عبد المالک مصباحی، نیو ایج اسلام
29 جنوری، 2015
اسلام امن وامان ، راحت وقرار اور اطمینان و سکون کا داعی و علمبردار ہے اور دہشت گردی، جبرو استبداد، ظلم و عدوان، قہر وزیادتی کا مجسمہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے متضاد ہیں، دونوں میں کسی بھی طرح سے دور کابھی واسطہ نہیں ہے۔ جس طرح سے آگ اور پانی، رات اور د ن، سفیدی اور سیاہی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ٹھیک اسی طرح سے اسلام اور دہشت گردی کا اجتماع نہیں ہوسکتا مگر اسے اس صدی کا عجوبہ ہی کہاجائے گا کہ آج دونوں کو ایک ساتھ جو ڑ کر دیکھا جارہاہے۔ دونوں کو ایک ساتھ ملا کر پیش کیاجارہاہے اور حیرت بالائے حیرت یہ کہ دانستہ یانادانستہ طورپر اس کام میں دوسروں کے ساتھ اپنے بھی کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔ قرآن جو انسانیت کے لئے رحمت وبرکت کا خزانہ ہے اور جس میں انسانیت کے لئے حیات ابدی کے انمول جواہر ہیں آج اس کی من مانی تفسیر و توضیح کرکے کلام الٰہی کی عظمت پامال کی جارہی ہے۔ کچھ لوگ قرآن کے سیاق وسباق سے صرف نظر کرکے آیات کا غلط مفہوم پیش کرکے ناخواندہ افراد کو اپنے دام تزویر میں پھنساکر ہلاکت وبربادی کے سامان فراہم کرتے ہیں۔
زیرنظر عنوان پرمزید گفتگو کرنے سے پہلے بہتر یہ ہے کہ اسلام اور دہشت گردی کے معنٰی و مفہوم کو سمجھ لیاجائے تاکہ بات بآسانی ذہن میں اتر سکے اور مقصد تک رسائی میں کسی طرح کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اسلام کا معنی ہے : گردن جھکانا، اطاعت کرنا، مسلمانوں کادین۔ ۱
بغیر کسی پس و پیش کے امر ونہی کی فرمانبرداری کرلینا۔ ۲
دہشت گردی:دہشت + گردی = دہشت گردی کا معنی ہے خوف و ہراس پھیلانا ۔
دہشت ۔ خوف، ڈر، ہراس اور خطرہ وغیرہ کے معنیٰ میں آتاہے۔ انگریزی زبان میں اس کے لئے Terror کا لفظ استعمال کیاجاتاہے۔
دہشت گردی کا مفہوم:
دہشت گردی عصر حاضر کا ایک ایسا معمہ ہے جسے آج تک اچھے پڑھے لکھے، دانشور اور شریف لوگ نہیں حل کرپائے اس تعلق سے بڑی بڑی کانفرنسیں ہوئیں، مقالے لکھے گئے حتیٰ کہ کتابیں چھاپی گئیں مگر یہ معمہ ابھی تک جوں کا توں ہے۔ کیونکہ ایک ہی کام کسی کے نزدیک دہشت گردی ہے اور ٹھیک وہی کاروائی اور کام دوسرے کے نزدیک قومی اور سماجی خدمت ہے۔ وہی کام اگر کسی ایک جماعت کا آدمی کرے تو فتنہ و فساد اور بغاوت کے نام سے جاناجاتاہے اور بعینہ وہی کام دوسرے گروہ کا آدمی انجام دے تو شجاعت و بہادری اور دیش بھگتی کہکر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
‘‘۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس ہونے والی بحث بھی دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے میں ناکام رہی۔ اس سلسلے میں آکسفورڈ کنسائزڈ ڈکشنری آف پالیٹکس کا مندرجہ ذیل اقتباس قابل غور ہے:
‘دہشت گردی: حکومتوں یا اہل علم تجزیہ نگاروں کے درمیان اس کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں۔ بالعموم نقصان پہچانے والی سرگرمیوں کو بیان کرنے کے لئے یہ بلا استثناء برے مفہوم میں استعمال کی جاتی ہے جو خود ساختہ نیم سرکاری گروہ سیاسی مقاصد کی خاطر انجام دیتے ہیں لیکن اگر یہ سرگرمیاں کسی مقبول عام مقصد کے حصول کے لئے کی جائیں۔۔۔ مثال کے طور پر وچی فرانس کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے مارکویس کی کوشش۔۔۔ توپھر لفظ دہشت گردی کے استعمال سے عام طور پر احتراز کیاجاتاہے اور اس کی جگہ زیادہ دوستانہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ایک شخص کسی کے خیال میں دہشت گرد اور دوسرے فرد کے نزدیک آزادی کا سپاہی ہوتاہے۔
بعض اوقات دہشت گردی نیم سرکاری اداروں کی بجائے حکومتوں کے لئے بھی برے مفہوم میں استعمال کی جاتی ہے مثال کے طورپر ریاستی دہشت کی اصطلاح بعض اوقات گسٹاپو کے جی بی(G.B) اور جرمنی کے سٹیٹ سائی اور ان جیسے دوسرے اداروں کے بارے میں بھی استعمال کی جاتی ہے جنہیں سرکاری طورپر خود اپنے ہم وطن شہریوں میں سے اختلاف کرنے والے یا نسلی اقلیتوں کے خلاف کاروائیوں کے لئے بھی استعمال کیاجاتاہے۔ دوسری ریاستوں میں اس پالیسی کے تحت بلاواسطہ انجام دی جانے والی پر تشدد کاروائیاں یا ان میں بالواسطہ مدد کو بھی ریاستی دہشت گردی قرار دیاجاتاہے۔
موجودہ دور میں مختلف رجحان رکھنے والے ممالک انہی کاموں کے لئے دوسرے ملکوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسی طرح کی سرگرمیوں میں خود بھی ملوث رہے ہیں۔ مثال کے طور پر رونالڈیگن کے دور صدارت میں خود امریکہ نے مختلف حکومتوں خاص طور پر لیبیا کو مورد الزام ٹھہرایا جب کہ اس وقت نکارا گوا کے خلاف نیم سرکاری تشدد کی کھلے عام پشت پناہی امریکہ نے کی۔ حالانکہ نکارا گوا کی حکومت کے ساتھ اس کے مکمل سفارتی تعلقات قائم تھے۔ اس طرح کی کھلے عام عدم مطابقت سے شاید ہمیں زیادہ حیرت زدہ نہیں ہوناچاہیے اگرہم یاد رکھیں کہ امریکی ڈالر پر سیاسی مقاصد کے لئے نیم سرکاری تشدد کرنے والی ایک مشہور شخصیت یا دہشت گرد یا آزادی کے سپاہی یعنی جارج واشنگٹن کی تصویر ہوتی ہے۔(۳)
اس تعلق سے انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتاہے کہ
"Terrorism is the systematic use of terror or unpredictable violence against governments, publics, or individuals to attain a political objective. Terrorism has been used by political organizations with both rightist and leftist objectives, by nationalistic and ethnic groups, by revolutionaries, and by the armies and secret police of governments themselves." (4)
‘‘دہشت گردی کسی سیاسی مقصد کے حصول کے لئے حکومت ،عوام یا کسی فرد کے خلاف باقاعدہ ومنظم طورپر خوف و ہراس یا ناقابل تصدیق تشدد کے استعمال کا نام ہے۔ سیاسی تنظیمیں اپنے قدامت پسندانہ اور جدت پسندانہ اہداف کے حصول کے لئے دہشت گردی کرتی ہیں۔ اسی طرح قوم پرست، نسلی و لسانی گروہ، انقلاب پسند گروہ اور خود حکومتی فوج اور خفیہ پولس بھی دہشت گردی کا ارتکاب کرتی ہے۔’’
مذکورہ اقتباسات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دہشت گردی قتل وغارتگری ہے اور اس کا استعمال عام آدمی سے لیکر حکومت کے کارندے تک اپنے مقصد کے حصول کے لئے کرتے ہیں۔ اس کاتعلق کسی خاص مذہب، جماعت اور گروہ سے نہیں ہے۔ ان حالات کے تناظر میں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا سراسر زیادتی ہے۔ شروع سے اب تک جن انصاف پسندوں نے اسلامی تعلیمات کا گہرائی سے مطالعہ کیا وہ اس کی پرامن اور بقائے باہمی کی تعلیمات سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے جب اپنی حقیقت بیانی کا اظہار کیا تو برملا اسلام کو پر امن اور انصاف کا داعی و علمبردار کے طور پر لکھا اور کہا۔
ابھی حال ہی میں ۲۴؍جنوری ۲۰۱۵ء کو’’ورلڈ اکانامک فارم‘‘سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا۔
‘‘اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور یہ بات صریحاً غلط ہوگی کہ دہشت گردی اور پر تشدد انتہا پسندی کے لئے کسی طور اسلام کو قصور وارٹھہرایا جائے۔ مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو امن اور سلامتی کا درس دیتاہے جبکہ دہشت گردی یا پرتشدد انتہا پسندی چند افراد کا ذاتی قبیح فعل ہے۔ یہ ذاتی عناصرہی ہیں جو مذہب کا نام لیکر دنیا میں تباہی، قتل عام اور بربادی پھیلارہے ہیں جس کی مذہب ہرگز اجازت نہیں دیتا۔‘‘ ۵
جان کیری نے بڑی معقول اور انصاف آمیز بات کہہ کر دنیا کی منفی سوچ پر ازسر نو غور کرنے کی دعوت دی جس کا خیر مقدم کیاجاناچاہیئے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حقیقت یہی ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ دہشت گرد اپنے مقصد کے حصول کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں اور یہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوسکتے ہیں۔
دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کے لئے جو لوگ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں انہیں ذرااس پہلو سے بھی سوچنے کا وقت نکالنا چاہیے کہ جو مذہب (اسلام) قتل و غارتگری تو بہت دور کی بات ہے’ یتیموں کے سروں پر دست شفقت کو اتنا عزیز رکھتا ہو کہ اس کے مال کی طرف ہاتھ بڑھانے سے سختی سے منع کرتاہو۔ جیساکہ قرآن جو مسلمانوں کی بنیادی مذہبی کتاب ہے ۔اس میں ہدایت دیتے ہوئے فرمایاگیاہے۔
اور یتیموں کو ان کے مال دو او رستھرے کے بدلے گندا نہ لواور ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر نہ کھاجاؤبیشک یہ بڑا گناہ ہے۔( پ۴۔ النساء۔۲)
حد تو یہ ہے کہ یتیموں پر کسی طرح کی سختی سے بھی روکاگیاہے۔
تو یتیم پر دباؤنہ ڈالو۔(پ۳۰ ۔الضحیٰ۔۹)
یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرماتے ہوئے آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔
مسلمانوں کے گھروں میں وہ بہت اچھا گھر ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہے اور وہ بہت برا گھر ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا برتاؤکیاجاتاہو۔ وہ بھلا دوسروں کو تکلیف دینے کی اجازت کب دے سکتاہے؟
جو مذہب آپسی رشتہ داری کاٹنے والے کی سرزنش کرتا ہو بھلا وہ گردن کاٹنے کی کب اجازت دے سکتاہے۔
اور جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں پکا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدانے حکم دیا اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان میں ہیں۔ (پ۱۔ البقرہ۔۲۷)
تو کیا تمہارے یہ لچھن (انداز) نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین مین فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو۔ (پ۲۶۔ محمد۔۲۲)
جو مذہب بدلہ لینے کی اجازت تو دیتا ہو مگر معاف کرنے کو افضل بتاتا ہو بھلا وہ خوف وہراس پر کب برانگیختہ کرسکتاہے؟
اور برائی کا بدلہ اسی کی برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پرہے۔بیشک اللہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو۔اور بیشک جس نے اپنی مظلومی پر بدلہ لیا ان پر کچھ مواخذہ نہیں مواخذہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سر کشی پھیلاتے ہیں۔ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(پ۲۵۔الشوریٰ ۴۰ْ۔۴۲)
جو مذہب زمین میں فساد پھیلانے کی سزا قتل بتاتا ہو بھلا وہ نفس قتل کی چھوٹ کب دے سکتاہے؟
وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کئے جائیں یا سولی دئے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کردئیے جائیں یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ۔(پ۶۔المائدہ ۳۳)
جو مذہب ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہو بھلا وہ قتل عام کی اجازت کب دے سکتاہے ؟
جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیااور جس نے ایک جان کو جِلایااس نے گویاسب لوگوں کو جِلایا۔(پ۶۔المائدہ ۳۲)
جو مذہب اتنی اعلیٰ اور نفیس تعلیم دیتا ہو اس کی طرف خون خرابہ اور قتل و غارتگری کی نسبت کرنا انصاف اور دیانت کا سر عام خون بہاناہے۔ اسلام نے ہر شخص کو اپنے کئے کا ذمہ دار ٹھہرایاہے۔
اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالاجائے گا۔
( پ۸۔الانعام۱۶۵۔پ۱۵۔بنی اسرائیل۔۱۵۔پ ۲۲۔الفاطر ۱۸۔پ۲۳۔الزمر۷۔ )
جب ایک شخص کے عمل کا سوال دوسرے سے نہیں کیاجائے گا تو فرد خاص یا جماعت خاص کا ذمہ دار اسلام کو کیسے ٹھہرایاجاسکتاہے۔ اس لئے جو کسی فرد یا جماعت کی جابرانہ کاروائی کو اسلام سے جوڑتے ہیں انہیں اپنے خیالات پر ٹھنڈے د ل سے غور کرنا چاہیے۔
مآخذ
1 فیروز اللغات ص 94مطبوعہ فرید بکڈپو دہلی
2مصباح اللغات ص 396۔فرید بکڈپو،دہلی
3 آکسفورڈکنسائزڈڈکشنری آف پالیٹکس ص 492۔493
4 The new Encyclopedia Britannica .Vol, 11,p 650-
5 اخبار مشرق 25؍جنوری 2015ص 5
عبد المالک مصباحی نصف درجن سے زائد تاریخی، فکری اور اصلاحی کتابوں کے مصنف ہیں، سیکڑوں مضامین ملک اور بیرون ملک کے رسائل و جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ نیزسہ لسانی و سہ ماہی فیضان مخدوم اشرف، رانچی کے چیف ایڈیٹر ہیں۔amalikmisbahi@gmail.com
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/islam-terrorism-/d/101241