New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 07:12 PM

Urdu Section ( 27 Apr 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Adieu Tarek Fatah: الوداع طارق فتح: آپ نے ملاؤں کا مقابلہ کیا، لیکن ہندو انتہاء پسندوں کے آگے جھک گئے

 

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

25 اپریل 2023

ان کی زیادہ تر تحریروں میں مسلمانوں اور خصوصاً ملاؤں کا مذاق اڑایا گیا

اہم نکات:

1. طارق اپنے آپ کو پاکستان میں پیدا ہونے والا ہندوستانی کہلوانا پسند کرتے تھے۔

2. انہیں پاکستانی حکومت اور علماء سے پریشانی تھی جنہوں نے اسلام کو ہی ملک کی واحد شناخت قرار دیا، باقی سب کو چھوڑ کر۔

3. محمد بن قاسم، بابر اور اورنگزیب ان کے لیے غیر ملکی حملہ آور تھے جنہوں نے ملک کو لوٹ لیا اور ہندوؤں کے ساتھ حقارت بھرا سلوک کیا۔

4. وہ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ بھارت میں نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کےبھی حامی تھے۔

-----


طارق فتح اب نہیں رہے۔ تریسٹھ سال کی عمر میں وہ بڑی آسانی سے کینسر سے جنگ ہار گئے۔ طارق کو اس طرح کی موت سے کوئی اعتراض نہیں ہوگا؛ کیونکہ  انہوں نے اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں اچھی لڑائی لڑی۔ سب سے پہلے قدامت پرستی کے خلاف  ایک نوجوان آئیڈیلسٹ کے طور پر، جب وہ پاکستانی حکومت سے ٹکرائے تو ان پر بغاوت کا الزام لگایا گیا اور انہیں سعودی عرب ہجرت کرنا پڑی جہاں سے وہ بالآخر کینیڈا گئے اور وہیں مستقل بود وباش اختیار کی۔ اپنی زندگی کے آخری دور میں، انہوں نے اچھی لڑائی جاری رکھی؛ پاکستانی حکومت کے خلاف، برصغیر کے مسلمانوں کے اندر انتہا پسندی اور شریعت کی طرف ان کی رغبت کے خلاف اور ان  ہندوؤں کے خلاف جو اپنے ہندوستانی شعور سے بیگانہ ہو چکے تھے۔

طارق خود کو پاکستان میں پیدا ہونے والا ہندوستانی کہلوانا پسند کرتے تھے۔ اس کی وجہ اس ملک اور اس کی تاریخ کے ساتھ ان کا گہرا لگاؤ تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پاکستان کے لوگوں سے نفرت کرتے تھے۔ بس وہ اپنی ہندی بنیادوں کو گلے لگانا چاہتے تھے۔ انہیں پاکستانی حکومت اور علماء سے پریشانی تھی جنہوں نے اسلام کو ہی ملک کی واحد شناخت قرار دیا، باقی سب کو چھوڑ کر۔بار بار، طارق نے انہیں یاد دلایا کہ لاہور اور کراچی بنیادی طور پر ہندو تاجروں کے ذریعے تعمیر کیے گئے شہر تھے، اس کے بعد انہیں تقسیم ہند کے خون خرابے میں وہاں سے نکلنا پڑا۔ طارق ان سے اپنے ثقافتی تکثیریت اور ماضی کی قدردانی کرنے کی ترغیب دے رہے تھے ۔ لیکن یقیناً ایک ایسے ملک میں جو ریاست مدینہ کی طرز پر ہونے  کا جنون رکھتا ہے، ان کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا گیا۔

سائنس کے طالب علم ہونے کے باوجود انہوں نے صحافت کے میدان میں اپنی شناخت بنائی۔ ٹورنٹو سن Toronto Sun میں اپنے کالموں میں انہوں نے  نہ صرف یہ کہ سیاسی اسلام کے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کیا بلکہ وہ اس بات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے کہ اس نظریے کو قدامت پسندوں کے حلقوں سے کس طرح حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ لبرل لیفٹ بازو سے دور ہو گئے اور قدامت پسندوں کے گھیرے میں آگئے۔ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ ساتھ نریندر مودی کی قیادت والی ہندوستان میں بی جے پی حکومت کی بھی حمایت کی۔ لیکن یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ان کا دائرہ کار سیاسی سے زیادہ تہذیبی اور ثقافتی تھا۔ انہوں نے ایک ایسے وقت کا خواب دیکھا جب ہندوستان عالمی تاریخ میں اپنا صحیح مقام دوبارہ حاصل کرے گا۔ وہ ایک اوسط ہندو کو ہندوستانی ورثے پر فخر کرنے کی ترغیب دیتے رہے کیونکہ اس نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ یقیناً وہ کوئی مورخ نہیں تھے اور بعض اوقات قدیم ہندوستان کی شان و شوکت کے بارے میں ان کے خیالات بڑے عجیب ہوا کرتے تھے اور انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا تھا۔

لیکن ان کی سخت ترین تنقید ہندوستانی اور پاکستانی دونوں کے مسلمانوں کے لیے مخصوص تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی ہندو بنیادوں کے قریب آئیں۔ کہ وہ ہندوؤں کی مذہبی شخصیات کی اسی طرح عزت کریں جس طرح وہ اپنی مذہبی شخصیات کی عزت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر مسلمان اصل میں ہندو تھے اور اس لیے یہ فطری ہے کہ وہ اس ماضی کا احترام کریں۔ محمد بن قاسم، بابر اور اورنگزیب ان کے لیے غیر ملکی حملہ آور تھے جنہوں نے ملک کو لوٹ لیا اور ہندوؤں کے ساتھ حقارت بھراسلوک کیا۔ یہ بات ان کی  سمجھ سے باہر تھی کہ مسلمان ان بے رحم بادشاہوں کا نام کیوں اپنا لیتے ہیں۔ یہ اس طرح کے خیالات سے دہلی میں اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر اے پی جے عبدالکلام روڈ رکھنے کی مہم شروع ہوئی۔

اپنی آخری دہائی کے دوران، وہ ہندوستان میں بے حد مقبول ہوئے، جس کی ایک وجہ سوشل میڈیا کا دھماکہ تھا۔ اور اس لیے بھی، کیونکہ وہ کسی بھی ٹیلی ویژن مباحثے میں چلے جاتےتھے جس میں وہ پاکستانیوں اور ہندوستانی مسلمان علماء پر حملے کرناپسند کرتے تھے۔ یہاں تک کہ انہیں ہندوستان کے ایک سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک میں اپنا شو بھی دیا گیا جہاں وہ مسلم علماء کو بلا کر ان سے سخت سوالات کرتے تھے۔ کئی بار ان مولویوں کے پاس ان کے سوالات کے جوابات نہیں ہوتے تھے اور وہ اٹھ کر شو سے باہر چلے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے انہیں  لائیو شو میں مرتد اور واجب القتل بھی کہا۔ لیکن طارق اس وقت تک اپنے ان پروگراموں میں مشغول رہے، جب تک کہ ٹی وی نیٹ ورک نے خود ہی پاؤں پیچھے کر کے اس پروگرام کو بند نہیں کر دیا۔ طارق میں یقیناً بہت سی خامیاں پائی جا سکتی ہیں، لیکن ہر کوئی مانے گا کہ وہ ان مولویوں میں سے کچھ کو جواب دینے میں کافی ماہر تھے۔

اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان کی موت کی خبر پر سوشل میڈیا پر بہت سے مسلمانوں خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی نے کینیڈا کے مسلمانوں سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ طارق کی لاش کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دیں۔ یہ الواجدی خود کو مفتی ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ طارق نے کبھی خود کو سابق مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو مسلمان کہا لیکن اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملاؤں نے اپنے مفادات کے مطابق میرے مذہب کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ واجدی جیسے لوگ صرف اسی بات کو ثابت کرتے ہیں جو طارق کر رہے تھے: کہ اسلام کے ترجمان اس بدحالی کے ذمہ دار ہیں جس میں آج مسلم معاشرہ خود کو پا رہا ہے، جہاں انسانی حقوق، انسانی وقار، تکثیریت اور دوسرے مذہب کے احترام جیسے اہم مسائل پر کوئی نئی سوچ نہیں ہے۔

طارق سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہا کرتے تھے ۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بعض اوقات وہ اس میں اس قدر مست ہو جاتے تھے کہ وہ ایسی چیزیں بھی دوبارہ پوسٹ کر دیا کرتے تھے جو جھوٹی ثابت ہو چکی ہوتی تھیں۔ تاہم، یہاں تک کہ جب ان کے پوسٹ کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جاتا ، تب بھی ان کے لیے اسے ہٹانا ناگوار تھا۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر تحریروں میں مسلمانوں اور خصوصاً ملاؤں کا مذاق اڑایا ہے۔

طارق کی بہت سی تقریروں میں بعض اوقات جو چیز تشویشناک  ہوتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے درمیان فرق کی تمیز نہیں رکھتے تھے۔ اسلام کو ایک نظریاتی نظام کے طور پر کئی طریقوں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، اس کی تنقید کی جا سکتی ہے اور اس کی اصلاح کے لیے تجاویز پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن جب آپ یہ کہنا شروع کردیں کہ مسلمان غربت اور ناخواندگی کے تناظر میں کوئی توجہ دیے بغیر بے شمار بچے پیدا کرتے ہیں تو یہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ وہ اپنی آبادی بڑھانے کے واضح ارادے کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں اور یہ ایک جہاد ہے۔ طارق نے یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا اور مسلمانوں کی ایک ایسی تصویر د نیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ان کی تنقید کی جانی چاہیے، جسے انتہا پسند ہندو پھیلانا پسند کرتے ہیں۔

بعض اوقات ایسا لگتا تھا جیسے وہ اصلاح کر رہے ہوں۔ مثال کے طور پر، ’لو جہاد‘ کے معاملے پر، ان کا موقف واضح تھا کہ دو افراد قطع نظر اپنے اپنے مذہب ایک دوسرے سے شادی کرنے کے لیے آزاد ہیں اور والدین کو اپنے بچوں کو ایسا کرنے کی آزادی دینی چاہیے۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں ان کا موقف ایسا ہوتا تھا جسے صرف ہندو انتہاء پسندوں کی حمایت ہی کہا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر، طارق کی مقبولیت سوشل میڈیا پر ہے۔ لیکن اس کے سب سے پرجوش پیروکار وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے سوال کو کبھی ہمدردی سے نہیں لیا۔ طارق اپنے انتہائی حوصلہ افزا سامعین پر اس انحصار کو ختم کرنے میں ناکام رہے اور یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ان کی بہادری کو ناکارہ پایا گیا۔

الوداع طارق، اپ کی کمی محسوس ہو گی۔

 

URL:    https://newageislam.com/urdu-section/adieu-tarek-fatah-mullahs-hindu-right/d/129649


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..