آفتاب احمد ، نیو ایج اسلام
عراق میں دولت اسلام عراق وشام نا م کی عسکری تنظیم کی عراق کی راجدھانی بغداد کی جانب فاتحانہ پیش قدمی جاری ہے۔ اس نے عراق کے کئی شہروں اورقصبوں بشمول موصل، تکریت ، رقہ، عانہ اور سرحدی شاہراہوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اس نے بیجی کی تیل ریفائینری پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ عراق کے فوجی افسران جو سنی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ باغیوں سے مل گئے ہیں ۔ مقبوضہ علاقوں کے سنی عوام بھی ان کے ساتھ ہیں جس کی وجہ سے انہیں ان علاقو ں میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑرہاہے۔عراق کے شیعہ صدر نوری المالکی کے پاس اس صورت حال اور سنی عسکری تنظیم سے نپٹنے کا کوئی واضح فارمولا نہیں معلوم پڑتا۔ وہ صرف امریکہ کی فوجی مداخلت پر آس لگائے بیٹے ہیں جبکہ امریکہ جوخود اس وقت معاشی دیوالئے پن کے دور سے گزرہاہے لڑائی جھگڑے کے یا تو موڈ میں نہیں ہے یا پھر فوجی مداخلت کے وسیع نتائج کے خوف سے شش و پنج میں ہے۔ جب اس نے صدا م حسین کے دور میں عراق میں فوجی مداخلت کی تھی اس وقت اس نے عالمی رائے عامہ اور اقوام متحدہ کو اپنے موؤقف کے حق میں کرلیا تھا اور تمام دنیا کو عراق کے خلاف اپنے مشن میں حامی بنالیاتھا مگر اب حالات بد ل چکے ہیں اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی دہائی دے کر دنیا کو بے وقوف بنانا اس کے لئے ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ گذشتہ سال بھی جب اس نے کیمیائی اسلحہ کی شام میں موجودگی کے حیلے سے شام میں شیعہ صدر بشار الاسد کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی تھی تو روس کے صدر پوتن مخالفت میں سامنے آگئے تھے اور دھمکی دی تھی کہ اگر امریکہ نے شام پرحملہ کیا تو اسے روس سے ٹکرانا پڑے گا۔اس نے سعودی عرب کو بھی دھمکی دی تھی کہ اگر شام پر حملہ ہوا تو روس سعودی عرب پر حملہ کرے گا کیونکہ شام میں سرگرم جنگجوؤں کو سعودی عرب مدد پہنچارہاتھا۔ روس کی ان دھمکیوں کی وجہ سے امریکہ کو شام پر حملے کا ارادہ ترک کرنا پڑا۔شام کے خلاف سعودی عربیہ ، قطراور امریکہ کے اضطراب کی وجہ صرف مسلکی نہیں ہے کیونکہ امریکہ کو اسلامی مسالک سے کیا غرض۔ دراصل روس کا شام کے ساتھ کئی دہائیوں سے فوجی اور معاشی معاہدہ ہے اور یہ معاہدہ اس خطے میں سعودی ۔قطری اور امریکی مفادات کے خلاف ہے۔ لہٰذا، بشارالاسد کے خلاف امریکہ اور عرب ممالک کی یہ مہم مسلکی سے زیادہ معاشی اور فوجی ہے۔سعودی عرب اور امریکہ نے اس علاقائی لڑائی کو کامیاب بنانے کے لئے اسے مسلکی رنگ دینے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ مختلف سنیّ علماء نے بھی پوری دینا کے سنیوں کو اس ’’جہاد ‘‘ مین شامل ہونے کا فتوی بھی جاری کیا جس میں ایک فتوی علامہ القرضاوی کا بھی ہے۔بہرحال، روس کی مداخلت سے شام پر چھایا ہوا خطرہ تو ٹل گیا مگر ’’مجاہدین ‘‘ کو جو تربیت اردن اور ترکی کی خفیہ تربیت گاہوں میں دی گئی تھی اسے عراق میں کام میں لگایا گیا۔ اگر موصولہ رپورٹ معتبر ذرائع سے آئی ہیں تو آئی ایس آئی ایس کے جنگجو ؤں کو اردن کے کیمپوں میں امریکہ نے تربیت دی ہے اور اس کے لئے فنڈ سعودی عرب اور قطر نے فراہم کئے ہیں۔ واضح ہو کہ گذشتہ سال قطر نے اپنے یہاں طالبان کو اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ عراق میں نہ صرف یہ کہ اپنی فوج بھیجنا نہیں چاہتا بلکہ وہ نوری المالکی کواقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتااور اوبامہ نے اس بات کا اشارہ بھی دے دیاہے۔
نوری المالکی سے امریکہ کی ناخوشی کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے فوج اور بیوروکریسی میں سنیوں کو ہٹاکر شیعوں کو بھرتی کرنا شروع کردیا۔ صدام حسین کے زمانے میں سنی صدام نے شیعہ اکثریت والے اس ملک میں فوج اور بیوروکریسی میں سنیوں کو نمائندگی دی تھی اور شیعہ اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی اقلیت میں تھے۔ نوری المالکی نے اپنے دور اقتدار میں فوج اور انتظامیہ میں شیعوں کو ترجیحی پوزیشن دینی شروع کی جس سے ایک طرف تو سنی آبادی میں بے چینی شروع ہوئی دوسری طرف سعودی عرب ، قطر اور دیگر سنی عرب ممالک اور امریکہ کو بھی تشویش ہونے لگی کیونکہ اس خطے میں شیعہ ممالک کی طاقت میں اضافہ ہونے لگا تھا اور اس کا مطلب تھا خطے میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ۔ کیونکہ اب تک تو صرف شام اور ایران ہی شیعہ ممالک تھے مگر نوری المالکی کے دور اقتدار میں عراق بھی شیعہ ملک میں پوری طرح سے تبدیل ہوچکاتھا جس کے لئے ضروری تھا کہ عراق میں بزور بازوشیعہ طاقت کو روکا جائے۔ لہذا، جو تربیت اور جو فوجی وسائل بشارالاسد کے خلاف تیا ر اور جمع کئے گئے تھے اور جو بوجوہ اس کے خلاف استعمال نہیں کئے جاسکے انہیں عراق کے خلاف لگادیا گیا ۔ اوبامہ کا اس بات پر اصرار کہ نوری المالکی عراق کے تمام طبقوں کو حکومت اور فوج میں مساوی شراکت دیں اسی ایجنڈے کی طرف اشارہ کرتاہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ عراق بھی شام کی طرح پوری طرح شیعہ ملک بن جائے کیونکہ اس سے ایران کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا جو پہلے سے ہی اس کے لئے سوہان روح بناہواہے۔
اگر آئی ایس آئی عراق پر قابض ہوجاتاہے جو کہ بعید از امکان نہیں ہے تو کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوگی کیونکہ آئی ایس آئی ایس کا اگلا ہدف بشارالاسد ہی ہونگے ۔ اس وقت آئی ایس آئی ایس کے پاس عراق کی پوری فوج اور تمام فوجی وسائل ہونگے اور وہ اپنی پوری طاقت سے بشارالاسد کے خلاف جنگی محاذ کھولے گا۔ اور یہی امریکہ اور سعودی عرب۔قطر کا مقصد بھی ہے۔ابھی تو ایران نے بھی عراق میں امریکی مداخلت کی مخالفت کی ہے ۔شاید ایران سمجھتاہے کہ بغیر امریکہ کی مداخلت کے آئی ایس آئی ایس نوری المالکی کا تختہ نہیں الٹ سکتااور عراق کے شیعہ ملیشیا اور عوام آئی ایس آئی ایس کا مقابلہ کرنے اور اسے روکنے کے اہل ہیں۔ ایسی خبریں آرہی ہیں کہ بغداد اور قرب وجوار کے علاقوں میں شیعوں اور کردوں نے آئی ایس آئی ایس کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے حلف شہادت لے لیاہے اور وہ مقدسات کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں پر کھیل جائیں گے۔ ایران نے بھی اشارہ دیا ہے کہ اگر عراق کے مقدسات کو باغیوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔ان حالات کی روشنی میں عراق ایک خطرناک خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا دکھائی دیتاہے۔لیکن یہ سوال بھی اٹھتاہے کہ جن علاقوں پر جنگجوؤں نے قبضہ کیاہے وہاں شیعوں نے کوئی مزاحمت کیوں نہیں کی۔
ایک دہائی قبل جارج بش نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی اور القاعدہ سے صدام حسین کے تعلقات کے بہانے عراق کو تباہ کردیا تھا اور صدام حسین کو پھانسی پر لٹکا دیاتھا۔ مگر آج اسی القاعدہ کی ایک شاخ نے عراق پر نہ صرف حملہ کیا ہے بلکہ اس پر قابض ہونے کے قریب ہے اور وہ ایسا امریکی مدد کے بل بوتے پر کررہاہے۔ اس سے دہشت گردی پر امریکی منافقت پوری طرح آشکارا ہوچکی ہے۔آج عراق کے فوجیوں سے لے کر عوام تک ان باغیوں کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے ہیں تو اس میں خود امریکہ کی منافقانہ پالیسیوں کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ امریکہ نے خلیج عرب و فارس میں جس گندی سیاست پر عمل کیا ہے اور اس خطے کو فوجی ، معاشی اور سماجی طور پر جس قدرتباہ کیاہے اس کی وجہ سے وہاں کے عوام امریکی پالیسیوں سے نالاں اور بے زار ہوچکے ہیں اور اس علاقے میں ایسی حکومت چاہتے ہیں جو امریکی اثر سے آزاد ہوتاکہ وہ اپنی بگڑی ہوئی تقدیر اپنے ہاتھوں سنوار سکیں اور اس کے لئے ہر اس طاقت کا ساتھ دینے پر تیار ہیں جو امریکہ کی چودھراہٹ کو چیلنج کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آئی ایس آئی ایس جیسی تکفیری تنطیم کو حمایت دی ہے۔ دوسری طرف نوری المالکی کی حکومت کے مسلکی تعصب نے بھی سنیوں کو اس سے بیزار اور عسکری تنظیم سے قریب کردیا ۔یہ عراق کے لئے فال نیک نہیں ہے کیونکہ اس عسکری تنطیم کا عراق میں بر سراقتدا رآنا اسلام کے لئے مسلکی خانہ جنکی کاپیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس کا پہلا نشانہ مقدسات ہونگے جو صرف شیعوں کے لئے نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے قابل تعظیم اور اسلای ثقافتی تشخص کے مینارے ہیں اور ان کو پہنچنے والا ادنیٰ سا بھی نقصان پوری اسلامی برادری کے لئے قابل صد اضطراب ہوگا۔ ایران خصوصا اس سانحے کو برداشت نہیں کرے گا اور اس طرح سے یہ خطہ مسلکی جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا اور اس کی آگ میں ناٹو ممالک اپنے ہاتھ سینکیں گے۔وقت رہتے اسلامی ممالک اس آنے والے خطرے سے گریز کی کوئی راہ نکال لیں تو یہ نہ صرف اس خطے کے لئے بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے فائدے مند ہوگا ورنہ انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اوبامہ یاجوج اور ماجوج کے اس ٹولے کے مکھیا ہیں جو اس خطے کے دریاؤں کے پانی کے آخری قطرے تک کو اس طرح پی لے گا کہ لوگ اس کی ریت کو دیکھ کر کہیں گے کہ شاید کبھی یہاں کوئی دریا بہتاتھا۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/islamic-identity-unity-danger-iraq/d/97683