New Age Islam
Sat Feb 08 2025, 12:44 PM

Urdu Section ( 30 May 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Ramadan Provides Very Good Opportunity To Change The Course of Life رمضان کا مہینہ تبدیل راہ کے لئے بہت اچھا موقع ہوتا ہے

عبد المعید ازہری ، نیو ایج اسلام

زندگی کی رفتار کی نوعیت اور اس کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ سیدھی لائن میں چلنے کی بجائے اوپر نیچے چڑھتی اور گرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے ۔ زندگی بھر کچھ عرصہ وقت کے بعد ایک موڑ آتا ہے ۔ جہاں سے زندگی کا خاکہ نسبتا تبدیل ہوتا ہے ۔ اس کا تصور زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے ۔ انسانی حیات کا ہر پہلو انہیں ٹیڑھی میڑھی لکیروں کے درمیان سے ہو کر گذرتا ہے ۔ یہ موڑ کا فلسفہ ہر جان دار وبا شعور کو دعوت فکر دیتا ہے ۔ زندگی بھر موقعہ دیتا ہے کہ گذرتے ہوئے وقت سے سیکھ لے کر حال کو درست راستے پر رکھا جائے تاکہ مستقبل یاد ماضی کے عذاب سے محروم ہو سکے ۔ یا ماضی کے کامیابی کے نقوش حال میں استحکام حاصل کریں جس سے مستقبل مزید روشن و تابناک اور دوسروں کے لئے بھی کارگر و مفید ہو سکے ۔

رمضان کا مہینہ مسلمانوں کی زندگی کا اہم ترین موڑ اور موقعہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس ماہ سال بھر کی سہولیات سے کہیں زیادہ مواقع انسانی حیات کو حاصل ہوتے ہیں ۔ غور وفکر کے بعد تبدیل راہ کے لئے اس ماہ مبارک سے بڑھ کر کوئی اور وقت نہیں ہو سکتا ہے ۔ اس ماہ روزے کی عبادت انسان کا جسم اور اس کی روح دونوں کو پاکیزگی اور روحانیت عطا کرتی ہے ۔ ذہن و دماغ بھی قدرے صاف ہوتا ہے ۔ ماحول کافی خوش گوار ہوتا ہے ۔ خدائی نعمتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ایک الگ قسم کی ذہنی، فکری اور نظریاتی تقویت و توانائی ملتی ہے ۔

اگر اس وقت بھی مسلمانوں نے اپنی حالت رفتہ پر غور نہیں کیا تو شاید یزیدیت کا طاغوت مسلمانوں کے گلے میں ایک طویل عرصہ دراز تک کے لئے مستقل طور پر ڈال دیا جائے گا ۔ 2019 کے عام انتخابات میں مسلمانوں کی عدم حصے داری نے اس کا واضح ثبوت پیش کیا ہے ۔ ایک طرف اقتدار کی حکومت جہاں کھلے طور مسلمانوں کی ضرورت سے انکار کر چکی ہے وہیں دوسری طور دیگر سیاسی جماعتیں بھی مسلمانوں کی ضرورت تو محسوس کرتی ہیں لیکن ان کی سیاسی و سماجی حصے داری کی کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں ہےں ۔ یہی نہیں خود مسلمانوں کے ذہن و فکر بھی اس قدر مفلوج ہو گئے ہیں کہ انہیں بھی ہر حال میں اور ہر موڑ پر اپنے آپ کواور اپنی قوم کو بیچنے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ دور حاضر کا مسلمان ذہنی و فکری طور پر اس قدر مرعوب ہو چکا ہے کہ اس کا ہر قدم اس کے خلاف جا رہا ہے ۔

ایسے میں مسلمانوں کا داخلی انتشار اور مذہبی فرقہ بندی مستقبل کی تاریکی کو اور گہرا کرتی جا رہی ہیں ۔ مذہبی پیشوا، سیاسی رہنما اور سماجی کارکن سبھی نے ہتھیار ڈال دئے ہیں ۔ یا تو مرعوب ہو گئے ہیں یا معذول کر دئے گئے ہیں ۔ عوامی انتشار بھی فی الحال اس حالت میں نہیں ہے کہ اس سے کسی طرح کی حکمت و دور اندیشی کی امید کی جا سکے ۔ مسلمانوں کی اپنی مذہبی حیثیت یہ ہو چکی ہے کہ وہ خود اپنے مذہب و شریعت کا باغی ہو چکے ہےں ۔ جس مذہب نے سماجی تانے بانے کو مضبوط کیا تھا ۔ صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ جیسی بے مثال تاریخیں دی تھیں ۔ پیغمبر کی مکی اور مدنی زندگی کے قابل تقلید پہلو دئے تھے ۔ انصار ومہاجرین کی حیرت انگیز روایتیں دی تھیں ۔ ابو طالب کا اسلام اور پیغمبر کی حفاظت کرنا اور پیغمبر کا ایک منافق کے ساتھ حسن سلوک کرنا جیسے کردار جس مذہب کا حصہ ہوں اسے فراموش کرنا تو تباہ کی دعوت کو لازم کرتا ہی ہے ۔ پیغمبر کے دین سے بغاوت نے متعدد مذہب پیدا کر دئے ۔ جن کی وجہ سے مسلمان اس قدر داخلی مسائل میں الجھ گیا کہ اس کے ہاتھوں سے دین آٹے سے بال کی طرح دھیرے سے نکل گیا ۔

اس وقت مسلمانوں کی سیاسی صورت حال یہ ہے کہ ان کے پاس صرف ایک ہی آپشن ہے کہ اس قوم کے مذہبی و سیاسی ٹھیکیدار قوم کے مسائل کی بات نہ کر کے ان کے ووٹ کی قیمت لگائیں اور ذاتی مفاد کے چکر میں ان کا سیاسی سودا کر لیں ۔ یہی ہو رہا ہے ۔ عوام بھی اس قدر غفلت کی نیند میں ہے کہ اسے یا تو مذہب سے بیزاری یا پھر اپنے اپنے گروہ کے اسلام کی فکر میں دن کاٹ رہے ہےں ۔ ایک ہی کلمہ پڑھنے والے یہاں تک کہ ایک ہی گروہ کے ٹوپی بردار اور ٹائی بردار مذہب کے نام پر بٹ گئے ہیں جبکہ اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسئلے کے حل کے لئے فکر کون کرے ۔ موجودہ سیاسی رہنمائی نے سوداکر رکھا ہے ۔ مذہبی پیشوا اپنا خود کا دین بچانے میں لگے ہیں ۔ سماجی کارکن بغیر کسی پروجیکٹ کے کام کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ عوام بھی گرویدہ طلسم و طمع ہو چکی ہے ۔ سماجی، سیاسی، معاشی اور مذہبی تانے بانے کی جو بھی صورتیں سب اس قدر منتشر اور بکھری ہوئی ہیں مانوں دنیا میں ان کا وجود ایک دوسرے کے مد مقابل کے طور پر ہوا ہو ۔

دور حاضر مسلمانوں کے اپنے وجود کے لئے ایک ایسا وقت ہے جہاں سے اس کی اپنی شناخت مٹھی میں ریت کی مانند پھسلتی جا رہی ہے ۔ یہ وقت غور کرنا ہے کہ سماجی، مذہبی او ر سیاسی تانے بانے کو کیسے متحد کیا جائے ۔ خدائی دعوے داروں درکنار کر کے یا تو خالص مذہبی بنیاد پر از سر نو غور فکر ہو جس میں قابل تقلید نمونہ پیغمبر اسلام کی ذات ہو یا پھر مذہبی اقدار کو ذاتی طور پر رکھ قومی مفاد پر بات ہو ۔ کسی کا عقیدہ و عمل ٹٹولنے کی بجائے قومی مفاد ہی مقصود اتحاد ہو ۔ یہ کام قدرے مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے آ ج کے مسلمانوں کو اسلام میں داخل ہونا پڑے گا ۔ پیغمبر کے اسلام میں داخل ہو کر ان مسائل کا حل ممکن ہے ۔ راءج مسلمانوں کے اسلام میں تو نجات کی کوئی سبیل فی الحال نظر نہیں آتی ۔ البتہ مستقبل کا اندھیرا اور تاریک ہوتا جا رہا ہے ۔

عوامی بیداری بھی اس کا اہم پہلو ہے ۔ سماجی کار کنوں کو بھی تجدید فکر و عمل درکار ہوگی ۔ اس سے قبل اس سے نازک حالات کا سامنا دنیا کی قوموں بشمول مسلمانوں نے کیا ہے ۔ وہ بے نظیر روایتیں اور تاریخیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ علامہ اقبال نے بھی اس کا اشارہ دیا ۔

یقین محکم، عمل پیہم محبت فاتح عالم، جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں ۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ramadan-provides-very-good-opportunity/d/118744

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..