علیزے نجف
25 نومبر،2022
کسی دانا کا قول ہے کہ
‘اگر تم وہی کررہے ہوجو ہمیشہ کرتے آئے ہو تو تمہیں ملے گا بھی وہی جو ہمیشہ سے
ملتاآرہا ہے ’۔یہ ایک بامعنی قول ہے جس کی تہہ میں ایک بڑی حقیقت پنہاں ہے۔ہم میں
سے بیشترلوگ اپنے عمل اور رویوں میں تبدیلی پیدا کئے بغیر نتائج میں تبدیلی کے
خواہاں ہوتے ہیں اور سابقہ نتیجوں کو دیکھ کر اپنا احتساب کرنے کے بجائے دوسروں کو
موردالزام ٹھہراتے ہیں ۔ ایسے میں ذہن میں یہ سوال پیدا ہونافطری ہے کہ لوگ ایسا
کیوں کرتے ہیں؟ غور وفکر کرنے کے بعدیہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ
ہے کہ ہم ایسے کمفرٹ زون میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں جہاں پہ ہم کسی بھی طرح کی
کوشش اور تبدیلی کی قطعی کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتے۔ اس ضمن میں ہماری ساری امیدیں
دوسروں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ہم عارضی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے اس قدر عادی
ہوتے ہیں کہ اس سے جڑے ہوئے منفی پہلوؤں کے بارے میں سوچنا بھی پسند نہیں کرتے۔ جس
کی وجہ سے ماہرین اس کمفرٹ زون کو خطرناک جگہ کہتے ہیں ۔کیوں کہ اس کی وجہ سے
انسانا ذہن میں موجود امکانی صلاحیتیں مسخ ہوجاتی ہیں۔
کمفرٹ زون انگریزی زبان
کالفظ ہے ، جس کا اردو میں خطۂ آرام کہہ سکتے ہیں ۔ کمفرٹ زون یعنی خطہ آرام ایک
نشہ کی طرح ہے، جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے ۔ اس کی صلاحیتیں زنگ آلود
ہوکے اپنی پہچان کھو دیتی ہیں، وہ کنویں کے مینڈک کی طرح اپنے محدود خطے کو پوری
کائنات سمجھ بیٹھتا ہے ، ساری زندگی وہیں کاوہیں رہ جاتاہے ۔وہ کامیابی کی خواہش
تورکھتا ہے لیکن کامیابی کے لئے درکار حوصلہ ، ہمت اور تبدیلی کے لئے خود کو تیار
نہیں کرتا۔ کمفرٹ زون ایک محدود وقت کے لئے اچھا تو ہو سکتا ہے لیکن اس زون میں
زیادہ عرصے تک رہنا صرف مسائل کو جنم دیتاہے ، یہ ایک نفسیاتی جال ہے جس میں بہت
سے لوگ آجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کمفرٹ زون میں رہنے والے لوگوں کا تناسب بہت
زیادہ ہے۔ وہ سالوں تک لگے بندھے معمول کے تحت شب و روز گزارتے رہتے ہیں۔ آرام دہ
صوفوں پہ بیٹھ کر ٹی وی پروگرام سے لطف اندوز تو ہولیتے ہیں ، لیکن اپنی محدود
حرکت یعنی کم چلنے پھرنے کی وجہ سے جسمانی عوارض کانشانہ بنتے رہتے ہیں ۔ وہ صحت
مند زندگی تو چاہتے ہیں لیکن ورزش میں پسینہ بہانے سے دور بھاگتے ہیں ۔ وہ آرام و
آسائش کی فراوانی چاہتے ہیں ، لیکن اسے حاصل کرنے کے لئے نئی تدابیر اختیار کرنے
کا تصور بھی نہیں کرتے۔ مطلوبہ آسانیوں اور آسائشوں کے میسر نہ ہونے پر وہ گزارنے
لائق زندگی کو قبول کرلیتے ہیں ، جب کہ ان کے پاس وہ ساری صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں
جو ان کی خواہشوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی
ہے کہ وہ خود کو بدلنے کو تیار نہیں ۔ قدرت کا قانون ہے کہ خود کی تبدیلی محض
خواہش کے بل بوتے تبدیلی کبھی واقع نہیں ہوسکتی۔ یہ کمفرٹ زون ایسا جال ہے جس کے
تارو ہ خود بنتے ہیں اور اس کے اندر رہنے میں ہی عافیت خیال کرتے ہیں ۔ کسی مفکر
کا ایک با معنی قول ہے کہ ‘ اگر آپ مختلف قسم کے تنائج چاہتے ہیں او رعام سے
چھٹکارا پاناچاہتے ہیں تو بس آپ جو کچھ ہر روز کرتے ہیں اسے دوبارہ ترتیب دیں،
اپنے روز مرہ کے معمولات پر نظر ثانی کریں’۔ یہ قول کمفرٹ زون کی نفی کرتا ہے او
ریہ دعوت دیتاہے کہ Dare to change your life اپنی زندگی بدلنے کی
جسارت خود میں پیدا کریں۔
دنیا کے تمام کامیاب ترین
لوگوں کامتفقہ طور پہ کہنا ہے کہ کمفرٹ زون سے باہر نکلنے کے بعد ہی ترقی کے راستے
کھلتے ہیں ۔ اس سے باہر اسی وقت نکلا جاسکتا ہے جب لوگ اس کے منفی نتائج کی اصل
حقیقت کو خود نہیں تسلیم کرلیتے ۔ زندگی کو ایک معمول کے مطابق گزارنا کچھ بھی غلط
نہیں ہے ، یہ ڈسپلن کے تحت ہوتا ہے، لیکن جب ہم برسوں مخصوص ذہنیت اور سرگرمیوں کے
اس قدر اسیر ہوجائیں کہ اس سے باہر نکلنے کے لئے قطعی تیار نہ ہوں، اس جمود کی وجہ
سے ہم اپنی زندگی میں مسائل میں اضافہ ہوتے دیکھنے کے باوجود محض اس ڈر سے اپنے
مخصوص زون سے باہر نہ نکل سکیں کہ میں اس چیز وں کاعادی نہیں یا مجھے اس کو ہینڈل
کرنے کا سلیقہ نہیں آتا نفسیات میں ، اس کی وضاحت اس طرح سے کی جاتی ہے کہ ‘ایک
شخص صرف ان حالات کو محفوظ سمجھتا ہے جس سے وہ طویل عرصے سے واقف ہے’ تو اس طرح
کاذہنی وعملی رویہ ایک کامیاب زندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر ہم ترقی
او رپر آسائش او رآسان زندگی کے خواہا ں ہیں تو ایسے میں ضروری ہے کہ ہم سب سے
پہلے اپنے کمفرٹ زون کی حقیقت کو سمجھیں۔ نظم و ضبط کے سوا ان تمام معمولات کو
یکسر تبدیل کرنے کی کوشش کریں جو اسپیڈ بریکر کی طرح آپ کی راہ میں حائل ہیں۔ اپنے
مانوس ماحول سے باہر نکلتے ہوئے ابتدا میں آپ کے اندر ایک ڈراور مخمصے کی سی کیفیت
ضرور ہوگی لیکن جیسے ہی آپ نئی چیزوں کا تجربہ کریں گے او راس سے حاصل ہونے والے
مختلف نتیجے سے لطف اندوز ہوں گے تو یہ ڈر ختم ہوتا چلا جائے گا اورآپ کو خود کو
تبدیل ہوتا محسوس کریں گے آپ کے اعتماد کا لیول بھی اوپر ہوگا اور آپ اس بات کو
تسلیم کرلیں گے کہ وہ کمفرٹ زون ایک قید کی طرح تھا جس نے آپ کی ترقی کی حدوں کو
محدود کردیا تھا کمفرٹ زون سے باہر نکلتے ہوئے ہوسکتا ہے ۔ آپ کے اندر کہیں لوگوں
کاڈر بھی ہوکہ میں یہ ایک نئی سمت میں قدم اٹھا رہاں ہو، نتائج حسب توقع ہوں گے
بھی یا نہیں ، لوگوں کا اس پر رد عمل کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔ ایک بار جب آپ ان پہ
قابو پانا سیکھ جاتے ہیں تو پھر سب کچھ آپ کے لئے آسان ہوتاچلا جاتاہے۔ پھر ایک
لرننگ فیز میں چلے جاتے ہیں ، جہاں آپ نئی نئی چیزوں کا تجربہ کرتے ہیں۔ آپ کے
اندر کااعتماد اس حد تک بڑھ جاتاہے کہ آپ چیلنجز کو قبول کرنا شروع کردیتے ہیں او
رنئے لوگوں سے ملتے ہوئے او رنئی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے آپ سیکھنے کی جد وجہد
کرتے ہیں اور اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں یہ کوشش آپ کے تجربات و مشاہدات میں
اضافہ کرتی ہے، پھر وہ سارے مسائل جن سے آپ کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے نبرد آزما
تھے، اس کو حل کرنے کا سلیقہ سیکھ لیتے ہیں ۔ آپ مسائل سے گھبرانے کے بجائے اسے
زندگی کالازمی جز و خیال کرکے اس کامقابلہ کرنے کی ہمت خود میں پیدا کر لیتے ہیں
جو آپ کے اندر لائف اسکلز پیدا کرنے کی وجہ سے بنتا ہے ۔ اس راہ پہ چلتے ہوئے پھر
آپ گروتھ زون میں داخل ہوجاتے ہیں اس میں آپ شعوری ذہن کے ساتھ اپنا ایک ہدف متعین
کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے حکمت عملی پہ غور کرتے ہیں۔ ایک ہدف کے حصول کے
بعد دوسرے ہدف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ زندگی میں واضح مقصد کاہونااس بات کی دلیل
ہے کہ آپ زندگی کو جینے کی کوشش کررہے ہیں او راس دنیا میں اپنے ہونے کی اہمیت کو
اجاگر کررہے ہیں۔ کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے ایک انسان اپنی اہمیت کو صحیح معنوں میں
بالکل بھی نہیں سمجھ سکتا ۔ ہماری زندگی کے تین چوتھائی مسائل کی وجہ ہمارا
خودساختہ کمفرٹ ہی ہے۔ آپ کی منزل کمفرٹ زون بالکل بھی نہیں آپ اپنا شمار دنیا کے
دو فیصد ان خوش قسمت ترین لوگوں میں کیجئے جو کمفرٹ زون کی سلاخوں کو توڑ ڈالتے
ہیں اور مسلسل کوشش کے ذریعے خود کو گروتھ زون میں پہنچادیتے ہیں ، یہیں سے
کامیابی کا آغاز ہوتاہے۔ قدرت نے ہمیں بے پناہ صلاحیتیں عطا کی ہیں، اس حوالے سے
مولانا رومی نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے ‘ خدا نے تمہیں اڑنے کیلئے بنایا ہے لیکن
تم رینگ رہے ہو’۔
25 نومبر، 2022 ، بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism