آفتاب احمد، نیو ایج اسلام
8 جون2014
قرآن میں بے شمار ایسی آیتیں ہیں جن سے خدا کی قدرت کاملہ اور اس کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ ان آیات میں یہ بیان ہے کہ خدا ہر جگہ اور ہر وقت ہر انسان کے ساتھ موجود ہے۔ لوگ اسے نہیں دیکھ سکتے لیکن اس کی نظر پوری کائنات پر ہے۔ وہ اپنے بندوں کی فریادیں سنتا ہے اور ان سے ان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ یہ قرآن کا ماحصل ہے لہٰذا اب اس کی توضیح میں مزید آیات کا حوالہ پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس کا ذکر نہ صرف قرآن مجید میں ہے بلکہ اس سنت الٰہیہ کا ذکر تمام توحیدی مذاہب اور تمام آسمانی صحیفوں میں ہے۔ لہذا، خدا کی قدرت کاملہ اور اس کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا بیان تمام مذہبی صحیفوں میں پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر، قرآن مجید، بائبل اور ویدوں میں اس معنیٰ و مفہوم کی آیتیں موجود ہیں۔ قرآنی آیتیں لوگوں کو مراقبہ، ذکر و اذکار اور روحانی مجاہدات کے ذریعے خدا کی قربت حاصل کرنے کی تعلیم دیتی ہیں۔ قرآن مسلمانوں کو خدا کی قدرت کاملہ اور اس کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا احساس کرنے اور اور اس طرح اس روکاوٹ کو دور کرنے کی تعلیم دیتا ہے جو خدا اور بندے درمیان حائل ہے۔ ایک آیت میں مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر انسان خدا کی یاد سے اپنے دل کو معمومر نہیں کرتا ہے تو اس پر شیطان کا قبضہ ہو جاتا ہے جو اسے گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو یہ گوارا نہیں کہ اس کے اور بندے کے بیچ میں کوئی شیطان حائل ہو۔
تصوف اور اور روحانیت کی طرف مائل لوگوں نے خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے اپنے دلوں سے شیطان کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس عمل اور اس تصور کی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ خدا ان کے دلوں میں اور ان کے ارد گرد موجود ہے اور پوری کائنات کا ما حصل اللہ کی ہی ذات ہے۔ انہوں نے اس وحدت کو غیر مادی اور مادی دونوں طور پر محسوس کیا ہے۔ اور اسی کی وجہ سے (وحدت الوجوداور وحدت الشہود) کا فلسفے پروان چڑھا۔
فلسفہ وحدت الوجودکے سب سے بڑے ترجمان ابن العربی تھے جبکہ فلسفہ وحدت الشہود کے سب سے بڑے ترجمان حضرت مجدد الف ثانی تھے۔ قرآن مجید میں ایسی چند آیتیں ہیں جن سے ان فلسفوں کی تائید ہوتی ہے۔
‘‘اﷲ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے ۔ (30:30)’’
اقبال نے لفظ فطرت کا ترجمہ خدا کی سنت کیا ہے۔ ایک اور آیت جس سے اس فلسفہ کو تقویت ملتی ہے:
اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا۔ (4:1)
سابقہ آیت انتہائی اہم ہے اس لیے کہ عام الفاظ میں اس کی وضاحت کرنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے فطری اعتبار سے بندہ اور خدا دونوں ایک ہی طرح ہیں۔ اگر ہم اس آیت کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں تو اس سے اس قرآنی آیت کی خلاف ورزی لازم آئے گی جس میں یہ ہے کہ خدا منفرد اور یکتا و یگانہ ہے اور کسی بھی چیز کو اس کے مشابہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔
"اور بلند تر صفت اللہ ہی کی ہے ۔" (النحل: 60)
‘‘پس تم اللہ کے لئے مثل نہ ٹھہرایا کرو’’۔ (النحل: 74)
اب اس آیت کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ نے خود سے انسانوں کو پیدا کیا ہے جیسا کہ اس نے اس کائنات میں تمام چیزوں کو خود سے ہی پیدا کیا ہے۔ اس طرح خدا اور انسان کے درمیان ایک قسم کا اتحاد ہے اور خدا یہ نہیں چاہتا کہ انسان اس کی خلاف ورزی کرے یا دونوں کے درمیان شیطان کو راستہ دے کر اس وحدت کو توڑ دے۔ غیر مساوی افراد کے درمیان وحدت قائم ہو سکتا ہے یعنی بڑے اور چھوٹے، طاقتور اور کمزور کے درمیان وحدت پائی جھا سکتی ہے۔ ویدانت کا فلسفہ بھی اسی عقیدے پر مبنی ہے کہ خدا اپنی مرضی کے مطابق مختلف ہیٔت اختیار کر سکتا ہے۔ لہذا، اوتار واد کا ہندو فلسفہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جب بھی زمین پر برائی پھیل جاتی ہے تو خدا زمین پر برائی کو ختم کرنے کے لیے زمین خود کسی انسان یا جانور کی شکل میں اوتار لیتا ہے۔ سامی مذاہب میں یہ عقیدہ تھوڑا مختلف ہے۔ اس عقیدے کے مطابق خدا زمین پر برائی کو ختم کرنے اور ایمان کی حفاظت کرنے کے لیے نبیوں میں خود زمین پر نازل ہوتا ہے۔ انبیاء خدا نہیں ہیں۔
ناتھ اور سدھ فلسفہ کے مطابق خدا کو شیو کہا جاتا ہے۔ شیو شکل و صورت سے آزاد ہے اور اس کے پاس شکتی نامی ایک تخلیقی طاقت ہے۔ جب شکتی خود کو زور لگاتی ہے تو شیو اپار، پرم، شونیہ،نرنجن، پرماتما اور اسی طرح 25 مختلف مراحل سے گزر کر اپنی بے ہیئتی کو ختم کر دیتا ہے اور اور ایک مادی (انسان، جانور، پودوں وغیرہ) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس تخلیق کا مطلب کچھ نیا پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ خود کو مختلف شکلوں میں تبدیل کرنا ہے۔ اور تصوف میں یہی وحدت الوجود ہے۔ جب روحانیت کے مختلف مراحل سے گزر کر مادیت کی کثافت کم ہو جائے گی تو صوفی یا سادھو اپنے اصل شیو (خدا) سے مل جائیں گے۔
ایک دوسرا فلسفہ وحدت الشہود یعنی صرف تصوراتی طور پر وحدت کا فلسفہ ہے جو کہ وحدت الوجود کے فلسفے سے مختلف ہے۔ وحدت الوجود کی ہی طرح اس نظریہ کے مطابق بھی پوری کائنات خدا کا مظہر ہے۔ اس فلسفہ کے مطابق، کائنات کی تمام چیزیں ایک ہی ذات قادر مطلق کا مظہر ہے۔ زمانہ قدیم کے معاشرے میں اسی عقیدے کی وجہ سے لوگ خوف اور تعظیم میں فطرت کے تمام مظاہر اور اشیاء، خاص طور پر طاقتور چیزوں کی عبادت کرنے کرنے لگے۔ اس طرح پوری کائنات ایک بہت بڑی عبادت گاہ بن گئی۔ قرآن کی آیت:
"خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے" وحدت الشہود کے فلسفہ کی بنیاد ہے۔ یہاں روشنی سے مراد کوئی مادی یا جسمانی مواد نہیں بلکہ یہاں لفظ نور کا ذکر مجازی معنیٰ میں خدا کی قدرت مطلقہ کو اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کو بیان کرنے کےلیے کیا گیا ہے۔ اس آیت پر مفسر قرآنی مولانا اسلم جے راجپوری کے نظریہ سے اختلاف کرتے ہوئے اقبال نے 9 دسمبر 1930 ء کو نذیر نیازی کو لکھے گئے اپنے خط میں اس طرح رقم طراز ہیں:
: ..... لیکن اس آیت کو تاریخی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیئے۔ اس قسم کی آیتیں تقریبا تمام قدیم صحیفوں میں موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدایک روشنی ہے جس کا تعلق جسم و جسمانیات سےہے۔ اس آیت میں لفظ روشنی کو محض استعارہ کے طور پر لیا گیا ہے جو خدا کے حاضر و ناظر ہونے کو بیان کرنے کے لیے تقریباً تمام قدیم صحیفوں میں مذکور ہے۔ میری عاجزانہ رائے میں خدا کی مطلقیت کو ظاہر کرنے کے لئے اس قدیم استعارہ کا استعمال قرآن میں بھی کیا گیا ہے کیوں کہ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق صرف روشنی ہی نسبتا خالص ہے۔"
لہذا، ذیر نظر بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وحدت الوجوداور وحدت الشہود کا فلسفہ مسلم صوفیوں کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ویدوں سے لیکر قرآن تک تمام صحیفوں میں اس فلسفہ کی مضبوط بنیادیں ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
آفتاب احمد نیو ایج اسلام کے ایک کالم نگار ہیں۔ اور وہ کچھ عرصہ سے قرآن مجید کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-spiritualism/the-philosophy-wahdat-ul-wujud/d/87417
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-philosophy-wahdat-ul-wujud/d/97852