی اور سیاسی قیادت کی غیر حاضری۔عوام کو مشتعل ہونے سے روکنے او ران کی راہ نمائی کرنے وا لا کوئی نہیں  تھا جس کے عو  ض پانچ مسلم نوجوانوں کو اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ یہاں تک تو بات 24 /نومبر کے واقعہ کی ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ عوام پر جو گزرنی تھی گزر گئی۔ جونوجوان شہید ہوئے وقت کے ساتھ ان کے گھروالوں کو بھی صبر آہی جائے گا۔ اللہ بہترین کفالت کرنے والا ہے۔ لیکن اس حادثے کے بعد جو خوف کا عالم دیکھنے کو ملا وہ بیان سے باہر ہے۔ جس علاقے میں مسجد واقع ہے، اس کی ارد گرد نوجوان اپنا گھر بار چھو ڑ کر بھاگے ہوئے ہیں، پولیس دن رات ان کے گھروں میں بنا اجازت داخل ہورہی ہے۔ کیا بوڑھے، کیا جوان، بچے اور عورتیں سبھی گرفتار کیے جارہے ہیں۔ پورا محلہ خالی ہے۔قصور پیدا کیے جارہے ہیں۔ ایسے حالات میں پولیس جس کو چاہتی ہے اٹھا کر بند کردیتی ہے۔ بے قصوروں کو قصوروار بتایا جارہاہے۔ ہم نے خود اپنے محلہ میں محسوس کیا کہ رات کو 10/بجے کے بعد تمام گھروں کا لائٹیں بند ہوجاتی ہیں لوگوں ن اسٹریٹ لائٹ کے کنیکشن کاٹ دیے ہیں تاکہ پوری طرح اندھیرا چھایا رہے۔ رات میں پولیس کی گاڑیاں سائرن او ر گشت سے خوف پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ عدالت کوئی بھی فیصلہ سنائے لیکن جس طرح کے حالات سنبھل میں پیدا کر دئے گئے، جں طرح کانقصان ہوا، اس سب سے باہر نکلنے میں وقت لگے گا۔

ایڈ منسٹریشن نے حالات خراب کیے، گولی چلائی، پانچ لوگوں کو موت کی نیند سلادیا اور حالات کی کشیدگی کا سارا قصور رکن اسمبلی او ر رکن پارلیمنٹ کی پرانی دشمنی کو بتایا گیا۔ ترک اور پٹھان کی آپسی لڑائی دکھائی جارہی ہے جب کہ بے چارے یہ تک نہیں جانتے ایک اگرترک ہے تو دوسرا پٹھان نہیں بلکہ انصاری ہے۔ ایک شکایت ان لوگوں سے بھی ہے جو اس حادثے کے دو روز بعد امن کمیٹی کے نام پر ایڈ منسٹریشن کی چائے پیتے نظر آئے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی ڈی ایم سنبھل سے یہ سوال نہیں کیا کہ آخر گولی چلانے میں عجلت کیوں کی گئی؟ سنبھل کے حالات خراب ہیں۔گذشتہ پانچ دن سے تمام کاروبار بند ہیں۔ مالی نقصان سب کا ہوا لیکن جانی نقصان صرف مسلمانوں کا ہواہے۔انشاء اللہ ان کی یہ قربانی رائیگا نہیں جائے گی بلکہ اس سے مقامی لوگوں کو مزید تقویت ملے گی۔ پرُ سہ دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوگا۔ سب گھڑیالی آنسوں بہائیں گے اور جذبات سے کھلواڑ کریں گے۔ ضرورت ہے ایسے مگر مچھوں سے ہوشیار رہنے کی۔ جو قوم جان گنوانے کا حوصلہ رکھتی ہے اس کے اندر قیادت کی بھی بھرپور صلاحیت ہے۔ حوصلے کے آگے بڑی بڑی سپرپاور طاقتیں بھی زیر ہوجاتی ہیں اور وقت بدلتے وقت دیر نہیں لگتی۔اطمینان کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے سنبھل جامع مسجد کے سروے پر رو ک لگا دی ہے۔ سروے ٹیم نے سپریم کورٹ کا رخ بھانپ کر اپنی رپورٹ نامکمل ہونے کا بہانہ تراشا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یوگی سرکار کو اس کا ’راج دھرم‘ بھی یاد دلایا ہے۔

30 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

--------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/after-violence-sambhal/d/133885

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..