ڈاکٹر یامین انصاری
20 اپریل 2025
اردو کہاں اور کب پیدا ہوئی، کیسے پرورش پائی، اردو مسلمانوں کی زبان ہے یا ہندوستان کی، اردو ختم ہو رہی ہے یا باقی رہے گی، اردو کے حوالے سے اس قسم کی بحث بہت عام ہے۔ کوئی اردو کو کسی خاص مذہب سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے، تو نفرت کے دوش پر سوار کوئی سیاستداں اردو کے نام پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے لگتا ہے۔ کوئی اردو کو ’کٹھ ملا کی زبان‘ قرار دیتا ہے تو کسی کی آنکھوں میں اردو کے سائن بورڈ کھٹکنے لگتے ہیں۔جبکہ حقیقت میں اردوکو نہ توکسی سرحد میں قیدکیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی مذہب تک محدود کیا جا سکتاہے۔ اردو زبان اسی سرزمین پر پیدا ہوئی، اس نے اسی سرزمین پر پرورش پائی اور اسی ہندوستان میں اردو کی شیرینی اور لطافت نے ایسی خوشبو پھیلائی کہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود آج بھی ملک کے کونے کونے میں اردو مہکی ہوئی ہے۔ اسی لئے عدالت عظمیٰ کو بھی کہنا پڑا کہ ’اردو اسی ہندوستان میں پیدا ہوئی اوراردو اس ملک کی گنگاجمنی تہذیب کی بہترین مثال ہے۔‘
اردو کو تعصب کا نشانہ بنانے والوں کو نہیں معلوم کہ زبان و ادب کسی بھی قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کم عقلوں کو کون سمجھائے کہ اپنے وطن سے محبت کرنے والے اپنی زبان اور ادب سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اپنے ذہنوں میں نفرت کی پراگندگی رکھنے والوں کو کیا معلوم کہ اگر ہم اپنی زبان سے محبت ترک کردیں گے تو ہماری بہت سی اقدار و روایات دم توڑ جائیں گی۔در اصل کچھ لوگ آج اس ملک کی قدیم تہذیب و روایات کو پامال کرنے پر آمادہ ہیں۔ اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے وہ زبان کو بھی ایندھن بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اسی لئے ایک ریاست کا وزیر اعلی اسمبلی میں کھڑے ہو کر نہ صرف اسی ملک کی ایک زبان کو، بلکہ پوری ایک قوم کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ شاید اسی سے حوصلہ پا کر مہاراشٹر کے پاتور میونسپل کونسل کی عمارت پر لگی کونسل کے نام کی تختی متعصبین کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتی ہے۔معاملہ کلکٹر کے دفتر سے کمشنر کے دفتر تک اور پھر ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک پہنچتاہے۔ظاہر ہے کہ اس ملک کی جڑیں کھودنے والوں سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو یہاں کی اقدار و روایات اور گنگا جمنی تہذیب کو مزید مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا پاتور کے وہ لوگ قابل مبارکباد ہیں، جنھوں نے یہ لڑائی لڑی اور سپریم کورٹ سے ایک تاریخی فتح حاصل کی۔ سپریم کورٹ کا بھی شکریہ کہ فاضل ججوں نے اُردو کی تاریخی حیثیت اور اس کی ہندوستانی شہریت پر اپنی مہر لگائی۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ اردو عوام کی زبان ہے، اسے کسی مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا اور مہاراشٹر میں مراٹھی کے ساتھ اس کے استعمال پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ عدالت نے پاتور شہر کی سابق کونسلر ورشاتائی سنجے باگڑے کی درخواست مسترد کر دی، جنہوں نے پاتور میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کو چیلنج کیا تھا۔ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے کہا کہ اردو اور مراٹھی کو آئین کے تحت یکساں درجہ حاصل ہے۔ عدالت نے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ مہاراشٹر میں سائن بورڈز پر صرف مراٹھی کا استعمال ہونا چاہئے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے کے باوجود اردو کو مسلمانوں سے جوڑا گیا، جو حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ عدالت نے ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں سے جوڑنے کیلئے نوآبادیاتی طاقتوں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا۔ عدالت کا یہ تبصرہ بھی قابل غور ہے کہ ’یہ اردو کے عروج و زوال پر تفصیلی بحث کا موقع نہیں ہے، لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ہندی اور اردو کے اس امتزاج کو دونوں جانب کے سخت گیر عناصر نے روکا اور ہندی میں سنسکرت کے زیادہ الفاظ شامل کئے گئے اور اردو میں فارسی کی۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے اس تقسیم کا مذہبی بنیادوں پر فائدہ اٹھایا۔ ہندی کو ہندوؤں کی اور اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا گیا، جو حقیقت سے ایک افسوسناک انحراف ہے؛ یہ تنوع میں اتحاد اور عالمگیر بھائی چارے کے تصور سے پرے ہے۔‘ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی سے پیدا ہوتا ہے کہ اردو ہندوستان کیلئے اجنبی ہے۔ یہ رائے غلط ہے کیونکہ اردو، مراٹھی اور ہندی کی طرح ایک ہند-آریائی زبان ہے، جو اسی سرزمین پر پیدا ہوئی۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’ہمارے تصورات واضح ہونے چاہئیں۔ زبان مذہب نہیں ہے، نہ ہی یہ مذہب کی نمائندگی کرتی ہے۔ زبان ایک برادری، علاقے، لوگوں کی ہوتی ہے؛ مذہب کی نہیں۔ زبان ثقافت ہے۔ زبان ایک برادری اور اس کے لوگوں کی تہذیبی ترقی کا پیمانہ ہے۔ اردو اس کا بہترین نمونہ ہے، جو گنگا-جمنی تہذیب یا ہندوستانی تہذیب کی بہترین عکاسی کرتی ہے جو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانوں کی جامع ثقافتی روح ہے۔ لیکن زبان سیکھنے کا ذریعہ بننے سے پہلے اس کا اولین مقصد ہمیشہ رابطہ رہے گا۔
اردو کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا تازہ فیصلہ اور تبصرے یقیناً تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن کیا محض ان تبصروں سے اردو کی موجودہ صورت حال میں کوئی نمایاں تبدیلی آ جائےگی؟ کیا اردو کے سامنے جو مسائل ہیں اور جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان کا سامنا کیا جا سکتا ہے؟ شاید نہیں۔اس فیصلے سے اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ اردو کو تعصب کے چشمے سے دیکھنے والوں کی آنکھیں کھل جائیں۔ لیکن اب اس سے زیادہ ذزہ داری اردو داں طبقہ کی ہے کہ وہ اس فیصلے کو عوامی سطح پرعملی جامہ پہنانے کے لئے میدان میں آئےاور ہر شخص اپنے حصہ کا فریضہ ادا کرے۔ کم از کم جن لوگوں کا ذریعہ معاش اردو ہے، وہی اپنے حصے کا فرض ادا کردیں تو اردو کے حق میں بڑا احسان ہوگا۔ بہت معمولی سی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اردو کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ورنہ وہ بھی اردو کے شیدائی ہیں، جن کا اردو سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اردوکی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ جن علاقوں میں اردو پلی بڑھی اور پروان چڑھی، جہاں ایک بڑی تعداد اردو بولتی ہے، یعنی دہلی،قرب و جوار، اتر پردیش،پنجاب، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسے علاقوں میں، اس زبان کی سب سے خراب صورت حال ہے۔اردو کے حوالے سے یہاں کے حالات انتہائی مایوس کن ہیں۔ دکن کے بعض علاقوں میں بھی اردو کی صورت حال بہت زیادہ امید افزا نہیں ہے۔ اس صورتحال کے لئے اگر سرکاری مشینری کو قصوروار مان سکتے ہیں، تو اردووالے بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا او ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے ہوں گے کہ ہم اردو والے اپنے آس پاس اور روز مرہ کی زندگی میںاردو کے ساتھ کتنا انصاف کر رہے ہیں؟سوشل میڈیا سے لے کر اپنی گفتگو میں اردو کا کتنا استعمال کر رہے ہیں؟ مہاراشٹر کا معاملہ ایک سرکاری عمارت پر اردو کے سائن بورڈ کا تھا، لیکن کیا ہمیں اردو آبادی کے کاروباری اداروں پر اردو کے سائن بورڈ نظر آتے ہیں؟ کیا ہم اپنے گھروں پر اردو کے ناموں کی تختیاں لگاتے ہیں؟ کیا ہم اردو کی کتابیں اور اردو کے اخبارات خرید کر ان کا مطالعہ کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کو بحیثیت ایک زبان اردو کی تعلیم دلوا رہے ہیں؟اگر نہیں تو یقیناً ہم خود بھی اردو کی موجودہ صورت حال کے لئے ذمہ دار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور تبصرے سے ناامیدی اور مایوسی کے دور میں امید و بیم کی کرن جگمگا اٹھی ہے، لیکن ہم اردو والوں کو بھی کچھ قربانیاں دینی ہوں گی۔ جس طرح پاتور کے لوگوں نے اردو کے لئے سپریم کورٹ تک لڑائی لڑی اور بڑی قربانی دی، اسی طرح ہر اردو والے کو اردو کی بقا اور تحفظ کے لئے اپنے حصہ کا کام کرنا ہوگا۔
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/after-hatred-love-needs-voice/d/135274
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism