آفتاب احمد، نیو ایج اسلام
30 مئی 2014
خدا نے اس کائنات کو اور اس میں تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ انسان اس زمین پر خدا سے جدا ہو کر زندہ نہیں رہتا۔ خدا ہر وقت انسانوں سے اور روئے زمین کی تمام مخلوقات سے مسلسل رابطے میں ہے۔ خدا اور بندوں میں انتہائی گہری قربت ہے اور وہ اپنے بندوں کا دھیان رکھتا ہے انہیں ہدایت دیتا ہے اور جہاں کہیں اور جب بھی ضرورت ہو وہ اپنے بندوں سے ہم کلام بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اللہ کا کلام انتہائی واضح اور مبین ہوتا ہے اور کبھی اس کا کلام پر اسرار بھی ہوتا ہے۔ خدا کے بندوں سے ہم کلام ہونے کے یہ تین مدارج ہیں۔ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے:
"اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسٰی علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے۔ "(سورہ الشورى آیت:51)
اس طرح خدا انسانوں سے ہم کلام ہوتا ہے:
کسی فرشتے کے ذریعے جو خدا کا پیغام نبیوں اور پیغمبروں تک یا عام انسانوں تک پہنچاتا ہے
حجاب کے پیچھے سے
الہام یا القا کے ذریعہ۔
خدا کے بندوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کا پہلا درجہ سب سے اعلیٰ و ارفع ہے جو کہ صرف نبیوں کے لیے ہی خاص ہے۔ بندوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کا خدا کا یہ انداز صرف اس کے نبیوں کے ساتھ رہا ہے۔ خدا اپنے کسی خاص فرشتے کو وحی دیکر انبیاء کے پاس بھیجتا ہے جو کہ بنیادی طور پر مذہبی احکام پر مشتمل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر جبرائیل امین پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں وحی لیکر آیا کرتے تھے۔
اگر چہ خدا کا بندوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کا طریقہ نبیوں کے ساتھ خاص ہے لیکن چند مواقع ایسے بھی ہیں کہ جب خدا نے عام لوگوں یہاں تک کہ خواتین کی رہنمائی کے لیے یہ توسط اختیار کیا ہے جنہیں مسلمان خاص طور پر مذہبی اور روحانی معاملات میں مردوں سے کمتر سمجھتے ہیں۔ دو مواقع ایسے ہیں کہ جب اللہ نےدو پیغمبروں کی ماؤں کے ساتھ ہم کلام ہونے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا ہے اگرچہ وہ خود مقام نبوت پر فائز نہیں تھیں۔ ان میں سے ایک موسیٰ علیہ السلام کی ماں تھیں اور دوسری یسوع مسیح علیہ السلام کی ماں مریم تھیں۔
فرعون جب اپنی آبادی کے ایک حصے میں تمام مذکر بچوں کو قتل کر رہا تھا تو خدا نے موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت اس وقت فرمائی جب وہ ایک شیرخوار بچے تھے۔ قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام کو ان پر خدا کی نعمتوں کو یاد دلایا گیا ہے:
" اور بیشک ہم نے تم پر ایک اور بار (اس سے پہلے بھی) احسان فرمایا تھا، جب ہم نے تمہاری والدہ کے دل میں وہ بات ڈال دی جو ڈالی گئی تھی، کہ تم اس (موسٰی علیہ السلام) کو صندوق میں رکھ دو پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دو پھر دریا اسے کنارے کے ساتھ آلگائے گا، اسے میرا دشمن اور اس کا دشمن اٹھا لے گا، اور میں نے تجھ پر اپنی جناب سے (خاص) محبت کا پرتَو ڈال دیا ہے (یعنی تیری صورت کو اس قدر پیاری اور من موہنی بنا دیا ہے کہ جو تجھے دیکھے گا فریفتہ ہو جائے گا)، اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ تمہاری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے،۔ "(سورہ طہ، آیت:37 تا 39)
ایک دوسری سورۃ میں بھی یہ انداز کلام موسیٰ علیہ السلام کی والدہ سے منسوب ہے:
"اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو، پھر جب تمہیں ان پر (قتل کردیئے جانے کا) اندیشہ ہو جائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورتِ حال سے) خوفزدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا، بیشک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں(شامل) کرنے والے ہیں۔" (القصص آیت:7)
لہٰذا، قرآن مجید کا واضح طور پر یہ بیان ہے کہ اللہ نے موسیٰ علیہ اسلام کی والدہ پر وحی نازل کی اور انہیں اس بات کی رہنمائی عطا کی کہ انہیں یہ دیکھنے کے لئے کیا کرنا چاہیےکہ ان کا بیٹا نہ صرف یہ کہ محفوظ و مامون ہے بلکہ ان کے پاس دوبارہ واپس آگیا جبکہ فرعون اس پورے معاملے سے غافل ہے۔ ان قرآنی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے لئے وحی الٰہی صرف نبیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ خدا اگر چاہے تو عام مردوں اور عورتوں پر بھی وحی کا نزول ہو سکتا ہے۔ اس طرح یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر چہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے لیکن خدا کا بندوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کا یہ طریقہ بند نہیں ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نیک اور روحانی صفات کے حامل افراد کو بھی خدا سے اس اعلیٰ درجے کی ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا ہو جس کی وجہ سے ان کے اندر ایک روحانی احساس پیدا ہوا اور اس بنا پر انہوں نے یہ ماننا شروع کر دیا کہ وہ بھی نبی ہیں۔ آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سے لوگوں نے نبوت کا دعوی کیا شاید اس کی بنیاد خدا کے ساتھ حاصل ہونے والی ہم کلامی کی یہی اعلیٰ ترین شکل ہو۔ انہیں خدا کے ساتھ اس روحانی ہم کلامی سے غلط فہمی پیدا ہو گئی اور انہوں نے اسے یہ سمجھ لیا کہ یہ نبوت کی وحی ہے۔
یسوع مسیح علیہ السلام کی والدہ مریم کو یسوع مسیح کی پیدائش سے پہلے بھی فرشتوں کے ذریعے خدا کے ساتھ ہم کلام ہونے شرف حاصل ہوا تھا۔ چونکہ اللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت مریم کے رحم سے پیدا کرنے کا ارادہ کیا اسی لیے خدا نے یہ چاہا کہ مریم ایک نیک اور عظیم خاتون بنیں۔ لہذا، انہیں فرشتوں کے ذریعے خدا کی وحی صاصل ہوئی:
"اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اﷲ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے، اے مریم! تم اپنے رب کی بڑی عاجزی سے بندگی بجا لاتی رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔" (سورہ آل عمران: 42-43)
یسوع مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ایک مرتبہ پھر فرشتے حضرت مریم کے پاس آئے اور انہیں بشارت دی کہ آپ کے پیٹ سے ایک نبی پیدا ہونے والا ہے۔
"جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اﷲ تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمۂ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسٰی بن مریم (علیھما السلام) ہوگا وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہو گا اور اﷲ کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہوگا، اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور پختہ عمر میں (یکساں) گفتگو کرے گا اور وہ (اﷲ کے) نیکوکار بندوں میں سے ہو گا، (مریم علیہا السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا درآنحالیکہ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا، ارشاد ہوا: اسی طرح اﷲ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جب کسی کام (کے کرنے) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس سے فقط اتنا فرماتا ہے کہ ’ہو جا‘ وہ ہو جاتا ہے" (سورہ آل عمران، آیت: 45 تا 47)
بعد ازاں جب وہ حاملہ ہوئی اور ایک ویران جگہ میں جا کر گوشہ نشیں ہو گئیں تو ایک آواز آئی جس میں انہیں اس بات کی رہنمائی کی گئی تھی کہ انہیں اب کیا کرنا چاہئے۔
خدا کے ساتھ ہم کلامی کا دوسرا درجہ پرد ےکے پیچھے سے ہم کلام ہو نا ہے۔
"پھر ان کے نیچے کی جانب سے (جبرائیل نے یا خود عیسٰی علیہ السلام نے) انہیں آواز دی کہ تو رنجیدہ نہ ہو، بیشک تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے (یا تمہارے نیچے ایک عظیم المرتبہ انسان کو پیدا کر کے لٹا دیا ہے)، اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرا دے گا"(سورہ مریم: 24- 25)
اگر چہ وہ ایک عام خاتون نہیں تھیں بلکہ اللہ کی ایک منتخب بندی تھیں، لیکن پھر بھی وہ کوئی نبی نہیں تھیں۔ (عیسائی حضرت مریم کو خدا سے حاصل ہونے والی وحی کی بنا پر انہیں نبی مانتے ہیں)۔ قرآن کہتا ہے:
"اور ان کی والدہ بڑی صاحبِ صدق (ولیّہ) تھیں" (سورہ المریم: 75)
خدا نے پردے کے پیچھے سے بھی اپنے پیغمبروں سے کلام کیا ہے۔ اس صورت میں انبیاء خدا کو دیکھتے نہیں بلکہ وہ آسمان سے ان کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے آنے والی آواز کو سنتے تھے۔
خدا کے بندوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کا تیسرا درجہ خدا کی جانب سے الہام یا القا ہے۔ خواب اور بصیرتیں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سچے خواب کو نبوت کا 47واں حصہ کہا جاتا ہے۔ خدا اپنے عام بندوں کے ساتھ اسی توسط سے ہم کلام ہوتا ہے۔ خدا کا بندوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کی یہ سب سے زیادہ سیکولر صورت ہے جس سے مستفیض ہونے والے مذہب سے قطع نظر تمام انسان اور یہاں تک کہ بے دین لوگ بھی ہیں اس لیے کہ خدا اپنی تمام مخلوقات سے محبت کرتا ہے اور ان کا دھیان رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اس سطح پر جانوروں کو بھی خدا کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل ہے جس کی بنا پر وہ در پیش خطرات اور قدرتی آفات سے متنبہ ہو جاتے ہیں۔
اللہ لوگوں کو الہام یا القا کے ذریعے نئے نئے خیالات اور مسائل کا حل عطا کرتا ہے۔ نوح علیہ السلام نے خدا کی اسی وحی کی مدد سے ایک عظیم کشتی تعمیر کی۔ حضرت داؤد علیہ السلام جو اپنے زمانے کے ایک سائنسدان اور انجنیئر تھے اور وہ خدا کی جانب سے اسی الہام اور القا کی مدد سے لوہے کے آلات جنگ و حرب اور زوز مرہ کے استعمال کی چیزیں بناتے تھے اس لیے کہ اس لیے کہ اس زمانے میں کوئی آئی آئی ٹی یا ٹیکنکل یونیورسٹی نہیں تھیں۔ انہیں خدا نے الہام یا القا کے ذریعہ لوہے کی طبعی خصوصیات کا علم عطا کیا تھا۔ اس دور جدید میں سائنسدانوں کو مادے کے فارمولے اور ان کے متعلق علم اور خیالات وجدان یا الہام کے ذریعہ ہی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا مستحق بننے کے لئے صرف ایک ہی شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کے اندر غور و فکر کرنے کی صلاحیت، کائنات کے رازہائے سربستہ کو جاننے کی کا تجسس اور علم حاصل کرنے کا شوق ہو۔ اس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ آج سائنسدانوں کی اکثریت کا تعلق جو سائنسی دریافتوں کے بارے میں علم حاصل کر رہے ہیں اور سائنسی اصول و قوانین مرتب کر رہے ہیں چینیوں (ملحد یا لاادریہ) یہودیوں (مذموم کمیونٹی) اور ہندوؤں (مشرکین) سے ہے۔ اس میں مسلمانوں کی سوچ و فکر کے لیے ایک غذاء ہے جو خود کو دوسروں سے برتر اور خدا کا پسندیدہ سمجھتے ہیں۔
ایک اضافی نوٹ: اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات و نظریات بھی اللہ کی جانب سے الہام اور القاء کا ہی ایک نتیجہ ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
آفتاب احمد نیو ایج اسلام کے ایک مستقل کالم نگار ہیں۔ وہ کچھ عرصے سےقرآن مجید کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-spiritualism/revelation,-intuition,-inspiration-god-speaks/d/87277
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/revelation,-intuition,-inspiration-god-speaks/d/97973