ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
4 مارچ 2025
ہر مذہب کی ماننے والے فطری طور پر یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مذہب اور معتقدات کا احترام کیا جائے اور اس کی اصل تعلیمات کی روشنی میں اس کے بارے میں رائے قائم کی جائے۔ انسانی معاشرے کی مختلف طبقات کے درمیان مفاہمت اور پرامن بقائے باہم کے لیے یہ ضروری بھی ہے۔ بدقسمتی سے دوسرے مذاہب کے بارے میں انسانی رویوں کی تشکیل معروضیت اور حق پسندی کے بجائے تعصبات اور سنی سنائی باتوں پر کی جاتی ہے۔ اس کے زیر اثر دوسرے مذاہب کی جو تصویر ابھرتی ہے اس کا حقیقی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ لیکن ان کے پیروکاروں کے ساتھ معاملہ اسی غیر حقیقی تصور کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس رویہ کو یقینی طور پر روکنے کی ضرورت ہے ۔ البتہ ایسے اقدامات بھی اس کائنات میں ہوئے ہیں جن کو مذاہب کے مطالعہ کے لیے آج بھی مثالی سمجھا جاتا ہے ۔ چنانچہ ابو ریحان بیرونی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ وہ ایک عظیم سائنسداں ، سیاح اورفادر آف انڈو لوجی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
گویا بیرونی کی علمی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہے البتہ بیرونی کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے ہندو دھرم اور اس کی تاریخ و تہذیب پر بڑا وقیع اور معروضی کام کیا ہے ۔ بیرونی نے ہندو دھرم کے متعلق جو کام کیا ہے وہ غیر معمولی اس لیے بھی ہے کہ اس نے سنسکرت زبان سیکھ کر اور ہندوؤں کے اصل متون سے استفادہ کرکے " کتاب الہند" جیسی فکر انگیز کتاب تحریر کی ۔
بیرونی نے اس کتاب کے اندر جو تحقیقی انداز اختیار کیا ہے اس کی اہمیّت ہمیشہ تابندہ رہے گی ۔
کیونکہ بیرونی کا طریقہ تحقیق تقابلی تھا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مذاہب کا تقابلی مطالعہ اس شخص کے لیے آسان ہوسکتاہے جو موجودہ مذاہب میں سے کسی کا پیرو نہ ہو۔ لیکن بیرونی کے ساتھ یہ معاملہ ہر گز نہ تھا کیوں کہ وہ مذہب اسلام کا تابعدار تھا اور اس نے خدا رسول پر ایمان کا برملا اظہار بھی کیا ہے۔ علاوہ ازیں جس ماحول میں وہ زندگی گزار رہا تھا وہ دور مذہب میں راسخ العقیدگی کا تھا، وہ جانتا تھا کہ اس کی کتابیں اسی دینی فضا میں پڑھی جائیں گی، پھر بھی وہ اپنے مطالعے میں پوری غیر جانبداری اور کمال معرفت سے کام لیتا ہے اور کہیں بھی تعصب کی پرچھائی نہیں پڑنے دیتا ہے ۔ وہ نہ تو اسلام کی برتری کا اعلان کرتا ہے اور نہ یہ جتاتا ہے کہ مسلمانوں کی تہذیبی و علمی ترقی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج بھی اس شعبہ علم کے محققین میں سازو نادر ہی کوئی ایسا ملے گا جس میں بیرونی کی سی غیر جانبداری اور معروضیت پائی جاتی ہو۔
سچ بات یہ ہے کہ بیرونی نے جس انداز سے ہندوؤں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت و روایات کا جائزہ لیا ہے اس میں قطعی جھکاؤ نہیں ملتا ہے ۔
جب کوئی تحقیق پوری ایمانداری سے کی جاتی ہے تو اس کے اثرات سماج پر مثبت مرتب ہوتے ہیں۔
بیرونی کی کتاب الہند پڑھنے سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ وہ قوموں کی باہمی دوری اور بیگانگی کو ایک دوسرے کے لیے بہت مضر سمجھتا تھا۔ اگر رواں حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کا یہ سمجھنا بہت صحیح تھا۔ کیونکہ ایک دوسرے کی لاعلمی سے بیگانگی پیدا ہوتی ہے اور بیگانگی آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بہرا کر دیتی ہے۔ جس سے ذاتی، نسلی، اجتماعی اور قومی تعصب پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد دل آزاری اور خونریزی شروع ہو جاتی ہے، جس کو قومی سرخ روئی کا نام دیا جاتا ہے، بیرونی نے اپنی اس کتاب کے آغاز میں ہی لکھا ہے کہ بے تعلقی کی حالت میں جو چیز نہیں معلوم ہو سکتی، وہ میل جول کی حالت میں ظاہر ہو جاتی ہے، اس میل ملاپ کی فضا کو پیدا کرنے کی خاطر اس نے انتہائی مستعدی اور ایمانداری کے ساتھ یہ کتاب تحریر کی۔
البیرونی نے گیارویں صدی عیسوی کے ہندوؤں کے مذہبی حالات کی مستند اور معتبر تاریخ قلم بند کرکے قومی یکجہتی اور رواداری کے عملی اقدامات کی طرف جس طرح سے مہمیز کیا ہے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے مسلم اسکالرس کو یہ سبق لینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی شخص ہندو دھرم یا کسی دوسرے دھرم پر کوئی تحقیق کرے تو اسے اپنی تحقیق میں کسی طرح کی جانبداری کا احساس نہیں ہونے دینا چاہیے ۔ اس کا مذہب اور نظریہ اگر چہ اس مذہب کے مخالف ہو جس پر وہ تحقیق و تفتیش کررہا ہے۔ حقائق کا اعتراف کرنا اور خوبیوں کا برملا اظہار کرنا خواہ وہ کسی دھرم اور کسی تہذیب و تمدن میں پائی جاتی ہوں تحقیقی عمل کی بنیادی ضرورت ہے ۔
ابو ریحان البیرونی نے اپنی اس کتاب میں ایک پیغام یہ بھی دیا ہے کہ ایک دوسرے کے افکار و نظریات اور دین و دھرم کا مطالعہ کرکے ہم اپنے سماج اور معاشرے سے بہت ساری غلط فہمیاں اور دوریاں معدوم کرسکتے ہیں ۔ جو غلط فہمیاں کسی بھی معاشرے میں فساد اور تشدد کا باعث بنتی ہیں اور ان سے تکثیری سماج کی روح بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اس کردار سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ جب ہم کسی دوسرے مذہب کا مطالعہ کریں تو اس مذہب کے اصل مراجع سے براہ راست استفادہ کریں ، سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے ۔ البیرونی کی کتاب الہند اس حوالے سے بھی تحقیق کا شاہکار ہے ۔ آج ہمارے یہاں کتنے لوگ ایسے ہیں جو سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے آگے بڑھا دیتے ہیں جس سے پھر سماج میں کشیدگی اور تناؤ کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا کسی دھرم کے متعلق ناقص معلومات نہیں پہنچانی چاہیے ۔
مذاہب کے مطالعہ کی مسلمانوں میں ایک قدیم روایت رہی ہے ۔ مگر آج اکثر غیر مسلم حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے مطالعہ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے ہیں ۔البیرونی نے مطالعہ مذاہب یا مکالمہ بین المذاہب کے حساس موضوع پر کتاب لکھ کر اس اعتراض کو بھی رفع کیا ہے ۔
مذاہب کے مطالعہ کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی جارہی ہے کہ یہ دنیا اب ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے باوجود دوری کے ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں ۔ ایسے ماحول میں ہمیں ایک دوسرے کے مذہب و ثقافت کو صرف سرسری طور پر ہی سمجھنا نہیں چاہیے بلکہ سنجیدگی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ نفرت کا خاتمہ ہوسکے ۔ یہ سچ ہے کہ ماضی میں مطالعہ مذاہب پر مسلمانوں نے جو کام کیا ہے اس میں معروضیت جھلکتی ہے ۔ البتہ عہد حاضر میں ہمارے یہاں مطالعہ مذاہب کے نام سے جو علمی و تحقیقی کام ہو رہا ہے اس میں یقینی طور پر ان اصولوں کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے جن کو ابو ریحان البیرونی جیسے مفکرین نے رکھا تھا ۔ تکثیری سماج میں انہیں آراء اور نظریات کو باقی رکھا جاسکتا ہے یا قوم و ملت کو وہی خیالات مثبت خطوط و نقوش فراہم کرسکتے ہیں جن میں تحمل و برداشت اور احترام کا جذبہ پایا جاتا ہو ، تکثیری معاشرے کے تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔ ورنہ تو کتنے ایسے افراد ہیں جو اپنے نظریات کی بناء پر ختم ہوگئے ۔ ابو ریحان البیرونی اور اس کے خیالات آج بھی اسی لیے زندہ ہیں کہ اس نے علم و تحقیق کی راہ میں اپنے مذہب اور دینی مزاج کو آڑے نہیں آنے دیا ۔ابو ریحان البیرونی کی کتاب الہند کا مطالعہ کرنے سے قاری کو اس کا احساس قطعی نہیں ہوگا کہ یہ کتاب کسی مسلمان نے تصنیف کی ہے ۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس کو لکھنے والا کوئی ہندو دھرم کا آچاریہ اور ماہر ہے ۔ انڈو لوجی یا ہندوؤں کے مذہب اور ان کی تاریخ و روایات ، تہذیب و تمدن کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/abu-rayhan-al-biruni-theory-indology/d/134776
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism