New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 07:09 PM

Urdu Section ( 26 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

21st Century is Waiting For Its Mujaddid اکیسویں صدی اپنے مجدد کی راہ تک رہی ہے

 

آفتاب احمد، نیو ایج اسلام

توحید اللہ کا دین ہے اور اللہ نے اپنے دین کی تجدید کے لئے ہر دور میں نبی اور رسول بھیجے۔ جن نبیوں کو اللہ نے صحیفہ اور شریعت عطا کی وہ تو رسول ہوئے اور جن نبیوں کو کوئی کتاب اور شریعت عطا نہیں ہوئی وہ گویا مجدد تھے جو اپنے پیشرو رسول کے دین کی تجدید کررہے تھے۔اس طرح تجدید دین دو طرح سے ہوتی رہی۔تجدید دین کا مطلب میرے خیال میں دین کی اصل شکل اور روح کو زندہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسکو ترقی دے کر دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی ہے۔ اسی لئے ہر رسول کا دین اپنے پیش رو رسول کے دین کی ترقی یافتہ شکل تھا اوراپنے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بھی تھا۔

حضرت محمد مصطفے ﷺ نبی آخری الزماں تھے اور انہیں خاتم النبین قرآن میں کہہ دیا گیا ہے۔ ان کے بعد گذشتہ ادوار کی طرح دو رسولوں کے درمیانی وقفوں میں آنے والے نبیوں کی طرح کوئی نبی نہیں آئے گا۔ گذشتہ ادوار میں ایک ہی وقت دنیا کے مختلف خطوں میں نبی اور رسول بھیجے گئے تھے اور ایک رسول کے بعد دوسرا نبی یا رسول پانچ سو، ہزار یا بارہ سو برس میں مبعوث ہوا۔رسول اسلام حضرت محمد ﷺ کے وصال کے چودہ سو سال مکمل ہوچکے ہیں اور رہتی دنیا تک اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اتنے لمبے عرصے میں دین میں مختلف طرح کے فتنوں اور بدعات و خرافات کا در آنا فطری ہے لہٰذا، اللہ نے ان فتنوں، خرافات اور بدعات سے دین کو پاک رکھنے کے لئے تجدید دین کا انتظام کیاہے۔ ایک حدیث کے مطابق ہردور میں اللہ تجدید دین کے لئے ایک مجدد پیدا کرے گا جو اپنے زمانے میں دین میں در آنے والی خرابیوں کو دور کرکے دین کو اس کی اصلی حالت میں لوٹائے گا۔

’’اللہ ہر سو سال میں ایک شخص کو اٹھائے گا جو لوگوں کے ایمان کا احیا ء کرے گا۔‘‘(ابو داؤد)

ایک اور حدیث ہے۔

’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفے ﷺ نے فرمایا کہ اللہ ہر صدی کے آغاز میں اس امت کے لئے ایک ایسا شخص بھیجے گا جو ان کے دین کی تجدید اور احیا کرے گا۔‘‘(ابو داؤد، بیہقی،مسند)

بہرحال ، ان ا حا دیث سے یہ واضح نہیں ہے کہ ہر صدی میں اللہ پوری دنیا کے لئے ایک ہی مجدد پیدا کرے گا یا پھر ایک ہی وقت میں دنیا کے مختلف خطوں میں کئی مجددین ضرورت کے مطابق اٹھائے گا۔ کیونکہ پوری دنیا میں حالات ہر جگہ یکساں نہیں رہتے۔ کہیں برائیاں زیادہ ہوتی ہیں کہیں کم۔ کہیں اصلاح کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے کہیں کم۔ قرآن میں بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کو مکہ اور اس کے آس پاس کے لوگوں کے لئے اتارا گیا۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ قرآن صرف مکہ اور اس کے اطراف کی قوموں اور قبیلوں کے لئے نازل کیا گیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مکہ میں حالات دوسری جگہوں کی بہ نسبت زیادہ خراب تھے اسلئے قرآن وہاں اتارنے کی ضرور ت زیادہ تھی۔

اسلامی تاریخ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف خطوں میں ایسے اسلامی مفکرین اور علماء کی موجودگی کا پتہ چلتاہے جن کی فکر نے اپنے خطے کے مسلمانوں کوخصوصی طورسے اور پورے عالم اسلام کو عمومی طور پر متاثر کیا اور مسلمانوں کی فکر میں انقلاب پیدا کیا۔

جن علماء اسلام کے متعلق یہ قیاس ہے کہ وہ مجدد ہیں ان کے نام ہیں:

حضرت عمر بن عبد العزیز، امام احمد بن حنبل ، ابوالحسن اشعری، ابو بکر بقلانی، امام الغزالی، عبد القادر جیلانی، ابن تیمیہ، ابن حجر عسقلانی، جلال الدین سیوطی، حضرت شیخ احمد سرہندی، شاہ وولی اللہ۔ ان علماء کرام کے علاوہ بھی کئی نام ہیں جن کے متعلق یہ خیال کیا جاتاہے کہ وہ مجد د تھے۔

حدیثوں میں مجد د کے لئے کسی خاص پہچان یا صفات کا ذکر نہیں کیاگیاہے جس سے انہیں پہچان لیاجائے۔ یہ لوگ اپنے کام اور اپنے افکار سے اسلامی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کرلیتے ہیں ۔ ایسا مسلمانوں کے اطمینان کے لئے کہا گیا تاکہ وہ اس بات کا یقین رکھیں کہ اسلام قیامت تک اپنی اصلی حالت میں زندہ رہے گا بھلے ہی کسی ایک خطہ یا وقت کے لوگ باہری اثر سے بدعات اور غیر اسلامیات پر عمل کرنے لگیں اور انہیں اسلام کا حصہ سمجھنے لگیں مگر ہر صدی میں ایسے علما ء موجود رہیں گے جو اسلام میں در آنے والی ان بدعات کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونگے اور اسلام کی اصل روح کا دفاع کریں گے۔ ایک واضح مثال حضرت شیخ سرہندی کی ہے جو اکبر اعظم کے ہم عصر تھے ۔ اکبر نے دین الہی نا م کے ایک مذہب کی ایجاد کی تھی اور اسے سرکاری مذہب قرار دیا تھا۔یہ ایک طرح سے اسلام کو نقصان پہچانے والا عمل تھا کیونکہ اکبر اس زمانے کے وسیع تر ہندوستانی حکومت کا فرماں روا تھا جس کی سلطنت آج کے افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ اتنے طاقتور راجا کے اسلام کے مخالف ایک دین ایجاد کرنا اور اسے رواج دینا ہندوستان میں اسلام کے لئے خطرہ پیدا کرسکتاتھا ۔ شیخ احمد سرہندی نے اکبر کے اس دین الہی کی کھل کر مخالفت کی۔ان کی پیدائش 14 شوال 971ہجری کو سر ہند میں ہوئی۔ اس طرح سے 1000 ہجری میعنی نئی صدی میں وہ سن بلوغت کو پہنچے اور دین کے احیا کا کام شروع کیا۔لہذا یہ یقین کیا جاسکتاہے کہ وہ مجدد الف ثانی تھے۔ایک ایسے وقت میں جب لوگ اکبر کے دین کی مخالفت کرنے سے ڈرتے تھے اور چند خوشامدی درباریوں نے اس دین کو قبول بھی کرلیا تھا، مجدد الف ثانی نے اس باطل دین کے خلاف جہاد کا باقاعدہ اعلان کیا اور درباریوں اور امراء کو خطوط کے ذریعہ اس جھوٹے دین سے باز رہنے اور اسلام کی خدمت کرنے کیصلاح دیتے رہے۔ان خطوط کو مکتوبات امام ربانی کے نام سے مرتب کیا گیا۔ انہوں نے اس دین کے جواب میں ایک رسالہ اثبات نبوت بھی لکھا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکبر کا دین اپنی موت آپ مرگیا اوراسلام کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔اس زمانے میں لوگ قرآنی تعلیمات کو بھول چکے تھے اور مزاروں اور پیروں سے ساری توقعات وابستہ کرتے تھے۔ اس دور کے علما بھی دین کے معاملات میں قرآن اور حدیث سے رجوع کرنے کی بجائے فقہ سے رجوع کرتے تھے۔مجدد الف ثانی نے ان علما کی بھی اصلاح کی اور قرآن اور حدیث کو دین کا اولین ماخذ قرار دیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو شیخ احمد سرہندی بجا طور پر مجد د کہلانے کے اہل ہیں۔

اسی طرح بے شمار علماء اور مجتہدین دنیا کے مختلف حصوں میں وقفے وقفے سے پیداہوے۔ بہرحال، حدیث میں یہ اشارہ نہیں ملتاکہ یہ مجددین صرف علما ہی ہونگے۔ کہا گیاہے کہ ہر صدی میں ایک ایسا شخص ہوگا جو دین کی تجدید اور مسلمانوں کے ایمان کا احیاء کرے گا۔ لہذا، ایک مجدد عالم بھی ہوسکتاہے اور طاقتور صالح حکمراں بھی ہوسکتاہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسے طاقتور اصلاح پسند حکمراں بھی ہوئے ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں پھیلی ہوئی غیر اسلامی رسوم کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے۔ان میں خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک ہیں۔ انہوں نے اپنی خلافت کے دوران تعلیم کی اشاعت کے لئے کافی کام کئے اور غیر اسلامی طور طریقوں کو ختم کیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کو بھی مجدد کے زمرے میں رکھا جاسکتاہے کیونکہ انہوں نے یزیدکی غیر اسلامی حکومت کو منظوری دینے سے انکار کردیا اور دین اصلی کو بچالیا۔

موجودہ دور میں جو خلفشار ، غیر اسلامی افکار، ہرج (بلا جواز قتل وخون) پوری اسلامی دنیا میں پھیلا ہواہے اور لادینیت نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے، ایسے میں مجددین دین کی اہمیت اور ضرورت اور بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ دنیا ئے اسلام اپنے مجدد کی راہ تک رہی ہے جو اسلام میں نئی روح پھونک دے اور نشاۃ ثانیہ کا آغاز کرے۔ علامہ احمد سرہندی نے ظاہری عبادات کے ساتھ تزکیہ نفس کو بھی اتنی ہی اہمیت دی تھی جبکہ آج کے علمبرداران اسلام نے ظاہری باتوں پر زیادہ توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ انہیں اسلامی خلافت قائم کرنے کی جلدی توہے مگر اسلام کی صحیح تفہیم کی فرصت نہیں ہے۔

اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور اسلام کی متشدد شبیہ کو پیش کرنے کی کوششیں لمبے عرصے سے چل رہی تھیں جو رفتہ رفتہ متشدد نظریات پر منتج ہوچکی ہیں اورہر طرف تکفیری نظریات کاغلبہ دکھائی دیتاہے جو اسلام کے بنیادی امن پسند اور تکثیری تعلیمات سے متصادم ہے مگر ایک متشدد اور طاقتور طبقے نے اسے ہی اصل اسلام کے طور پر پیش کرنیکی کوشش چھیڑ رکھی ہے۔خود کشی کو اسلام نے حرام قراردیاہے مگر دہشت گردوں نے خود کشی کو جائز قرار دے دیاہے ۔معصوم افراد بشمول عورتوں ، بچوں اور ضعیفوں کے مسلک اور مذہب کے نام پر قتل کو اسلامی جہاد کہا جارہاہے،مسلکی اختلافات نے اسلام کی شبیہ کو اور بھی زیادہ بگاڑ دیاہے۔ جہاد کے نام پر عورتوں کے غیر مردوں کے ساتھ زنا کے لئے ’’جہاد النکاح ‘‘ کی اصطلاح گھڑ لی گئی ہے اور اس کو کارثواب بناکر پیش کیاجارہاہے۔اس طرح پورے دین محمدی ﷺ کی شبیہ بگاڑ دی گئی ہے۔

اسلام کے احیاء کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی مگر اس کے لئے جس پیمانے پر کام ہونا چاہئے تھا وہ شاید نہیں ہورہاہے۔حدیثوں میں مجدد کی آمد کا ذکر ہے تو مجدد کی آمد برحق ہے مگر عالم اسلام ابھی تک اپنے عصر کے مجدد کو یا توپہچان نہیں پایاہے یا پھر اس شور غوغا میں اس کی آواز سننے کے قابل نہیں ہے۔ یہ دنیا بے صبری سے اپنے اس مجدد کی راہ تک رہی ہے۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/21st-century-waiting-its-mujad/d/97762

 

Loading..

Loading..