ابو فہد
14 نومبر، 2013
اگر ہم ہندوستان کاخاص اس ناحیہ سے جائزہ لیں ، تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے حالات دنیا کے تمام ممالک سے مختلف ہیں ، نہ صرف یہ کہ مختلف ہیں بلکہ بہت زیادہ مختلف بھی ہیں، ہاں ، بعض وہ ممالک جو پسماندہ یا ترقی پذیر ہیں اور وہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، کم و بیش ان کے مسائل بھی ہندوستان جیسے ہی ہیں۔
یہاں ہندوستان میں مسلم مذہبی اداروں اور تنظیموں کو حکومت کی طرف سے نہ صرف یہ کہ کچھ تعاون نہیں ملتا بلکہ الٹا ان کی راہیں مسدور کرنے کی عوامی اور ریاستی ، ہر دو سطح پر منظّم کوششیں بلکہ سازشیں کی جاتی ہیں ۔ اور نائن الیون کے بعد کے زمانے کا تو نقشہ ہی کچھ الگ سا ہے۔ ا س میں سازشوں کی خوب خوب گرم بازاری ہے ۔ نفرتیں پل پل بڑھ رہی ہیں او رمحبتیں ہر پل فنا کے گھاٹ اتر رہی ہیں ۔ نہ دین کاکچھ احترام باقی بچا ہے او رنہ ہی علم دین، اخلاس اور بزرگی کی کچھ خاص اہمیت رہ گئی ہے۔ غیروں کی نظر کا شکوہ کیا خود اپنوں کی نظریں بھی بدل گئی ہیں۔
پڑوسی ممالک کے نیپال ،سری لنکا اور میانمار وغیرہ کے حالات تقریباً ہندوستان جیسے ہی ہیں ۔ البتہ بیشتر عرب ممالک اوردنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی بات کچھ الگ ہے کہ وہاں کے مسلمانوں کو جو سیاسی اور سماجی مسائل درپیش ہیں وہ ایک الگ قضیہ ہے تا ہم انہیں اقتصادی مسائل درپیش نہیں ، گلف کنٹریز کے علاوہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں مسلمانوں کو اقتصادی مسائل درپیش نہیں ہیں ۔ وہاں کے مدارس ، مساجد اور اسلامک سینٹرز ، ان میں کام کرنے والے ملازمین اور کارکنان اقتصادی طورپر خوش حال ہیں، انہیں سرکاری نوکریاں بھی ملتی ہیں اور وہ آسانی سے پارٹ ٹائم جاب بھی حاصل کرلیتے ہیں ۔ ہندوستانی مدارس سےفارغ ہونے والے زیادہ تر غیر سرکاری نوکریاں پر ہی اکتفا کرتے ہیں، اس کو کئی وجوہات ہوسکتی ہیں پہلی وجہ تو یہی ہے وہ خود بھی ادھر جانانہیں چاہتے کیونکہ انہیں اس کے لیے تیار ہی نہیں کیا جاتا ۔ ان کےذمہ داروں کی یہ دلیل بھی اپنی جگہ بامعنیٰ ہے کہ اگر مدارس میں پڑھنے والے یہ دو فیصد لوگ بھی وہی کام کرنے لگ جائیں جو کام ہندوستان کےباقی مسلمان کررہے ہیں تودینی مدارس کے وجود کا کیا مقصد رہ جائے گا اورتعلیم کاکاروبار کرنےوالے عصری اسکول اور جامعات کی بھیڑ میں ان کی بھلا کیا افادیت ہوگی اور پھر سب سے بڑھ کر یہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان ، اکثر یتی طبقہ کی ایک معتدبہ تعداد کی نظروں میں خار کی طرح کھٹک رہے ہیں وہاں اسلام کی بقا ، اس کے تحفظ اور فروغ کا ذمہ کون لے گا ۔ اب فرشتے تو یہ ذمہ داری اٹھانے سے رہے اور جہاں عصری دانشگا ہوں کےتعلیم یافتہ حضرات کی بات ہے تو وہ یہ خسارے کاسودا کیوں کریں گے بھلا۔ اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری سطح پر انہیں اس کا اہل ہی قرار نہیں دیا جاتا ۔ اور یہ اہلیت حاصل کرنے کےلیے انہیں مدارس سے فارغ ہونے کےبعد ایک طویل دورا نئے گزرنا ہوتا ہے ۔ اور طرح طرح کے ایکزام پاس کرنے ہوتے ہیں ۔ تب تک وہ عمر عزیز کابڑا حصہ قطع کرلیتےہیں ۔ ہم بیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں ، جس میں شائننگ انڈیا کے بلند بانگ دعوے ہیں، جس میں بہت سارے پرائیویٹ نوکریاں کرنے والے پچاس ساٹھ ہزار روپے ماہانہ کمالیتےہیں ۔ جس زمانے میں مندروں کے پجاری ، گردواروں کے گرو اور چرچ میں بیٹھے پادری عزت اور شان کی زندگی جی رہے ہیں ۔ جس میں اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، پہلے ہم سناکرتے تھے کہ مٹی سونااگلتی ہے مگر اب ہم یہ بشم خود دیکھ رہے ہیں کہ مٹی خود ہی سونا بن گئی ہے ۔ اب تو ہر شئے کی قیمتیں سونے کی قیمتوں سے مقابلہ کرتی نظر آتی ہیں ۔ ایسے عالم میں آپ کو یہ جان کر یقیناً خوشی ہوگی کہ اس بیسویں صدی میں بھی ہندوستان کی بیشتر مساجد میں اماموں کو ہزار روپے ماہانہ دیئے جاتے ہیں ....... جی ہاں، آپ نے غلط نہیں سنا .... ہزار روپے ماہا نہ ۔ اور وہ بھی تمام احسانات گنوانے کےبعد ....... آپ کو بجلی فری میں مل رہی ہے ،کھانا مفت میں مل رہا ہے،رہائش کے نام پر کرم خوردہ ہی سہی پانچ کا حجرہ دیا جارہاہے ..... کیا یہ کم ہے....؟ اور سب سے بڑھ کر یہ نمازوں کے اوقات کے علاوہ پوری مسجد آپ کاگھر ہے ۔ جہاں چاہو بیٹھ جاؤ اور جہاں چاہو سو رہو۔ میٹرو پولیٹن شہروں کی بڑی مساجد کے حالات کچھ الگ ہوسکتے ہیں تاہم عام مساجد کے حالات یہی ہیں ۔ خیر ! یہ تو مساجد کی بات تھی مدارس کاحال بھی اس سےکچھ زیادہ مختلف نہیں .... اچھے بڑے مدارس میں بھی تین سے پانچ ہزار کا ماہانہ مشاہرہ بڑی قسمت والوں کو اور صاحب استعداد اساتذہ کو ہی ملتا ہے .... ایسی حالت میں وہ زندہ کیسےہیں بلکہ کس طرح وہ اپنی عزت نفس کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور کس طرح اپنے بچوں اور مسلمان نسلوں کی دین و ایمان کے ساتھ پرورش کر رہے ہیں ..... یہ اپنے آپ میں بجائے خود کسی معجزے سے کم نہیں .... میں نے کسی مدرسے کے بارے میں سنا کہ وہ اپنے بعض اساتذہ کو دو ہزار روپے ماہانہ ادا کرتے ہیں اور اس میں چھ سو روپئے خوراکی کےمنہا کرلیتے ہیں ۔ ویسے بجلی اور پانی تو یہاں بھی فری ہی ہے۔ اس لیے یہ بھی جائے شکر ہے ۔
جب مدارس کی بات آتی ہے اور ہم اپنی تمام تر ہفوات اور لنترانیوں کےبعد ذرا سنجیدہ ہوتے ہیں اور مدارس اور اہل مدارس کے تئیں اپنی فکر اور سوچ کے مثبت تاروں کو چھیڑ تےہیں تو ان سےکچھ اس طرح کے سرتال نکلتے ہیں :
ہوا ہے گوتندوتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نےدئے ہیں انداز خسروانہ
تاہم یہ بات اپنی جگہ ہے کہ ہماری زندگی میں انداز خسروانہ کی شان اور آن بان کیا ہے ، چراغ ایمان و یقین میں کس قدر دم خم ہے .... اور زمانے کی ہوا کا جو جارحانہ انداز ہے وہ تو ہم سب اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ ہی رہے ہیں ۔ عالم اسلام پر ناٹو ممالک کی مشترکہ یورش اور فوجی یلغار ‘‘ الکفر ملۃ واحدۃ’’ کی عملی تفسیر پیش کررہی ہے ۔ تو کوئی زمانہ اس وقت سے زیادہ سفارک اور بے رحم نہیں ہوسکتا جو وقت اس حدیث شریف کی عملی تفسیر بن گیا ہو ۔
جہاں تک میرا خیال ہے بات صلاحیت اور عدم صلاحیت کی بھی نہیں ہے ۔ مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد ہے جو بھر پور صلاحیت کی حامل ہے ۔ ا ن میں سے کئی ایسے ہیں جو بیک وقت کئی کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں ، کئی لوگ اچھے قلم کار ہیں، اور اچھے منتظمین کی تو خیر کثیر تعداد ہے ۔ ایک ذرا سی محنت او رماہ دو ماہ کی ٹریننگ کےبعد وہ بڑی سے بڑی کمپنی میں جاب کرنے کے اہل ہوجاتےہیں اور نہ صرف اہل ہوتے ہیں بلکہ بہت سارے دوسروں سے فائق بھی ہوتے ہیں ۔ اس معاملے میں جو ساری بات ہے وہ یہ ہے کہ مدارس کےفارغین ایسی جاب یاپیشہ کی تلاش میں رہتے ہیں جس میں دین و ایمان سے ان کی وابستگیاں کمزور نہ پڑیں ، ان میں سےبیشتر حلال روزی کمانے کی فکر کرتےہیں اور و ہ اپنے آس پاس ایسا ماحول چاہتے ہیں جس میں رہ کر وہ اپنے مذہب اور مذہب کی ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھا سکیں ۔ اور آپ جانتے ہیں کہ یہ چیز ہمارے اس خالص ہندوستانی معاشرے سے اسی طرح غائب ہے جس طرح گدھے کےسر سے سینگ غائب رہتے ہیں ۔ یہاں بیشتر کمپنیاں سود کا کاروبار کرتی ہیں، رشوت لیتی ہیں اور یہاں ہر جگہ اور ہر شعبہ میں کمیشن پر کام ہوگا ہے، رشوتیں دے کر ایڈمیشن ہوتے ہیں اور رشوتیں دے کر ہی جاب ملتی ہیں،مدرسہ کا ایک طالب علم اس ماحول میں اپنی فطری شرافت اور اپنی ذہنی و فکری افتاد کے باعث اور اس دینی مزاج کے باعث جواہل مدارس خاموش تعلیم اور بغیر لکھے پڑھے اور بغیر بولے اور سنے جانے والے لفظوں کے ذریعہ ان کے ذہن میں بڑی چابک دستی کےساتھ اتار دیتے ہیں، وہ اپنے آپ کو پوری طرح ایڈجسٹ نہیں کر پاتے ، انہیں بہت زیادہ بولڈ ماحول سوٹ نہیں کرتا ۔ مزید برآں اپنوں اور غیروں کی جانب سے طعن و تشنیع کی گرمبازاری ہے جو انہیں اس ماحول سے وحشت زدہ کرتی رہتی ہے۔
سعودیہ اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے فارغین مدارس کے سامنے سماجی اور اقتصادی مسائل نہیں ہیں، انہیں اپنے کام کا اچھا معاوضہ ملتا ہے اور وہ جب مدرسوں اور مسجدوں میں ہوتےہیں تو انہیں اپنا ماحول ملتا ہے اور جب بازاروں میں، پارکوں میں اور اپنے اپنے آفسس میں ہوتے ہیں تب بھی انہیں کسی قدر اپنا جیسا ماحول ہی ملتا ہے ۔ اور یہ چیز ان کے اندر حوصلے اور جذبے کو دوبالا کرتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کوئی وقت محسوس نہیں کرتے ۔ البتہ انہیں بدترین قسم کے سیاسی مسائل کا سامنا ہے، سیاست میں ان کی گرفت کمزور ہے اوروہ ہی سب لکھنے ، پڑھنے ، سننے اور سنانے کے لئے مجبور ہیں جو ان کی سرکار ان سے لکھوانا ، سننا اور سنوارنا چاہتی ہے۔ او ر تنہا یہ چیز ایسی ہے جو انہیں عالمی پیمانے پر ابھر کر آنے سے روکتی ہے ۔ مگر جہاں تک ہندوستان کے مدارس کے فارغین کاسوال ہے تو ان کے سامنے اقتصادی مسائل بھی اتنے ہی سنگین ہیں جتنے سنگین سماجی مسائل ہیں اور سیاسی مسائل بھی اسی قدر گمبھیر ، نازک اور سنگین ہیں ۔ یہ مسائل ان کے پاؤں کی زنجیر ہیں ، ان مسائل کی فکر ان کے گھروں کو اور آفسو ں کو ٹار چر سیل میں بدل دیتی ہے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ صرف دو فیصد مسلمان بچے ہی مدارس میں پڑھتے ہیں ،تاہم اس کےساتھ ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ مدارس اور اہل مدارس ان دو فیصد بچوں کوبھی روزگار سے جوڑنے کےقابل نہیں ہیں ۔ کیونکہ مدارس ، مساجد، اسلامک سینٹرز اور دیگر اسلامی اداروں میں اتنی وسعت نہیں ہےکہ وہ ملک کے طول وعرض سے ہرسال فارغ ہونے والے تمام طلبہ کو روزگار فراہم کرسکیں ۔ ایسی صورت میں ان بچوں کو روزگار کےدوسرے میدان لازما تلا ش کرنے ہوں گے۔ مدارس کے تعلق سےایک بہت بڑی بات یہ بھی ہے کہ ملک کےتمام مدارس مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک فرقے کے مدرسہ سے نکلا ہواطالب علم دوسرے فرقے کے مدرسے میں یا مسجد میں نوکری نہیں کرسکتا ۔ چاہے وہ بجائے خود کتنا بھی قابل کیوں نہ ہو۔ اس طرح وہ دو ہری تنگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ دنیا تو ان پر پہلے دن سے ہی تنگ ہوجاتی ہے ، آگے چل کر خود ان کے مذہبی ادارے بھی محض مسلکی تفرقہ بازی کی وجہ سے تنگ ہوجاتے ہیں ۔ آخر وہ جائیں تو کہاں جائیں ۔ اس صورت حال کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہیں کہ جتنی فکر ہم مسلمان بچو ں کو مدرسوں سے جوڑنے کی کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ وہ ان کے لیے روزگار کےمواقع تلاش کرنے کی فکر بھی کرنی ہوگی ۔ اور جب ایسا ہوگا تو مدارس کی طرف بچوں کی رغبت اور شوق میں خود بخود اضافہ ہوگا ۔ آج کےزمانے میں پروفیشنل کورسس مدارس کے ان طلبہ کی بہت مدد کرسکتے ہیں جو اپنے گھروں سے نادار ہیں اور ان کی پشت پر کسی کا ہاتھ نہیں ہے ۔ کیونکہ ایسے طلبہ کو ایک طرف اپنے والدین کی ضروریات کابھی خیال رکھنا ہوگا ہےاور دوسری طرف اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی توجہ دینی ہوتی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ملک کے باوقار سابق صدر جمہوریہ اے پی جےعبدالکلام نےابھی حال فی الحال میں کسی پریس کانفرنس کےموقع پر غریب اور نادار طلبہ کو پروفیشنل کورسس کرنےکی ترغیب دلائی تھی کیونکہ ان سے طلبہ کماؤ بن جاتے ہیں ۔ اور اپنے خاندان کی پرورش کرنے کے بہت جلد اہل ہوجاتے ہیں ۔
14 نومبر ، 2013 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/madarsa-graduates-facing-social,-economical/d/24418