عبداللہ عثمانی، دیوبند
15 اکتوبر، 2014
پہلی صدی ہجری خاتمہ پر ہے آفتاب نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو نظروں سے غروب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا اس کی روشن کرنیں دور دور تک پھیل کر انسانیت کو سچی راہ دکھا رہی ہیں بعض آنکھیں اب بھی موجود ہیں جن میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارک کا پورا نقشہ تازہ ہے مسلمانوں میں دیانت و ایمان بھی آب و تاب سےچمک رہا ہے ساتھ ہی ، شجاعت اور صداقت کے جذبات بھی موجزن ہیں، شمع اسلام عرب کے سنگلاخ پہاڑوں اور تپتے صحراؤں کو جگمگا کر ، ایران ، عراق، مصر، افریقہ ، شام اور ہندوستان میں داخل ہورہی ہے ، اہل اسلام اپنےسینوں میں دولتِ ایمانی کو سمائے اس کی اشاعت و فروغ کے لیے دور دراز ممالک پہنچ رہے ہیں ، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ وہ جاں نثار تھے جنہوں نے اس دور کی ہر طاغوتی قوت سے مردانہ وار مقابلہ کیا باوجود محدود ذرائع ، قلیل تعداد ، او رمعمولی اسلحہ ان کی تلواریں دین و ایمان کے آب سے چمک رہی ہیں اور ان کی گھن و گرج کے مقابل بڑے بڑے ہتھیار اور سورما فیل ہوچکے تھے، فدایان اسلام کی شمشیریں کسی کا نا حق خون بہانے یا کسی پر جبر و ظلم کے لیے نیاموں سے باہر نہیں نکلیں تھیں، یہ تو اس باطل اور فتنہ کی سرکوبی کے لیے تھیں ( یا زیادہ سے زیادہ ذاتی دفاع) جس کے جبر و سائے تلے انسان اور اس کی عزت سسک رہی تھی، اشاعت اسلام کا ایک بھی واقعہ تاریخ میں ایسا نہیں جس میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین کی نفی ہوتی ہے، جس سرعت اور دیانت داری سے اسلام کی شعائیں کرۂ ارض پر پھیلیں وہ بھی انسانی دنیا کی لازوال مثال ہے۔ عالم اسلام کی قابل قدر ہستی موسیٰ بن نصیر نہ صرف افریقہ کے گورنر ہیں بلکہ وہ ممتاز سپہ سالار بھی ہیں اپنے عدل و انصاف اور شجاعت کے لیے یورپ تک مشہور ہیں ان کی کوششوں سے ان کے سپہ سالار طارق بن زیاد ہ نے اندلس میں حق و انصاف کا پر چم لہرایا ۔
اندلس کا جغرافیہ اور تمدن:
افریقہ سے سریب بارہ میل کا سمندر بحر ظلمات کو بحر متوسط سے ملا تا ہے اسی جزیرہ نما ملک کو اندلس ، ہسپانہ (Spain) کہتے ہیں اس کے شمال میں جبل امرتات جو فرانس کو سرحد اندلس سے جدا کرتا ہے او ربے آف بکسے واقع ہے مغرب کے جانب پرتگال اور بحر ظلمات جنوب کی طرف آبنائے طارق اور ملک افریقہ اس کی حدود سےملتے ہیں ، یہاں کے قدیم باشندے سلیٹ کہلاتے تھے یہ فرانس سے اس ملک میں وارد ہوئے تھے، اس کے بعد دیگر اقوام آئی بیری ، فینقی اور قرطاجنی اس پر مسلط ہوتی رہیں۔
عربوں کی اندلس میں آمد:
92 ھ میں عیسائی حکمراں راڈ رک تخت نشین تھا جس کو عربی تاریخوں میں لزریق کہتے ہیں یہ نہایت بے رحم اور عیاش تھا اس کا ایک خاص شوق یہ تھا کہ وہ اپنی رعایا کے نو عمر لڑکوں او رلڑکیوں کو شاہی تربیت کے بہانے اپنے زیر اثر رکھتا تھا اور اپنی ہوس کا شکار بناتا تھا، چنانچہ اس کے ایک گورنر کونٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا ، بھی اس کے فعل قبیحہ سے نہ بچ سکی نتیجتاً نو عمر لڑکی نے اپنے باپ جولین کو اس حرکت سے با خبر کیا جس کی وجہ سے جولین کے دل میں راڈرک اور اس کی حکومت کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی، یہ وہ زمانہ تھا جب اہل اسلام موسیٰ بن نصیر کی قیادت میں شمالی افریقہ کے پیشتر حصوں کو اپنا وطن بنا چکے تھے چنانچہ جولین ایک وفد لے کر موسیٰ بن نصیر کی چوکھٹ پر حاضر ہوا اور موسیٰ کو راڈرک کی تمام کرتوت سے آگاہ کیا اور درخواست کی کہ وہ اسپین کو راڈرک جیسے سفاک ، بدکردار، حاکم سے نجات دلائیں۔ جولین کی گزارش پر موسیٰ بن نصیر نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سےاندلس پر حملے کی اجازت طلب کی خلیفہ نے احتیاط کی تاکید کے ساتھ منظوری دے دی، موسیٰ نے ابتداء میں چند چھوٹی چھوٹی مہمات طنجہ سے اندلس روانہ کیں تاکہ حالات کا صحیح اندازہ ہوجائے یہ مہمات بہتر ثابت ہوئیں تو موسیٰ نے طارق بن زیاد کی زیر کمان ایک بڑا لشکر اندلس پر حملہ کے لیے روانہ کیا طارق کی فوج سات ہزار جاں باز مسلمانوں پر مشتمل تھی انہیں طنجہ سے اندلس پہنچانے کے لیے چار بڑی کشتیاں استعمال کی گئیں جو کئی دن تک مسلسل فوجی نقل و حرکت پر نظر لگائے تھیں۔
بالآخر پورا لشکر اندلس کے اس ساحل پر پہنچ گیا جواب بھی جبل الطارق کے نام سےموسوم ہے، اندلس کے ممتاز مؤرخ مقری نے ‘‘ نفح الطیب ’’ میں فتح اندلس کا واقعہ نہایت تفصیل سے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں طارق جب کشتی پر سوار ہوئے تو کچھ دیر بعد اس کی آنکھ لگ گئی تو انہیں خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلفائے راشدین اور بعض دیگر صحابہ تلواروں اور تیروں سے مسلح سمندر پر چلتے ہوئے تشریف لارہے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طارق بن زیاد کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا ‘‘ طارق بڑھتے چلے جاؤ’’ اس کے بعد طارق نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس رفقاء اس سے آگے نکل کر اندلس میں داخل ہوگئے ، طارق کی آنکھ کھلی تو وہ بے حد مسرور تھے انہیں فتح اندلس کی خوش خبری مل چکی تھی انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بشارت سنائی اور اس مژدہ نے مجاہدین کے حوصلوں کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ، علاوہ ازیں ایک دیگر واقعہ بھی تاریخ اندلس میں درج ہے کہ طارق اپنی جمعیت کے ہمراہ سر حد اندلس میں داخل ہوا اور لبِ دریا جو شہر واقع تھے انہیں فتح کرتا ہوا آگے بڑھا اثنائے راہ میں ایک بڑھیا نے اس سے کہا کہ اس ملک کا تو ہی فاتح معلوم ہوتا ہے میرا شوہر بہت بڑا کاہن تھا وہ مجھ سے کہا کرتا کہ غیر قوم اندلس پر قابض ہوگی اس کے سپہ سالار کی پیشانی بلند اور اس کے بائیں شانے پر تل ہوگا او راس تل کے گرد بال ہوں گے، میں جہاں تک غو ر کرتی ہوں تیری ہی پیشانی بلند پاتی ہوں، اگر تیرے وہ تل بھی تیرے جسم پر ہے تو بیشک تو وہی شخص ہے کہ جس کے متعلق میرے شوہر نے پیشین گوئی کی ہے طارق نے اپنے بائیں شانے کا تل اس بڑھیا کو دکھایا ۔ ایک مشہور روایت ہے کہ جب جزیرہ نما اندلس کے کنارے پر طارق کا لشکر اترا تو اس نے اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ جیت یا موت کے سوا لشکر کے سامنے کوئی تیسرا راستہ نہ رہے اگر چہ یہ واقعہ نئی تاریخوں میں تو بہت عام ہے مگر فتح اندلس کی قدیم مستند تاریخیں اس کے ذکر سے خالی ہیں، اندلس کے نامور مؤرخ مقری نے اندلس کی ضخیم تاریخ ‘‘ نفح الطیب’’ لکھی ہے جس میں یہ واقعہ موجود نہیں ہے، علاوہ ازیں بن خلدون اور طبری وغیرہ نے بھی کشتیاں جلانے کا تذکرہ نہیں کیا اس واقعہ کو علامہ اقبال نے بھی اپنے جذبات کا لباس پہنا یا ہے۔
طارق جو برکنارہ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار توبہ نگاہ خرد خطاست
دویم از سوادِ وطن، بازچوں رسم؟
ترک سبب زروئے شریعت کجا رواست؟
بہر کیف طارق بن زیاد او راس کے اولوالعزم فوجیوں کی ہمت اور شجاعت کی نظیریں بھی کم ملتی ہیں ، چنانچہ طارق بن زیاد اپنے لشکر کے ساتھ جبل الفتح یا جبل الطارق کے ساحل پر خیمہ زن ہوا اور وہ وہاں سے ‘‘ الجزیرۃ الخضر’’ تک ساحلی پٹی کو کسی خاص مزاحمت کے بغیر فتح کرلیا، لیکن تبھی راڈرک نے اپنے مشہور جنرل تدمیر (Theodomi) کو ایک بھاری لشکر دے کر طارق بن زیاد کے خلاف روانہ کردیا، مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ پے در پے کئی لڑائیاں ہوئیں تدمیر کو ان میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا حتی کہ اس کی فوج ایمانی جذبات سے سرشار سپاہ کے سامنے بالکل منتشر ہوگئی، تدمیر نے اپنے حاکم راڈرک کو خبر دی کہ جس قوم سے میرا واسطہ پڑا ہے وہ خدا جانے آسمان سے ٹپکی ہے یا زمین سے ابلی ہے اب اس کا مقابلہ اس کےسوا ممکن نہیں کہ آپ از خود ایک بڑا لشکر جرار لے کر اس سے مقابلہ کریں، راڈرک نے اپنے سپہ سالار کا پیغام ملتے ہیں ستر ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک عظیم الشان محاذ تیار کیا اور طارق کی جانب کوچ کیا۔ ادھر موسیٰ بن نصیر نے بھی طارق بن زیادہ کی مدد کے لیے پانچ ہزار فوجیوں کی کمک روانہ کی جس کے پہنچنے کے بعد طارق بن زیاد کا لشکر بارہ ہزار پر مشتمل ہوگیا ۔
حیرت انگیز بات ہے کہ کہاں ستر ہزار کا تربیت یافتہ جرار لشکر اور کہا ں بارہ ہزار عربی سپاہی جو نہ صرف اس ملک کے لئے اجنبی تھے بلکہ اندلس کے جدید ہتھیار وں کے سامنے بھی بظاہر کچھ نہ تھے، مگر اسلامی فوج کے خون میں جو جذبات اور انقلابات برپا تھے ان کے سامنے چاہے آہنے دیواریں ہوں یا سنگین پہاڑ سب بے وجود تھے، انہوں نے جس دین کا پرچم تھاما تھا وہ نہ صرف دنیا میں تاریکی کو مٹانے کے لیے تھا بلکہ ایک ایسا روشن نظام حیات کا بھی ضامن تھا جس میں مادّی و روحانی دونوں کی فلاح کا راز مضمر ہے۔ چنانچہ وادی لکہ کے مقام پر دونوں لشکر روبرو ہوئے تو طارق نے اپنے لشکر قلیل کو جو خطبہ دیا تھا اب بھی عربی ادب و تاریخ میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے اس کے الفاظ کیا ہیں دلوں کی تمازت و تموج ہیں جن سے اسلامی لشکر میں ایسا جوش ابھرا کہ وہ اپنی جانیں راہ خدا پر نچھاور کرنے پر فوراً تیار ہوگئے اس تقریر کے ایک ایک لفظ سے طارق کے عزم ، ہمت او رسرفروشی کے جذبات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ، خطبہ کے چند جملوں کا اردو ترجمہ یہ ہے : ‘‘ لوگو! تمہارے لیے بھاگنے کی جگہ ہی کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے، اور آگے دشمن ، لہٰذا خدا کی قسم تمہارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ تم خدا کے ساتھ کئے ہوئے عہد میں سچے اترو اور صبر سے کام لو، یاد رکھو کہ اس جزیرے میں تم ان یتیموں سے زیادہ بے آسرا ہو جس کسی کنجوس کے دسترخوان پر بیٹھے ہوں ، دشمن تمہارے مقابلے کے لیے اپنا پورا لاؤ لشکر او ر اسلحہ لے کر آیا ہے، اس کے پاس و افر مقدار میں غذائی سامان بھی ہے اور تمہارے لیے تمہاری تلواروں کے سوا کوئی پنا ہ گاہ نہیں ، تمہارے پاس کوئی غذائی سامان اس کے سوا نہیں جو تم اپنےدشمن سے چھین کر حاصل کر سکو، اگر زیادہ وقت اس حالت میں گزرگیا کہ تم فقر و فاقہ کی حالت میں رہے او رکوئی نمایا ں کامیابی حاصل نہ کر سکے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ، اور ابھی تک تمہارا جو رعب دلوں پر چھایا ہوا ہے ، اس کے بدلے دشمن کے دل میں تمہارے خلاف جرأت و جسارت پیدا ہوجائے گی، لہٰذا اس برے انجام کو اپنے آپ سے دور کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم پوری ثابت قدم سے اس سرکش بادشاہ کا مقابلہ کرو، جو اس کے محفوظ شہر نے تمہارے سامنے لاکر ڈال دیا ہے، اگر تم اپنے آپ کو موت کے لیے تیار کر لو تو اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے۔
اور میں نے تمہیں کسی ایسے انجام سے نہیں ڈرایا جس سے میں خود بچا ہوں نہ میں تمہیں کسی ایسے کام پر آمادہ کررہا ہوں جس میں سب سے سستی پونجی انسان کی جان ہوتی ہے، اور جس کےآغاز میں خود اپنے آپ سے نہ کررہا ہوں یاد رکھو! اگر آج کی مشقت پر تم نے صبر کرلیا ، تو طویل مدت کی لذت و راحت سے لطف اندوز ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت تمہارے ساتھ ہے ، تمہارا یہ عمل دنیا و آخرت دونوں میں تمہاری یادگار بنے گا او ریاد رکھو جس بات کی دعوت میں تمہیں دے رہا ہوں ا س پر پہلا لبیک کہنے والا میں خود ہوں ، جب دونوں لشکر ٹکرائیں گے تو میرا عزم یہ ہے کہ میرا حملہ اس قوم کے سرکش ترین فرد راڈرک پر ہوگا اور انشاء اللہ میں اپنے ہاتھ سے اسے قتل کروں گا،تم میرے ساتھ حملہ کرو، اگر میں راڈرک کی ہلاکت کے بعد ہلاک ہوا تو راڈرک کے فرض سے تمہیں سبک دوش کرچکا ہوں گا اور تم میں ایسے بہادر اور ذی عقل افراد کی کمی نہیں جن کو تم اپنی سربراہی سونپ سکو، اور اگر میں راڈرک تک پہنچنے سے پہلے ہی کام آگیا تو میرے اس عزم کی تکمیل میں میری نیابت کرنا تمہارا فرض ہوگا، تم سب مل کر اس پر حملہ جاری رکھنا او رپورے جزیرے کی فتح کا غم کھانے کے بجائے اس ایک شخص کے قتل کی ذمہ داری قبول کرلینا تمہارے لیے کافی ہوگا کیوں کہ دشمن اس کے بعد ہمت ہار بیٹھے گا’’۔
طارق بن زیادہ کے سرفروش رفقاء پہلے ہی ولولۂ جنگ اور شوق شہادت سے مست تھے طارق کے اس خطاب نے ان کے دل و دماغوں میں نیا جوش و امنگ جگادی نتیجتاً ان کے جذبات میں وہ طوفان اٹھا کہ بحر ظلمات کی گہرائی اور جبل الطارق کی بلندی بھی ان کے لیے بے معنی لگ رہی تھی اسلامی لشکر اپنے جسم و جان کو بھلا کر مردانہ وار لشکر عظیم سےنبرد آزما ہوا یہ معرکہ متواتر آٹھ دن جاری رہا، وادی لکہ کی زمین میں شہید ان اسلام کے خون سے سرخ ہوگئی مجاہدین ملت کے اس نثار سے مستقبل کی ایک تاریخ مرتب ہونے جارہی تھی بالآخر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ سلم کی پیشین گوئی حقیقت میں بدل گئی چنانچہ فتح و نصرت نے ان دلیر شجاع مسلمانوں کے قدم چومے، راڈرک کالشکر بری طرح پسپا ہوا اور راڈرک بھی اسی جنگ میں مارا گیا بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے خود طارق بن زیاد نے قتل کیا اور بعض میں ہے کہ اس کا خالی گھوڑا دریا کے کنارے پایا گیا جس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوا ، فتح لکہ کے بعد مسلمان اندلس کے دیگر شہروں پر بھی اپنا قبضہ جماتے چلے گئے ان فتوحات نے واضح کردیا کہ یورپ کے وسیع سمندر اور بحری بیڑے مسلمانوں کے بلند حوصلوں اور جذبات کو نہیں روک سکتے اندلس کی فتح گوکہ یورپ کے داخلے کا سنگ میل تھا ۔ چنانچہ مسلمانوں کی پیش قدمی جاری رہی یہاں تک کہ وہ فرانس میں داخل ہوئے اور کوہ نیری نیز کے دامن تک اپنے پرچم لہرانے میں کامیاب رہے۔
اندلس میں مسلمان حکمرانوں کا اقتدار اور زوال:
اندلس کے اکثر بڑے شہروں آرکا دینا، قرطبہ، ملاغہ، ایلو دہرا، اور طلیطلہ کی فتح کے بعد قریب دو درجن حاکموں کے زیر اثر اندلس نے بے نظیر ترقی کی، ان حکمرانوں میں چند معروف نام یہ ہیں : طارق بن زیادہ شوال 92ھ تا جمادی الاوّل 93 ھ ، موسیٰ بن نصیر 93 ھ تا 95 ھ ، عبدالعزیز بن موسیٰ 95 ھ تا 97 ھ ، ایوب بن حبیب اللحمی 97 ھ تا 98 ھ، عبدالرحمٰن النقی 98 ھ تا 100ھ، مسلمان دورِ اقتدار کے ساتھ جہاں ایک طرف عیسائی اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہے ہیں مسلم اربابِ حکومت بھی اقتدار کی خاطر آپسی رسہ کشی کا شکار تھے خلیفہ منصور ( 393 ھ) کے انتقال کے بعد اندلس میں ایک انتشار کا دور شروع ہوگیا بربری امراء غلاموں اور خواجہ سراؤں نے سر اٹھانا شروع کردیا، سلطان ہشام کو محل سے باہر لانا چاہا مگر وہ رضا مندنہ ہوا ہشام آرام طلب او رکاہل بن گیا تھا، منصور کے بیٹے کو حاجب مقرر کیا اس نے ثابت قدمی سے سلطنت کو سنبھا لے رکھا، اس کے بعد 399 ھ میں محمد ثانی مہدی کو تخت نشیں بنایا گیا غرض اہل قرطبہ کی اس سرکشی اور بدحیالی کا اثر یہ ہوا کہ گیارہویں صدی عیسوی کے نصف اوّل تک قریب تیس خود سرخاندان اتنے ہی شہروں یا اضلاع میں صاحب اقتدار بن گئے جن میں اشبیلہ میں عبادیں ملاغہ و الجسر ہ میں جمود کا خاندان غرناطہ میں زہیر کا سرقسط میں بنی ہود کا طلیطلہ میں ذوالنونی کا اور بلنسہ مرسیہ و المربیہ کے حکمراں اوروں سے زیادہ سربرآوردہ تھے، اس طوائف الملو کی کا اثر سرحدی عیسائیوں پر بھی پڑا اور وہ بھی خود سر ہوگئے ۔ ( خلافت بنی امیہ : ص / 126۔127) ( جاری ہے)
15 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/al-andalus-sad-story-downfall/d/99543