ابونصر فاروق
18 جنوری ، 2013
یہ بات عام طور پر سب لوگ اور خاص طور پر مسلمانوں خوب جانتے ہیں کہ ہر انسان پر اس کےپیدا کرنے والے اللہ کابھی حق ہے اور دنیا میں بے شمار انسانوں کا بھی اس پر حق ہے ۔ مگر کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ کسی کاحق ادا کرنا انسان کا فرض ہے اور اس کو اس فرض میں کوتاہی ،غفلت یا بد دیانتی کے لئے اللہ کے سامنے جواب دہ ہوناپڑے گا اور اس کے عوض عذاب کا حقدار بننا پڑےگا ۔ جب کسی مسلمان پر مذہبیت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ خوب نماز ، اذکار او رمذہبی باتوں میں مشغول ہوجاتا ہے اور اپنی وضع قطع بھی مذہبی لوگوں کی طرح بنالیتا ہے ۔ اس کے تقاضے کیا ہیں اور اہل ایمان پر کیا کیا چیزیں فرض ہیں، حقوق العباد کا کیا مقام ہے۔ دین سے بے علم اور غافل لوگ اس کو متقی اور پرہیز گار سمجھنے لگتے ہیں ۔ عام آدمی تو درکنار بہت سے عالم اور فاضل حقو العباد کے ایسے گناہ کرتے رہتے ہیں کہ جن کو علم اور شعور رکھنے والا ایک معمولی مسلمان بھی نہیں کرنا چاہےگا۔ کسی بھی انسانی پر اللہ کا حق کیا ہےاس کا علم اس حدیث سےہوتا ہے: ‘‘رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اسی کی بندگی کریں اور بندگی میں کسی غیر کو ذرا بھی ساجھی نہ بنائیں ۔ اللہ کی بندگی کرنے والوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔’’ (بخاری ، مسلم) حقوق العباد کا اردو ترجمہ ہے بندوں کے حقوق۔ اللہ کے حق کے بعد بندوں کے حق کی کیا حقیقت ہے اس کا اندازہ اس حدیث سےکیجئے : ‘‘ حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ لوگو ں نے کہا مفلس ہمارے یہاں وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس نہ درہم ہو نہ اور کوئی سامان ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز ، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی ، کسی کا مال مار کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا او رکسی کو مارا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس نیکیاں بانٹ دی جائیں گی، پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گے تو ان کے خطائیں اس کے اعمال نامے میں شامل کر دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا’’۔(مسلم)
اس وقت ایسے مسلمانوں کا جو دین وشریعت سےغافل ہیں اور ایسے مسلمان جو مذہب کی پیروی کرنے والے سمجھے جاتے ہیں ، دونوں کے اعمال و اشغال اور فکر و خیالات کو دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ دین کی حقیقت سے بالکل غافل ہیں۔ بے دین مسلمان سمجھتے ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ سے زیادہ بڑی نیکی انسانوں کی مدد اور خدمت کرنا ہے، اس طرح و ہ شریعت کی فرض عبادت سے غافل او رمحروم رہتے ہیں ۔ اور جو لوگ مذہبی بن جاتے ہیں وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے سے غافل او رمحروم رہتے ہیں ۔ حقو ق العباد میں اہم باتیں کیا کیا ہیں ان کا کچھ ذکر یہاں کیا جاتا ہے:
(1) ‘‘حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمر و بن عاص روایت کرتے ہیں ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چار خصلتیں جس شخص میں پائی جائیں وہ پکا منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے ایک خصلت پائی جائے تو یہ نفاق کی ایک علامت ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوج کرے (بخاری ، مسلم ) امانت میں خیانت کرنے والا، جھوٹ بولنے والا، منافق ہے، اور جو منافق ہے یا نفاق کی کوئی علامت رکھتا ہے اس کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرمائے گا، اس لئے کہ یہ آدمی خیانت، جھوٹ، وعدہ خلافی اور گالی گلوج کے ذریعہ بندگان خدا کاحق مارتا رہتا ہے ۔
(2) ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشتہ داروں سےکٹ کر رہنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔’’(مسلم) رشتہ داری کی کتنی اہمیت ہے اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، یعنی رشتہ داروں سے کٹ کر رہنے والا اور اپنے غریب ضرورت مند رشتہ داروں کی مدد اور خدمت نہیں کرنے والا اتنا بڑا گنہگار ہے کہ اس کی کوئی عبادت اس کو جنت کا حقدار نہیں بناسکے گی اورجہنم میں چلا جائے گا۔ دور حاضر میں ملت کے اندر رشتہ داروں کا کیا حال ہے اس کو سب جانتے ہیں۔
(3) ‘‘بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلم معاشرے کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جارہا ہو اورمسلم گھرانے کا بدترین گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جارہی ہو’’۔(ابن ماجہ)بہت سے خاندان ایسے ہوتے ہیں جہاں باپ کے مرجانے کے بعد یتیم بچے اور بچیاں داد، نانا، چچا ، ماموں ،پھوپھا، بھائی یا بہن کے گھر رہتے ہیں ۔ ان یتیم بچوں کا یہ حق ہے کہ اپنے بچوں سے زیادہ ان کا لحاظ رکھا جائے اور ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہیں کی جائے۔ لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ گھر والے اس یتیم کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس کو ملازم بنا لیتے ہیں اور اس غریب سے ایسے ایسے کام لیتے ہیں جو وہ اپنے بچوں سے کرانا پسند نہیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے گھر کو معاشرے کا بدترین گھر بنالیتے ہیں ۔
(4)‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے..... پھر ایک ایسے آدمی کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیاجو لمبی دوری طے کرکے مقدس مقام (خانہ کعبہ) پر آتا ہے ، غبار سے اٹا ہوا ہے ، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاکرکہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب! (اور دعائیں مانگتا ہے) حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پانی حرام ہے، اس کالباس حرام ہے اور حرام پر ہی وہ پلا ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔’’ (مسلم)جب آدمی اپنے عہدے اور منصب کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کی مجبوری کے تحت ان سے غلط طریقے سے مال وصول کرتا ہے تو یہ مال حرام ہوجاتا ہے ۔ بے ایمانی، دھوکے اور جھوٹ بول کر کمایا ہوا مال حرام ہوجاتا ہے ۔ جو لوگ غلط طریقے سے مال کما کر راتوں رات دولت مند بن جانا چاہتے ہیں وہ مسلسل بندگان خدا کا حق مارتے رہتے ہیں او ربدترین قسم کا گناہ کرتے رہتے ہیں ۔ حرام مال کمانے والے برے لوگ اپنے ساتھ اپنے اہل و عیال کو بھی حرام مال کھلا کر ان کی دنیا اور آخرت برباد کرتے رہتے ہیں۔
(5) ‘‘حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کسی نے ظالمانہ طور پر کسی کی بالشت بھر زمین لی تو قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں پہنایا جائے گا۔’’ (بخاری مسلم)دولت اور جائیداد کی ہوس انسان کو حلال اور حرام کے تصور سے محروم کردیتی ہے اور انسان ہوس کا مبتلا ہوکر مذہبی ہوتے ہوئے ظلم کرنے لگتا ہے ۔زمین کا تنازعہ مسلم ملت میں ایک عام بات ہے۔ زمین پر ناجائز قبضہ کرنا کیسا گناہ ہے اگر مسلمان اس کو سمجھ لے اور دوسروں کی حق تلفی سے محفوظ رہ جائے تو یہ کتنی بڑی نیکی ہے اور اس کے سبب وہ کتنے بڑے عذاب سے بچ جائے گا۔
(6) ‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس آدمی کے دو بیویاں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ منصفانہ اور مساویانہ برتاؤ نہیں کیا تو ایسا شخص قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گا کہ اس کا آدھا جسم گر گیا ہوگا۔’’( ترمذی)بعض لوگ شوق سے یا کسی ضرورت کے تحت دو شادیاں کر لیتے ہیں اور دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ اگر مسلمان اس حدیث کو پڑھ لیں اور اس ظلم و زیادتی کے انجام سے ڈریں تو ہر مسلمان دوسری شادی کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا اور دوسری شادی کرلے گا تو ہر گز کسی ایک بیوی کو اس کے حق سے محروم کر کے حقوق العباد کا گناہ نہیں کرے گا۔
(7) ‘‘حضرت اَدس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کا ساتھ دے کر اسے قوت پہنچائے ، جب کہ وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔’’(مشکوٰۃ) جان بوجھ کر کسی ظالم دراصل مظلوم کی حق تلفی اور اس سے عداوت کرنا ہے۔ تعصب ، ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے لوگ اپنے اور بیگانے کا فرق کر کے مظلوم کی حق تلفی اور ظالم کی مدد کرتے ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ ایسا کرکے وہ مسلمان ہی نہیں رہتے ہیں۔
(8) ‘‘ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غیبت زنا سے زیادہ سخت جرم ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! غیبت کس طرح زنا سے زیادہ سخت جرم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص زنا کرنے کے بعد جب استغفار کرتا ہے تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے، مگر غیبت کرنےو الے کی مغفرت اس وقت تک نہیں ہوتی ہے جب تک کہ وہ شخص اس کو معاف نہیں کردے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔’’(مشکوٰۃ) ‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ واقف ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا تذکرہ ایسے ڈھنگ سے کرے جسے وہ نا پسند کرے۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگر میرے بھائی میں وہ بات موجود ہو جسے میں کہہ رہا ہوں تب بھی یہ غیبت ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ بات اس کے اندر ہوتو یہ غیبت ہوئی اور اگر وہ بات اس کے اندر نہیں پائی جاتی ہے تو یہ بہتان ہوگا۔’’ (مشکوٰۃ) غیبت کا گناہ مسلم معاشرے میں کھلے عام ہوتارہتا ہے ۔ قرآن میں غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانا کہا گیا ہے۔
(9) ‘‘ حضرت ابو فسیلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےپوچھا : اپنے لوگوں سے محبت کرنا عصبیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں یہ عصبیت نہیں ہے، عصبیت (یعنی تعصب او رفرقہ واریت) یہ ہے کہ آدمی ظالمانہ کارروائیوں میں اپنے لوگوں کی مدد کرے ۔ (مشکوٰۃ) اس وقت مسلم ملت میں ذات برادری کا جو مسئلہ پیدا کیا گیا ہے اس کے حامی اور ہم نوا کیا اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کااحترام کریں گے اور اپنے عمل کا جائزہ لیں گے؟
(10) ‘‘ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دین نام ہے وفاداری اور خیر خواہی کا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرائی ۔ پوچھا گیا کس کے ساتھ وفاداری اور خیر خواہی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ، اس کے رسول، اس کی کتاب، مسلمانوں کے امیر اور عالم اہل اسلام کے ساتھ ۔’’( مسلم)
18 جنوری ، 2013 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-importance-human-rights-islam/d/10263