ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
1 جون 2025
مطالعہ مذاہب و ادیان کا ایک پہلو علمی ، فکری اور نظریاتی بھی ہے ۔ اس تناظر میں بھی اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب ، ان کی تہذیب اور رسومات و عقائد کا تجزیہ کرنا چاہیے ۔ جب کسی موضوع اور نظریہ کا علمی و فکری تجزیہ بلا تعصب کیا جاتاہے تو ایسا تجزیہ معاشرے میں رائج غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کے ازالہ کا سبب بنتا ہے ۔ فکری ہم آہنگی اور رواداری کا بھی علمبردار ہوتا ہے ۔ علمی و تحقیقی نقطہ نظر سے جو افادہ عوام اور خواص کو پہنچتا ہے اس کی وقتی اہمیت نہیں ہوتی ہے بلکہ دور تک اور دیر تک اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ہم نے دیکھا اور پڑھا ہے کہ علمی اور فکری تجزیے اس لیے بھی کیے جاتے ہیں کہ وہ سماج کے لیے کچھ بہتر دیتے ہیں اور پھر معاشرے کے افراد ان خطوط کے مطابق خود کو استوار کرتے ہیں ۔ قوموں اور معاشروں کی تاریخ کا روشن اور تابناک پہلو وہی ہوتا ہے جس میں نظریاتی اور علمی روایات و اقدار کی اہمیّت سمجھی جاتی ہے اور اس کو اچھے طریقہ سے برتا بھی جاتا ہے ۔
جب ہم مطالعہ مذاہب کی بات کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اب تک مذاہب و ادیان کی بابت دانشوروں اور ماہرین ومفکرین نے درج ذیل نوعیت سے کام کیا ہے ۔ علمی اور تحقیقی ، تقابلی نوعیت کا کام ، تجزیاتی اور تنقیدی مطالعہ، مناظرانہ مطالعہ اور معاشرے میں رواداری کے فروغ کے لیے ۔ مسلم اسکالر کی ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور علمی و تحقیقی تجزیہ کرکے سماج میں مثبت نظریات کی اشاعت کی ۔
مسلم اسکالرز نے مطالعہ ادیان پر جو علمی اور تحقیقی کام کیا ہے اس کی بنیادی تحریک اور اولین تحریک قرآن و سنت سے ملتی ہے ۔ قران کریم میں سابقہ انبیاء و سابقہ امم کے متعلق آیات موجود ہیں۔ مثلا قصہ آدم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ، حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر ،حضرت اسحاق علیہ السلام کا تذکرہ نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر۔ علاوہ ازیں بنی اسرائیل، قوم عاد، قوم ثمود، قوم عمالقہ ،اصحاب الایکہ اصحاب رس، قوم لوط اور قوم صالح وغیرہ وغیرہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن تقابل ادیان کی کتاب ہے۔ ہاں یہ کہنا درست ہے کہ قرآن میں بھی اس موضوع سے متعلق اشارات پائے جاتے ہیں جو نوع انسانیت کے لیے درس عبرت ہیں ۔ یہ وہ حقیقی شواہد ہیں جو مطالعہ ادیان پر کام کرنے والے اصحاب علم و فضل کے لیے مشعل راہ اور بین ثبوت ہیں ۔اس کے بعد دوسرا سب سے اہم اور بنیادی مصدر مطالعہ ادیان پر کتب احادیث ہیں اگر نگاہ تدبر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ احادیث میں نہ صرف سابقہ انبیاء کے احوال بیان فرمائے ہیں بلکہ سابقہ امتوں کے متعلق بھی کافی تفصیلات قلم بند کی گئی ہیں مثلا کتب احادیث میں "کتاب الانبیاء" کے ذیل میں محدثین عظام جو احادیث لائے ہیں ان کا تعلق بھی مطالعہ مذاہب سے بہت گہرا ہے۔ اسی طرح بعض کتب تواریخ اور سیر میں بھی مطالعہ مذاہب پر مباحث درج ہیں مثلا ابن کثیر نے اپنی "کتاب البدایہ والنہایہ " علامہ عبدالرحمن ابن خلدون نے" دیوان المبتداوالخبر " ابن اسیر نے "الکامل فی التاریخ " وغیرہ میں سابقہ انبیاء علیہ السلام کی بابت کافی علمی اور اہم بحثیں کی ہیں۔ متقدمین علماء نے بھی اس موضوع پر بہت ہی علمی کام کیا ہے ۔ ابن حزم ظاہری کی" الفصل فی الملل والنحل" علامہ عبدالکریم شہرستانی کی" الملل والنحل " علامہ ابن تیمیہ کی الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح" ابن قیم جوزیہ کی ہدایت الحیاری فی اجوبة الیہود والنصاری " سرسید احمد خا کی تبیین الکلام فی تفسیر التوراة والانجیل علی ملة الاسلام " اس کے علاوہ ایک اور بہت ہی اہم کتاب جو تورات کی تفسیر پر ہے مولانا عنایت رسول چریا کوٹی کی "بشری " شہزادہ دارا شکوہ نے اپنیشدوں کا فارسی ترجمہ "سر اکبر" کے نام سے کیا تھا۔ نیز عرب ممالک میں بھی مطالعہ مذاہب پر خاصا تحقیقی کام ہوا ہے ۔ معروف محقق احمد شلبی نے "ادیان الہند الکبری" کے نام سے کتاب لکھی۔ معروف محدث ضیاء الرحمن اعظمی کی تصنیف" دراسات فی الیہودیہ والمسیحیہ و ادیان الہند" قابل ذکر ہیں۔ ان کتب کے علاوہ کئی مذاہب و ادیان نمبر بھی نکلے ہیں جیسے گگن کا مذاہب نمبر اور جماعت اسلامی سے شائع ہونے والے سہ روزہ دعوت نے بھی مذاہب نمبر نکالا تھا۔ مطالعہ ادیان پر مذکورہ کتب یقینی طور سند و متن اور دستاویز کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج کے دور میں مطالعہ ادیان پر درس گاہوں اور دانش گاہوں میں بھی بہت زیادہ علمی و تحقیقی کام ہو رہا ہے جن میں برصغیر پاک ہند کے علاوہ مغرب کی دانش گاہیں بھی شامل ہیں ۔ مطالعہ مذاہب پر علمی و تحقیقی کا کے لیے باقاعدہ شعبہ جات بھی قائم ہو چکے ہیں ۔ جہاں مطالعہ ادیان کے متعدد گوشوں کو بروئے کار لا کر معاشرے میں ہم آہنگی کی روایات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ دراصل مطالعہ ادیان کے دو بنیادی حصے ہیں ایک سامی ادیان اور دوسرا غیر سامی ادیان لہذا جوں جوں مطالعہ ادیان پر علمی و تحقیقی کام ہوتا گیا اس کے نئے گوشے اجاگر ہوتے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ جہاں عربی میں مسلم مفکرین اور اصحاب علم نے اس موضوع پر نہایت وقیع کام کیا ہے تو وہیں اردو زبان و ادب میں بھی مطالعہ ادیان پر خصوصا ہندوستانی مذاہب پرمسلم اسکالرز نے بڑا تحقیقی کام کیا ہے۔ جن مسلم علماء نے مطالعہ مذاہب کی تحقیق و تدوین کی ہے ان کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
احمد دیدات کی کئی کتابیں ہیں ، خواجہ حسن نظامی کی کرشن جیون اور ہندو دھرم کی معلومات، ڈاکٹر محمد فاروق خاں ، مولانا حامد علی ، معروف مؤرخ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی یہ سب وہ مصنفین ہیں جنہوں نے مطالعہ مذاہب پر باقاعدہ علمی و فکری کتابیں تصنیف کی ہیں ان کے علاوہ بہت سے علماء ایسے بھی ہیں جنہوں نے باقاعدہ ہندوستانی مذاہب پر کوئی علمی کتاب تو نہیں لکھی البتہ انہوں نے اپنی دیگر کتابوں کے ضمن میں بڑی فکر انگیز اور علمی گفتگو ہندوستانی مذاہب پر کی ہے ۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب " الجہاد فی الاسلام" اور تفسیر " تفہیم القرآن " میں ، علامہ شبلی نعمانی نے اپنی مختلف کتابوں کے ضمن میں ، سید امیر علی نے" روح اسلام " میں، پروفیسر محمد حمید اللہ ، مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا مناظر احسن گیلانی ، مولانا ابوالکلام آزاد اور قاضی سلیمان منصور پوری وغیرہ نے ہندوستانی مذاہب کا جائزہ نہایت عالمانہ اور محققانہ لیا ہے ۔ اس تمام علمی و فکری سرمایہ سے تحریک ملتی ہے کہ اس موضوع پر مزید علمی و تحقیقی کام کیا جائے تاکہ سماج میں امن و امان کی فضا ہموار ہوسکے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی دینیات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قائم مرکز مطالعہ مذاہب جدید تحقیق کے مطابق مذاہب کا مطالعہ کررہے ہیں ۔ جو ہماری ایک علمی ضرورت ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ کہنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج ہمارے سماج میں متنوع نظریات اور عقائد و اعمال پائے جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کی علمی و تحقیقی حیثیت کے ساتھ ساتھ تاریخی حیثیت بھی مسلم ہے ۔ اس لیے بھی ان کا علمی تجزیہ ٹھیک ٹھیک کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنی نئی نسل کو کچھ دے سکیں ۔ متذکرہ سطور کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مطالعہ مذاہب کی ضرورت و اہمیت کا ایک نمایاں پہلو علمی اور تحقیقی بھی ہے ۔ علم و فضل اور تحقیق و تفتیش کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کی مہتم بالشان ضرورت مذہب کو نہ صرف نظر انداز کیا جائے بلکہ اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب و ادیان اور افکار و نظریات کے محاسن و محامد اور علوم و معارف سے شناسائی ہو اور معروضی انداز میں مخاطب معاشرے کے سامنے حقائق تشت ازبام کیے جائیں تاکہ صحت مند اذہان و قلوب ان سے مجلی و مصفی ہوسکیں اور معاشرے میں مذاہب کے مطالعہ کی علمی فضاء ہموار ہو جو ہماری بنیادی ضرورت ہے ۔
یاد رکھیے! اس وقت دنیا کو امن و امان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور امن و امان کے لیے خطرہ جہاں اور اسباب ہوتے ہیں وہیں ہمارا اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کے ساتھ معاندانہ رویہ بھی ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کے مذاہب کے لیے یہ معاندانہ رویہ اسی وقت زائل ہوسکتاہے جب ہم دیگر مذاہب کا مطالعہ تحقیقی اور علمی انداز میں کریں گے ۔ معروضیت اور غیر جانبداری ہماری تحقیق میں شامل ہو جائے تو پھر اس سے واقعی سماج میں روحانی اور فکری استحکام آتا ہے جو معاشرے کے تئیں فال نیک ثابت ہوتا ہے ۔
مناظرانہ انداز اور تحقیق میں عدم معروضیت ایسا منفی پہلو ہے جس سے سماج کا ہر فرد متاثر ہوتا ہے اور یہ رویہ مطالعہ مذاہب میں اختیار کیا جاتاہے تو اس کا اثر مزید بڑھ جاتاہے ۔ حساس معاشروں کا رویہ اور ان کا انداز تحقیق و تصنیف کبھی بھی منفی اور جانبداری پر مبنی نہیں ہوتا ہے اسی وجہ سے ایسے محققین کے علمی و تحقیقی کارناموں کو تاریخ میں جلی حروف سے ثبت کیا جاتا ہے ۔
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/academic-necessity-studying-religions/d/135735
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism