ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
17 جون 2025
یہ ناقابل تردید صداقت ہے کہ سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی نے جہاں نوع انسانی کو بے شمار فوائد و ثمرات سے ہمکنار کیا ہے وہیں ان تحقیقات و تجربات نے نوع انسانی کو بہت سارے فکری اور نظریاتی مسائل سے بھی واقف کرایا ہے۔ علم و فن کے بہت سارے باب وا ہوئے ہیں۔ جن سے علمی حلقوں ،خصوصاً ہمارے نوجوانوں میں علمی و آگہی کا شعور اور تحقیق کا جذبہ پیدا ہوا ہے اور اب یہ سلسلہ عصری دانشگاہوں سے نکل کر دینی درسگاہوں میں بھی پہچ چکا ہے۔ یہی وجہ کہ مدارس کے طلباء اب دانشگاہوں کا کثرت سے رخ کررہے ہیں وہ وہاں بڑے بڑے میدانوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ سماجیات، سائنس، میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر کئی حساس شعبوں میں اپنی قابل قدر نمائندگی درج کرارہے ہیں۔یہ اس بات کی دلالت ہے کہ مسلم کمیونٹی کا ایک اچھا خاصا طبقہ علم و فن کی نہ صرف ضرورت محسوس کررہا ہے بلکہ اس کو حاصل کرنے کے لیے بھی کوشاں نظر آ تا ہے۔ لیکن سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب ہماری صفوں میں سے کچھ لوگ علم کی تقسیم دین اور دنیا کے نام پر کرتے ہیں اور عوام کے سامنے ان علوم کو نہایت بدتر بناکر پیش کیا جاتاہے جو دانشگاہوں ،کالجوں اور اسکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس سے یقیناً معاشرے میں ان علوم کو حاصل کرنے کی خواہ کم ہوتی ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے یہاں تک کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس علم کا موجد فلاں ہے لہذا اس کے حاصل کرنے سے انسان بد دین ہی ہوگا ۔یاد رکھئے معاملہ کوئی بھی ہو متوازن سوچ اور سنجیدہ نظریہ ہی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ اس لیے آ ج اگر ہمیں آ گے بڑھنا اور مختلف فکری و نظریاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم علوم کی دینی اور دنیوی تقسیمِ کو معدوم قرار دیں ۔البتہ علم نافع اور غیر نافع کی تقسیم بجا ہے۔ اسی طرح اس پہلو پر بھی نظر رکھنی ہوگی کہ جدید ایجادات کے منفی پہلوؤں کونظر انداز کرتے ہوئے اس کے مثبت گوشوں سے استفادہ کیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ آ ج مخصوص فکر سے وابستہ طبقہ ہر نئی چیز کو معاشرتی ترقی کے لیے سد باب سمجھتا ہے اور اس کی حقیقت و ماہیت سے واقفیت حاصل کرنے کے بجائے اس کے خلاف فتوی جاری کردیتا ہے۔ پھر سماج میں بد امنی اور انتشار وخلفشار کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ در اصل یہی وہ فکر اور نظریہ ہے جو ہمیں اور ہماری نسلوں کو علمی زوال کی طرف لے جاتا ہے۔ اس طرح کے رویہ سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔ جب چیزوں اور حالات کا درست و مناسب تجزیہ کرنے کا مزاج سرد پڑجائے یا اس میں لچک و طرفداری آ جائے تو پھر اس کے نقصانات زندگی کے تمام شعبوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ برعکس جن قوموں اور معاشروں کو احوال کا درست تجزیہ کرنے اور جدید چیزوں سے استفادہ کرنا ان کے مزاج میں ہوتا ہے ہمیشہ ان کے کارناموں کو تاریخ میں جلی حروف سے لکھا جاتاہے۔ ہم نے ماضی میں ہر شعبہ میں جو گرانقدر خدمات انجام دی تھیں ان کو خود ہم نے اپنے مفادات کی وجہ سے روند ڈالا ہے۔ ان تمام باتوں کا اب صرف ذکر کرنا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ ہمیں بہت گیرائی سے سوچنا ہوگا۔ اب ذرا مسلم کمیونٹی کا جائزہ لیجئے تو پتہ چلے گا کہ آ ج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم قوم صرف عصری علوم و فنون میں ہی پسماندہ نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی علوم ومعارف میں بھی زبردست زوال پذیر ہے۔ اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ اس پر تمام دینی، فکری ،علمی اور تحقیقی اکیڈمیوں، جماعتوں اور تنظیموں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ دینی درسگاہوں میں تحقیق و تفتیش اور وسعت فکر ونظر کا جس تیزی سے زوال ہورہا ہے وہ بھی قابل غور پہلو ہے۔ اسلامی علم و دانش کے حلقوں کی صورتحال بہت زیادہ تشویشناک ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال کا مناسب تجزیہ اور اس کی علت کا پتہ لگانا بہت ضروری ہے ۔
اس سلسلے میں راقم الحروف کے نزدیک پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی ادارے، تحقیقی اکیڈمیاں اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ آ زاد نہیں ہیں بلکہ وہ کسی نہ کسی فکر، نظریہ اور مسلک کے نمائندہ اور اسیر ہیں اسی وجہ سے ان اداروں میں نظریاتی، فکری اور تحقیقی کام کم ،بلکہ اپنے مسلک و فکر کی نمائندگی اور شخصیات پر کام زیادہ ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بہت سارے اداروں اور درسگاہوں کے سربراہان تو اب یہ شرائط رکھ تے ہیں کہ آ پ ہمارے یہاں کام اسی وقت کرسکتے ہیں جب کہ آ پ ہماری فکر ونظر کی نمائندگی کریں۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ صورتحال اس قدر محدود اور تنگ ہو تو ایسے ماحول میں علمی و فکری کام کیسے کیا جاسکتا ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہ سوچ صرف دینی درسگاہوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اب اس کی چنگاری نے عصری دانشگاہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جو جو مسلک پرست لوگ دینی اداروں سے ہوتے ہوئے دانشگاہوں میں پہنچے تو انہوں نے وہاں کے ماحول کو بھی اپنی فکر اور تنگ نظری سے پوری طرح آلودہ کیا۔ یہ علمی زوال اورفکری سطحیت کا ایسا بین ثبوت ہے کہ جس میں تقریبا تمام اداروں اور مسالک کے نمائندے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ملوث ہیں۔ اس نے علم و ادب کے بہت سارے گوشوں کو سامنے آ نے سے روکا ہے۔ اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جب آ پ کسی فکر اور نظریہ سے ہم آہنگ ہوکر یا پہلے سے کوئی نظریہ قائم کرکے تحقیقی و تنقیدی اور علمی کا م نہیں کرسکتے ہیں۔ ریسرچ و تحقیق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ پہلے سے کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے بلکہ دلائل و براہین کی بنیاد پر جو نظریہ اور فکر پروان چڑھے اسے اختیار کرنا چاہئے خواہ وہ رائےخود محقق کے عقیدہ اور فکر ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ سچ بھی یہی ہے کہ تحقیق کی بنیاد پر قائم ہونے والی فکر مستحکم اور قدر و وقعت کی حامل ہوتی ہے۔
اسی فکری اور علمی تنگ نظری نے ایک اور چیز کو جنم دیا وہ یہ کہ ہم نے اپنے نظریہ کے خلاف دوسری تمام تحقیقات سے اخذ واستنباط کرنا چھوڑ دیا حتیٰ کہ بعض افراد تو اتنے متشدد ہوتے ہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے مسلک کے عالم واسکالر کی تحریر پڑھتے ہوئے یا اس سے استفادہ کرتے ہوئے دیکھ بھی لیتے ہیں تو وہ علمی کام ان کی نگاہ میں گناہ ہوتا ہے۔
اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا میں سرخ روئی اور عزت و احترام حاصل کرنے کے لیے اولا ہمیں علم و ادب اور تحقیق و تفتیش کے تئیں تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ہر نئی چیز پر ممانعت کا حکم صادر کرنے سے قبل اس کے دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے تبھی جاکر ہم اپنے علمی سفر کو جاری رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اسلامی علوم ومعارف پر جو زوال آ یا ہے یا جو زوال مزید آ نے کا خطرہ ہے اس کے اسباب پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دینی ادارے اور مذہبی جماعتیں فکر و نظر تابناک مثالیں قائم کریں اور بڑے بڑے اصحاب دانش و بینش اور مفکر و نقاد پیدا کریں تو پھر لازمی طور پر ہمیں ان تمام روایات کو ترک کرنا ہوگا علمی سفر میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں ۔ جب ہمارے اداروں کا عام رجحان متوازن اور معتدل ہوجائے گا تو اس کے جو دور رس اور مفید اثرات مرتب ہوں وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہیں۔
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/academic-intellectual-religious-institutions-tragedy/d/135897
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism